تحریر: قاضی سلیم
ٹیلی ویژن چینلز پر ہر کوئی واقعہ چاہیے چھوٹا ہو یا بڑا، اہم ہو یا غیر اہم پرائم ٹائم بحث و مباحثہ کا موضوع بنتا رہتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک ) اپنے ملک کے اہم حالات اور واقعات پر بہت کم توجہ مبذول کرتا ہے۔ اور اکثر اوقات اپنے مطلب کے غیر اہم موضوعات کو پرائم ٹائم بحث و مباحثہ کا موضوع بناتا رہتا ہے۔ آجکل کے دور میں ذرائع ابلاغ بہت ہی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ ملک اور قوم کو صیح سمت دینے اور دلانے کے سلسلہ میں روزمرہ کے چھوٹے چھوٹے مسائل سے لیکر ملک کے بڑے اور اہم معملات میں میڈیا ایک اہم رول نبھانے کی پوزیشن حاصل کرچکا ہے ۔ اتنے میں اگر ایک ذمہ دار میذیا اپنے فرض منصبی سے غفلت برت رہا ہو یا کم ازکم کوتاہی کا شکار ہورہا ہو تو یہ اسکا اپنے ملک و قوم کی تئیں ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ ہمارا ملک فلوقت ایک بڑے نظریاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ مذہبی کٹر پن اور علاقائی تعصب نے اس ملک اور اس میں رہنے والے شہریوں کو ٹکڑوں میں بانٹ کے رکھا ہے۔ نفرت کی ہولناک آگ کسی بھی وقت سارے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ ہر ایک شخص دوسرے کا جانی دشمن بن چکا ہے۔ ایک چھوڑی سی چنگاری کی منتظر یہ آگ کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ اتنے میں ہمارا میڈیا اپنے ہی لگن میں مست ھے۔ ہر شام دوسروں کے نام کرکے اپنے اور اپنی قوم کے انجام سے بےخبر پرائم ٹائم بحث و مباحثہ میں ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کررہاہے۔ یوکرین کی جنگ کو ہی لیجیئے۔ یہاں کی بڑی سے بڑی ٹی وی چینل اپنا بیشتر وقت اسی جنگ کو کور کرنے میں لگی رہتی ہے۔ ٹھیک ہے کہ ایک ذمہ دار میڈیا کا دنیا میں رونما ہورہے حالات واقعات سے اپنے سامعین اور ناظرین کو باخبر رکھنا اس کا اولین فرض اور بنیادی ہدف ہوتا ہے۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ زمانہ میں اور بھی ہے غم محبت کے سیوا ۔ جنگ خدانخواستہ اپنے اور اپنے اڑوس پڑوس کے درمیان واقع ممالک میں تو ہے نہی۔ دور مشرق میں یورپ کے ایک چھوٹے سے یوکرین نامی ملک میں لڑی جارہی ہے۔ بچہ بچہ جانتا اور سمجھتا ہے کہ یوکرین کی یہ لڑائی دو بڑے سورماوں کی آپسی بالادستی کی لڑائی ہے اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ لڑی جارہی ہے۔ حتی’ کہ بقیہ دنیا کو بےوقوف بنایا جارہا ہے۔ باور کرایا جارہاہے کہ لو صاحب ساری دنیا پر عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔حقیقت میں نہ ہی عالمی جنگ ہوگا اور نا ہی اس کا جنگ زدہ یوکرین کی سرحدوں سے آگے بڑنےکا کچھ زیادہ امکان ہے۔ جنگ ہوئی تو 1939میں، جنگ ہوئی تو 1942 میں۔ جنگ ہوئی عراق و ایران میں، جنگ ہوئی ہندوستان و پاکستان میں۔ سبوں کو تباہ و برباد کرکے چھوڑا گیا ۔جنگ جاری ہے تو اسرائیل اور فلسطین میں۔ صدیوں سے جاری رکھا گیا ہے۔ظالموں کی مدد کی جارہی ہے اور مظلوموں کو پسا جارہا ہے۔ یوکرین میں بھی بلا شبہ ایک لڑائی چل رہی ہے اور اس چھوٹے سے یورپی ملک کی بھی تباہی ہورہی ہے لیکن پناہ گزینوں کو اچھی سے اچھی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ کروڈوں اربوں ڈالر امداد کے طور عطا کۓ جارہے ہیں۔ دنیا یک طرفہ ہوگی ہے۔ یوکرین کی بھر پور مالی، اخلاقی اور سفارتی حتی’ کہ ہتھیار وں سے مدد کی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ خاص کر ٹی وی چینلز وقتا فوقتا گراۓ جارہے بموں کو بار بار پورے 24 گھنٹے دکھارہے ہیں۔ تاکہ دنیا کا راۓ عامہ یوکرین کے حق میں کیا جاۓ۔ اس کے برعکس مظلوم ملکوں پر گر رہے بموں کو کون دکھاۓ کیونکہ وہ کسی اور کی لڑائی ہے۔ وہاں کوئی اور ہی مارا جارہاہے۔ یہ سب کچھ بڑے ملکوں کا آپسی کھیل ہے جو اپنی پوری طاقت کے ساتھ کبھی بھارت اور پاکستان میں کھیلی گئی تو کبھی عراق اور ایران میں۔ بالادستی کی یہ لڑائی کبھی افغانستان میں لڑی جاتی ہے تو کبھی شام۔ غرض ایسی لڑایاں تو ہر دوسرے تیسرے ملکوں کے درمیان آۓ دن ہوتی رہتی ہیں۔
آمد بمطلب ؛ ہمارے ادارے خصوصا” ہمارے نشریاتی اور اطلاعاتی ادارے تو اوروں کی فکر میں لگ چکے ہیں ،غیروں کی مرہم پٹی کرنے میں تو مشغول ہیں جبکہ گھر میں اپنا جگر لہولہان ہورہا ہے۔ ہر روز شرپسندوں کے اوچھے ہتھیاروں سے اپنے ہی بھائی زخمی ہورہے ہیں، اپنے ہی ہم وطنوں کی زمین تنگ کی جارہی ہے۔ اور یہ غیر ذمہ دار میڈیا اس آگ کو بجھانے کے برعکس اس سے ہوا دے رہا ہے تاکہ اس آگ سے شعلے اٹھے دیکھکر ان کی بے حسی ان کی مدہوشی بن کر ان کے بے لگام طبعیت کو تشفی دے سکے۔ افسوس کہ اس گنگا میں اب نام نہاد دیش بھگت کہلانے والے بڑے بڑے لوگ بھی ننگا دکھ رہے ہیں۔
کیا ان اہم حالات واقعات کی طرف توجہ دے کر ان کو پرائم ٹائم بحث و مباحثہ کا موضوع نہی بنایا جاسکتا؟ ان کا حل نہی ڈھونڈا جاسکتا؟ اور کیا یہ ہمارے میڈیا ہاوسز کی ذمہ داری نہی بنتی کہ وہ ان مسائل پرچرچا کرواکر عوام کو ان شرپسندوں سے خبردار رکھتے جو اس ملک اور قوم کو خانہ جنگی کی بھیانک آگ کی طرف دھکیل رہے ہیں یا دھکیل چکے ہیں۔ وقت گزرتا جارہا ہے اور بہت تیزی کے ساتھ گزرتا جارہا ہے۔ اگر ہم بہت جلد سدھر نہ سکے تو نہ ہم رہینگے اور نہ تم رہوگے۔ سب کچھ بکھرجاے گا