تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
عید نئے کپڑے پہننے کا نام نہیں ہے ۔ عید گوشت خریدنے اور وازہ وان کھانے کا نام نہیں ہے ۔ عید بیکری کی خریداری کا نام نہیں ہے ۔ عید انواع و اقسام کے کھانے تیار کرنے کا نام نہیں ہے ۔ عید خوشیاں تلاش کرنے اور سمیٹنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ عید خوشیوں بٹورنے اور بانٹنے کا نام ہے ۔ عید دوسروں کو خوش رکھنے اور خوش کرنے کا نام ہے ۔ عید صرف عید گاہ میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا نام نہیں ہے ۔ عید خوشبو لگانے اور تکبیریں پڑھنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ عید دوسروں کو کھلانے پلانے کا نام ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اس روز آدمی خوشی کے بجائے غم والم میں رہے ۔ ایک مہینے کی روزہ داری کے بعد عید منانا روزہ دار کا حق بنتا ہے ۔ تاہم یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ روزوں کے ساتھ صدقہ فطر کی تاکید کی گئی ہے ۔ روزوں کے حوالے سے کہا گیا کہ بیماروں ، دودھ پلاتی مائوں اور مسافروں کے لئے چھوٹ ہے ۔لیکن صدقہ فطر کے لئے کہا گیا کہ عید کے نماز سے پہلے جو بچہ پیدا ہوگا اس کا بھی صدقہ فطر ادا کرو ۔ تاکہ محلے ، بستی اور علاقے کا کوئی باشندہ خالی پیٹ نہ رہے ۔ کم از کم ایک دن ایسا ہو جب ساری انسانیت دکھ درد اور پیٹ کی جلن سے آزاد ہو ۔ ایک دن ہی سہی کم از کم غریب پیٹ کی آگ بجھا سکیں ۔ عید مناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہمارے آس پاس کچھ ہمارے اپنے لوگ ہیں جہاں اس روز بھی حسرتیں ڈھیرہ ڈالے ہوئے ہیں ۔ ایسے گھر اب بھی موجود ہیں جہاں عید کے روز چولہا جلانا بہت بھاری کام ہے ۔ دوسرے گھروں کے سالن کی خوشبو جب یہاں پہنچ جاتی ہے تو ان کے بچے آہیں بھرتے اور آنسو بہاتے رہتے ہیں ۔ ایک ایسے موقعے پر جبکہ ایک دن میں 200 کروڑ روپے بینک کھاتوں سے نکالے گئے ، یہ سوچنا مشکل ہے کہ کچھ ایسے بھی گھر ہیں جہاں مائوں کو اپنے بچوں کو سہلانا جان لٹانے سے بھی مشکل ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے آس پڑوس میں ایسے بھی مرد ہیں جو اپنی مزدوری کی رقم سے بچوں کے لئے نئی ملبوسات تیار نہیں کرپاتے ہیں ۔ یہ پسماندہ علاقوں کی بات نہیں ۔ بلک شہروں اور دیہات میں کئی ایسے لوگ ہیں جنہیں بچے کے لئے چاکلیٹ خریدنا ان کے بس کی بات نہیں ۔ ایسے لوگوں اور ایسے گھرانوں کی خبر گیری نہ کی جائے تو عید کے معنی کچھ بھی نہیں ہیں ۔
کشمیر میں عید کے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں ۔ اگرچہ پرانی روایات ختم ہوچکی ہیں ۔ تاہم عید کی اپنی الگ آن بان اور شان ہیں ۔ عید کے موقعے پر ہر جگہ خوشیاں منائی جاتی ہیں ۔ لیکن کشمیر میں عید کی الگ ہی شان ہے ۔ یہاں تو عید کا الگ ہی منظر ہوتا ہے ۔ بڑے عید گاہ کے لئے نکلیں تو مائیں اپنے ننھے منے بچوں کو تیار کرکے ان کے ساتھ روانہ کرتی ہیں ۔ ایسا منظر پورے منظر نامے کو تبدیل کرتا اور ہر طرف خوشیاں بکھیرتا ہے ۔پچھلے کچھ سالوں سے اس طرح کی صورتحال مفقود ہے ۔ کورونا کی وجہ سے عید کی خوشیاں ماند پڑگئیں ۔ اب کی بار عید ایسے ماحول میں منائی جارہی ہے جہاں اس طرح کا ڈر اور خوف معدوم ہے ۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کورونا وائرس کو ہم شکست دینے میں کامیاب رہے ۔ آج کی عید دوہری خوشی کا باعث ہے ۔ ایک ماہ رمضان کی روزوں کے بعد اپنی روایتی رونق ۔ دوسرا کورونا سے جان چھوٹ جانے کی خوشی ۔ تاہم ابھی سے کورونا متاثرین کو فراموش کرنا صحیح بات نہیں ہے ۔ کئی عید اس طریقے سے گزر گئیں جہاں کوئی کسی کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار تھا نہ گلے ملنا ہی ممکن تھا ۔ آج بہت حد تک سہولت میا ہوگئی ہے ۔ اس کے باوجود مشور ہ دیا جارہاہے کہ احتیاط سے کام لیناضروری ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اعتدال بہت ضروری ہے ۔ ہر کام میں اعتدال کامیابی کی ضمانت ہے ۔ تفریح طبع اپنی جگہ ۔ تاہم ہسپتال پہنچنے کی نوبت نہ آنی چاہئے ۔ دیکھا گیا ہے کہ عید کے بعد ہسپتالوں میں رش بڑھ جاتا ہے ۔ جس طرح آج اے ٹی ایم مشینوں کے باہر لائن لگی ہوئی ہے یہی صورتحال عید کے بعد ہسپتالوں اور کلینکوں کے پاس دکھائی دیتی ہے ۔ کھانے پینے کے حوالے سے احتیاط نہ بھرتی جائے تو ڈاکٹر تک پہنچنا ضروری بن جاتا ہے ۔ احتیاط سے کام لینا جان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے ۔ ایسی ہدایات صرف عید کے لئے نہیں بلکہ ساری زندگی ضروری ہے ۔ کھانے پینے کے معاملے میں کشمیری بڑے فراخ دل ہیں ۔ ان کی اپنی روایات ہیں ۔ ایسی روایات کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے اپنی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔ دونوں چیزوں کو مد نظر رکھنا دانائی ہے ۔ یہی اسلام کی تعلیم ، روزہ داری کا فلسفہ اور زندگی بحال رکھنے کا تقاضا بھی ہے ۔