تحریر:مفتی غلام یسین نظامی
اگر ہم تاریخ اسلام کا گہرائی اور گیرائی سے مطالعہ کریں تو ہمیں ایسی معظم محتشم ہستیاں نظر آتی ہیں جن کی حیات طیبہ کے اہم گوشوں پر روشنی ڈالی جائے تو یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ وہ ہستیاں ہمارے لیے نمونہ عمل بن سکتی ہیں۔انہی مکرم ہستیوں میں سے ایک مثالی ہستی کا نام نامی مخدومہ کائنات، ام المومنین سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کی ذات با برکت ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور دین اسلام کی تصدیق کرنے والی تھیں۔ آپ کو حضور کی پہلی زوجہ ہونے کی سعادت بھی حاصل ہے۔اوردین اسلام اور بارگاہ مصطفی میں بڑی فضیلت حاصل ہے۔ ایسی عظیم فضیلت کہ سیدہ فاطمۃ الزہرہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا جیسی ہستی آپ ہی کے بطن سے پیدا ہوئیں۔آپ خاندان قریش کی ممتاز اور باوقار خاتون تھیںاورحسن سیرت، اعلیٰ اخلاق، بلند کردار اور شرافت و مرتبہ کی وجہ سے مکہ مکرمہ اور اردگرد کے علاقے میں ’’طاہرہ‘‘ کے پاکیزہ لقب سے مشہور تھیں۔ غریب پروری اور سخاوت آپ کی امتیازی خصوصیات تھیں۔ علاوہ ازیں حسن صورت اور حسن سیرت میں بھی اپنی ہم عصر خواتین میں ممتاز تھیں۔اورآپ کا سلسلہ نسب چوتھی پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جاتاہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ قریش کی شاخ بنو اسدسے تھاجو اپنی شرافت، ایمانداری اورکاروباری معاملات کی وجہ سے میں لوگوں کی نگاہ میں قابل عزت و احترام تھا۔
فضائل ومناقب:
1۔سیدہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا خود بیان کرتی ہیں کہ جبرائیل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! یہ خدیجہ آرہی ہیں ان کے ساتھ ایک برتن ہے اس میں سالن اور کھانا ہے، جب وہ آپ کے پاس آجائیں تو ان کو ان کے پروردگار کی طرف سے سلام پہنچایئے اور میری طرف سے بھی، اور ان کو خوشخبری سنایئے جنت میں موتیوں سے بنے ہوئے ایک گھر کی، جس میں نہ شور و شغب ہوگا اور نہ کوئی زحمت و مشقت ہوگی۔
2۔سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر خدیجہ بنت خویلد ہیں۔
3۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ سیدہ خدیجہ پر آیا حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بہت یاد کرتے اور بکثرت ان کا ذکر فرماتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے، پھر اس میں سے حصے بنا کر سیدہ خدیجہ سے میل جول اور محبت رکھنے والیوں کے ہاں بھیجتے۔
بسا اوقات میں کہہ دیتی۔۔۔ دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں، اس پر آپ فرماتے کہ خدیجہ تو خدیجہ تھی اور ان سے میری اولاد ہوئی۔
4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے (اتباع کرنے کے) لئے چار عورتیں ہی کافی ہیں۔ مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ۔
5۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی بھی سیدہ خدیجہ کا ذکر فرماتے تو ان کی خوب تعریف فرماتے: آپ فرماتی ہیں کہ ایک دن میں غصہ میں آ گئی اور میں نے کہا کہ آپ سرخ رخساروں والی کا تذکرہ بہت زیادہ کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر عورتیں اس کے نعم البدل کے طور پر آپ کو عطا فرمائی ہیں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بہتر بدل عطا نہیں فرمایا وہ تو ایسی خاتون تھیں جو مجھ پر اس وقت ایمان لائیں جب لوگ میرا انکار کر رہے تھے اور میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلا رہے تھے اور اپنے مال سے اس وقت میری ڈھارس بندھائی جب لوگ مجھے محروم کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری عورتوں سے مجھے اولاد عطا فرمانے سے محروم رکھا۔
امتیازی خصوصیات:
1۔ کڑے حالات میں تسلی:
نکاح کے تقریباً 15برس بعد اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف ختم نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ پر شدید حالات آئے تو اس کڑے وقت آپ کو جس طرح کی دانش مندانہ و ہمدردانہ تسلی کی ضرورت تھی وہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و توفیق سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی سے ملی۔جب پہلی وحی کے آغاز پہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہانے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
2۔ اسلام کی خاتونِ اوّل ہونے کا اعزاز:
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نزول وحی کے ابتدائی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مکہ کی پوری آبادی میں موحد صحیح العقیدہ نصرانی اور توریت و انجیل کے بڑیعالم و عامل تھے، انہوں نے رسول اللہ سے غارحرا میں جبرائیل اور نزول وحی کی سرگزشت سن کر پختہ یقین کے ساتھ آپ کے نبی ہونے کی بات کہی توآپ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پوری امت میں سیدہ خدیجہ سب سے پہلے آپ کے برحق نبی ہونے کی تصدیق کرنے والی ہیں۔
3۔ اپنی دولت رسول اللہ پر قربان کردی:
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالی نے دولت مندی کی نعمت سے بھی خوب نوازا تھا،آپ نے اپنی پوری دولت اور اپنے غلام زید کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا اور آپ کودین اسلام کی اشاعت کے مقدس مشن میں گھریلو معاشی افکار سے بے نیاز کر دیا۔
4۔ بت پرستی سے بیزاری:
اہل مکہ بت پرستی کے شرک میں مبتلا تھے،لیکن جاہلیت کے اس دور میں گنتی کے دوچار آدمی ایسے بھی تھے جن کو فطری طور پر بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں ایک ام المومنین سیدہ خدیجہ بھی تھیں۔
5۔ شعب ابی طالب میں تین سالہ محصوری:
مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام کو روکنے کے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کا اور آپ کے خاندان بنو ہاشم کے ان تمام لوگوں کا بھی جنہوں نے اگرچہ آپ کی دعوت اسلام کو قبول نہیں کیا تھا لیکن نسبی اور قرابتی تعلق کی وجہ سے آپ کی کسی درجہ میں حمایت کرتے تھے سوشل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے وہ قریبی رشتہ دار بھی شعب ابی طالب میں محصور کر دیے گئے، کھانے پینے اور بنیادی ضروریات سے محروم کر دیا گیا اور یہ بائیکاٹ تین سال کے عرصہ تک محیط رہا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو کبھی کبھی درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑا۔ ایام محصوری کے اس تین سالہ دور میںسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہیں۔
6۔ آپ کے ہوتے ہوئے دوسرا نکاح نہیں کیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ام المومنین سیدہ خدیجہ سے شادی کی اس کے بعد تقریباً 25 سال تک آپ زندہ رہیں، اس پورے 25 سالہ دور میں رسول اللہ نے کوئی دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔
وفات:
ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا 25 سال تک رسول اللہ کی جانثار، ا طاعت گزار اور وفا شعار بیوی بن کر زندہ رہیں اور ہجرت سے 3 برس قبل 64 سال کی عمر پاکرتقریباً ماہ رمضان المبارک کی 10 تاریخ کو مکہ معظمہ میں وفات پا گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جحون (جنت المعلی) میں آپ کو اپنے ہاتھوں قبر مبارک میں اتارا۔ چونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا، اس لئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔