تحریر:الطاف حسین جنجوعہ
مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر میں تین دہائیوں کے زائد عرصہ سے ملی ٹینسی کے دوران ہزاروں کی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کا اتلا ف ہوا لیکن اِس سے بھی زیادہ یہاں شاہرائیں اور رابطہ سڑکیں مہلک ثابت ہورہی ہیں جن پر آئے روز رونماحادثات میں اموات کی تعداداِس سے کئی زیادہ ہے۔پہاڑی علاقوں میں ایسے سڑک حادثات انتہائی مہلک ثابت ہوتے ہیں جس میں گھروں کے گھراُجڑجاتے ہیں ۔ایسے حادثات میں اموات کی شرح کے حوالے سے وادی چناب اور پیر پنجال سرفہرست ہیں ۔ جموں صوبہ میں وادی چناب (کشتواڑ، ڈوڈہ، رام بن اور ریاسی کے بالائی علاقہ جات)یا پھر خطہ پیر پنجال(راجوری اور پونچھ)میں ہر روز کسی نہ کسی دلدوز سڑک حادثے کی منحوس خبر سننے کو ملتی ہے جوکسی کا لخت ِ جگر، کسی کی بہن یابھائی، کسی کے سرسے سایہ پِدری اور کسی کا سہاگ چھین لیتا ہے۔حادثات کی وجوہات میں خستہ حال سڑکیں، اوورلوڈنگ، تیز رفتاری ،گاڑیوں میں تکنیکی خرابی ، تیز، بے احتیاطی اور لاپرواہی سے ڈرائیورنگ کرنا اور ٹریفک قواعد وضوابط پر عملدرآمد نہ کرنا ، اہم ہیں لیکن ایک بڑی وجہ ٹریفک قواعد وضوابط پر عملدرآمد نہ کرنا بھی ہے۔سڑک حادثات کے حوالے سے جموں وکشمیر بھر میں صورتحال لگ بھگ یکساں ہی ہے، البتہ اِس کالم میں صرف تاریخی مغل شاہراہ پر بات کریں گے۔
خطہ پیر پنجال کو براہ ِ راست جنت ِ بے نظیر وادی کشمیر سے جوڑنے والی 84کلومیٹر تاریخی مغل شاہراہ کو جموں سرینگر قومی شاہراہ کے متبادل کے طور بھی دیکھاجاتاہے، سرینگرجموں قومی شاہراہ کی بانسبت یہ روڈ زیادہ پر خطر نہیں، البتہ چھتہ پانی سے آگے پیر گلی تک کا چھ ۔ساتھ کلومیٹر کی مسافت خطرناک ہے۔ چھتہ پانی سے دبجیاں تک ٹنل کی تعمیر سے یہ معاملہ بھی حل ہوسکتا ہے اور یہ شاہراہ سال بھر آمدورفت کے قابل بھی بن سکتی ہے۔ مغل شاہراہ کا سفرقدر ِ پر خطر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی خوبصورت بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ شاہراہ قدرتی حسن وجمال کا پیکر ہے۔شاہراہ کے دونوں اطراف صاف وشفاف بلندوبالا پہاڑی سلسلہ، جابجا سرسبز چھوٹے چھوٹے میدان، ٹیلے،جھرنے، دلکش پیڑہیں۔ اگر آپ خود کو قدرت کے انتہائی قریب محسوس کرنا چاہتے ہیں تو ایسا اِس شاہراہ پر سفر کے دوران ہوسکتا ہے۔بفلیاز سے لیکر دبجیاں کوکراس کرنے تک قدرت کے حسین مناظر دیکھ کر بے ساختہ آپ کی زبان سے سبحان اللہ، ماشا اللہ، الحمدُللہ جیسے الفاظ نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر واحسان بجالانے سے گریز نہیں کرسکتے۔قدرتی حسن وجمال کے لحاظ سے وادی کشمیر کو جنت بے نظیر کہاجاتا ہے اور سرنکوٹ کے بفلیاز سے آگے سفر شروع کرتے ہی آپ کو شدت سے احساس ہونا شروع ہوجاتاہے کہ آپ جنت ِ بے نظیر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
……لیکن مغل شاہراہ پر سفر کے دوران جوش کے ساتھ ساتھ ہوش انتہائی ضروری ہے، یہاں کوئی بھی غلطی اور چوک آپ کے لئے مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ وہ جگہیں جہاں قدرت کا جلوہ زیادہ ہو، وہاں غضب ِ قدرت بھی زیادہ ہوتا ہے۔ چار پانچ ماہ شاہراہ بند رہنے کے بعد جب بھی کھلتی ہے تو کثیر تعداد میں نوجوان موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر مغل شاہراہ پر سیر وتفریح کو جاتے ہیں ۔ اِن میں ہیلمٹ پہننے والوںکی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔ صرف ہلمٹ ہی نہیں پہنتے بلکہ موٹرسائیکل کوبھی انتہائی تیز رفتاری سے چلاتے ہیں اور ایکدوسرے پر سبقت لینے کو اپنی فتح تصور کرتے ہیں۔ نتیجہ کے طور جب حادثہ ہوتا ہے وہ زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اور اگر زندہ بچ بھی جائیں تو پھر اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہتے۔دیگر نجی چار پہیہ گاڑیوں کی بھی صورتحال ایسی ہے جن میں سیر وتفریح کرنے کے لئے آنے والوں میں تیز رفتاری ، اوورلوڈنگ اور اونچے آواز میں گانے لگانا معمول ہے اور اسی دوران حادثہ بھی ہوجاتاہے۔ اس شاہراہ پر کئی دلدوز سڑک حادثات رونما ہوچکے ہیں جن میں اپنے پیاروں کو کھونے والوںکے زخم آج بھی تازہ ہے۔ 27جون2019کو پیش آئے حادثہ ہوکیسے بھولاجاسکتا ہے جس میں 9بچیوں سمیت 11افراد سرنکوٹ سے شوپیاں دبجیاں ٹیمپو ٹریولر میں سوار پکنک پر جارہے طلبہ وطالبات لال غلام کے مقام پر پیش آئے حادثہ میں موت کا نوالہ بن گئے تھے ۔
رواں برس بھی اِس شاہراہ پر کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں جن میں متعدد موت کی آغوش میں چلے گئے اورکئی اپاہج ہیں اور اسپتالوں میں زیر علاج۔ ٹریفک قوانین کی سختی سے عمل آور ی کو یقینی بنانے کے لئے محکمہ کوٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ اِس شاہراہ پر ٹریفک عملہ کی تعداد بڑھائی جائے۔ بفلیاز، بحرام گلہ، چندی مڑھ ، سیلاں، ڈوگراں، پوشانہ ودیگر اہم مقامات پر بڑے بڑے بورڈ نصب کر کے اُس پراِس شاہراہ پر سفر کے طور اپنائی جانے والی ضروری احتیاط اور ایڈوائزری لکھی جائے، ساتھ ہی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں۔ ہلمٹ کے بغیر کسی بھی صورت میں بفلیاز پل سے کسی بھی موٹرسائیکل سوار نہ آگے جانے کی اجازت نہ دی جائے۔ موٹرسائیکل پر اگر دو آدمی سوار ہیں تو دونوں کے پاس ہلمٹ ہو۔اِس وقت صورتحال یہ ہے کہ بیشترموٹرسائیکل سوار ہلمٹ نہیں پہنتے۔موٹرسائیکل چلانے والوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور طلبا کی ہے جو جوش میں اپنی قیمتی جانیں کھو کر اپنے والدین کو عمر بھر کے لئے داغِ مفارقت دے کر چلے جاتے ہیں، اِس لئے موٹرسائیکل سواروں پر سختی برتننے کی ضرورت ہے۔ مغل شاہراہ پر ٹرامہ اسپتال کی اشد ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانوں کو بچایاجاسکے۔نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ سیر وتفریح کرنے جائیں تو مغل شاہراہ پر شراب نوشی، فحاشیات سے بھی گریز کریں۔
زندگی اس دنیا میں رہنے کا صرف ایک موقع ہی نہیں، بلکہ قدرت کا سب سے خوبصورت ترین اور عظیم ترین تحفہ ہے جو کسی بھی جاندار کو عطا کیا جاتا ہے۔ انسان کو تمام جانداروں میں اشرف المخلوقات اس لئے کہا گیا ہے کہ اسے صرف زندگی ہی عطا نہیں کی گئی بلکہ اسے احسن طریقے سے زندگی گزارنے کیلئے شعور جیسی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔ زندگی صرف سانس لینے، کھانے پینے، سونے جاگنے کا نام نہیں۔ سانس تو ہم سب لیتے ہیں لیکن حقیقت میں زندگی صرف انہی کو ملتی ہے جنہیں زندگی جیسی انمول نعمت کو سلیقے اور قرینے سے بسر کرنے کا شعور بھی میسر آتا ہے۔ یہ زندگی کا شعور ہی ہے جو انسانوں کو فرش سے اٹھا کر عرش پر پہنچا دیتا ہے۔ زندگی کی صورت میں قدرت کا یہ خوبصورت اور عظیم ترین تحفہ ہمیں اس لئے عطا ہوا کہ ہم اپنے آپ کو ایک اچھا اور بہتر انسان بنا کر اس نعمت کے اہل ہونے کا ثبوت دے سکیں۔ لہٰذا اللہ پاک کے اِس قیمتی تحفے کو یوں سڑکوں پر بے احتیاطی اور لاپرواہی سے ضائع کر کے اپنے اہل خانہ کے لئے مشکلات پید ا نہ کریں اور اپنی آخرت برباد نہ کریں۔ یاد رکھئے! زندگی بڑی مختصر ہے، اس کا احترام کیجئے اس کی قدر کیجیے؛ یہ ہمیشہ آپ کے پاس نہیں رہے گی۔