تحریر:ایڈوکیٹ آزاد پرواز
جموں و کشمیر کے سیاسی افق پہ چند دھائیوں تک محیط ایک روشن ستارے کا نام عبد الغنی لون ہے۔ لون صاحب کی سیاسی بلو غت کا خاصاں پہلو پہ بھی ہے۔ کہ وہ سیاسی پیوند کاری کے بر عکس سیاسی زمین سے پیوستہ ذاتی جڑوں پہ منحصر ایک تناور سیاسی درخت ثابت ہوا۔ فولادی عزم اور سوچ کا دانش گاہ کہنا بجا ر ہے ۔ یہ مرد آہن سیاسی فنکاری کو کبھی ملحوظ نظر نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ عین حقائق کا غازی تھا۔ شخض مذکورہ کی سماجی اور سیاسی داستان جب اپنے اسلاف سے سنتے ہیں توعصر حاضر میں جیسے کسی عظیم قلمکار کے خو بصو رت افسانے محسوس ہوتے ہیں۔ یقین نہیں ہو تا ہے کہ قوم میں ایسا بھی قائدموجود تھا ۔ جو نر م دم گفتگو گرم دم جستجو کے عین کردار رہا ہے۔ لون صاحب فطرت کے وضع کردہ لیڈر تھے نہ کہ حالات کی پیداوار ۔ غرض لون صاحب سیاسی ملازم نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت با صلاحیت انجمن رہے ہیں۔ فولادی عزم کا یہ کر دار ہر حالات سے دامن بچانے کے بر عکس ڈٹ کر مقابلہ کر نے پہ کمر بستہ ہوتا تھا۔ یہ رُستم زمانہ تندُ تیز ہواوں کے مقابلہ میں اپنا رستہ بدلنے کے بر عکس سینہ سپرہو کر آگے کا راستہ تلاش کرنے میں یقین رکھتا تھا۔
؎ ہوا ہو گو تندُ و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش کہ جس کو حق نے دئے ہیں اندازِ خسروانہ
عبد الغنی لون فہم وفراست کے غنی تھے۔ دورُ بینی اور دو ر اندیشی میں اگر انہیں قوم کا استاد کہا جائے ۔ بر حق اور صحیح رہے گا ۔ مرحوم کی سیاسی تاریخ ابتدا سے آخر تک تخلیقی داستاں ہے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو تقلید سے رقم نہیں ہے۔ ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولنا جہاں آکسجن کے علاوہ کوئی بھی شے زندہ رہنے کے لئے دستاب نہیں تھی۔ والد گرامی کی معاشی حالت اور خاندانی کرو فر ناگفتہ بہ تھا۔ جس گھر میں زندگی اور موت یکسان الفاظ مانے جاتے تھے۔ اس گھر میں ہاتھ اور دامن کا مفلس بچہ ــ”غنی”کے نام سے تولد ہونا کرشمہ سازی ہے۔ مگر کس کو معلوم کہ ایک روز یہی نحیف ہاتھ اقوام متحدہ کے دروازوں پہ انقلابی دستک دے گا۔ اور مزکورہ روح لطیف کی تصویریں قوم کے در و دیواروں کے علاوہ سینوں پہ چسپاں ہونگی۔ کیونکہ شخص مذکورہ کی نظر یں قوم کے مستقبل پہ ٹکی رہتی تھیں۔ الغرض لون صاحب کا سیاسی منڈیٹ کبھی دامن اور ہاتھ پھیلا کر گداگری نہیں رہاہے۔
؎ وہ فریب خوردہ شاھین جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شہبازی
بلکہ ایک خود مختار عقاب کی طرح آسمانوں کے اور اپنی قومی منزل کی تلاش میں رہتا تھا۔ شخص مذکورہ کس مٹی سے تعمیر ہوا تھا۔ ایک تاریخی مثال رقم کر کے عقل محوتماشائے لب بام ہے۔ کہ خودی کی شان پہ آنچ آنے سے قبل ہی حا کمیت کی کرسی کو پائے حقارت سے لات مار کر ٹھکرا دیتا ہے۔ جو رہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی ۔ زند گی میں لون صاحب کو ہمشہ کے لئے یہ مقام حاصل رہا ہے ۔ کہ اپنے مد مقابل کی خود غرضی کو زمین بوس کر کے اس کوغریب سے غریب تر کی پابوسی کرنے پہ لا کھڑا کر دیا۔ تا نہ شاہی اور اقربا پروری کو زمیں بوس کر دیا ۔ عام رائے د ھندگاں کے عزت نفس اور خود داری کو عروج عطا کیا ۔ ان کی تقا ریر میں بلا کی چاشنی اور سادگی رہتی تھی۔ اقبال ؒ کے اس کلام کا کرداری ثبوت رہا ہے۔
لون صاحب نے واقعی اپنے دور میں غلاموں کو سوز یقین سے گرما دیا۔ لون صاحب ایک بہتریں مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین قلمکاربھی تھے۔ جس کا اندازہ ان کے کچھ تصانیف سے ہوتا ہے۔ ان کے تحریر یا تقریر یا کسی نجی محفل کی گفتگو ، جس بارے میں آج بھی اکثر و بشتر ذکر ہوتا رہتا ہے۔ ایک فطری لیڈر قلمکار اور خاص کر قوم کے غمخوار کی دلیل بیاں ہوتی ہے۔
؎ وائے نا کامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
وہ بھانپ چکے تھے کہ جب کسی قوم کا لیڈر قومی مصیبت کی پیداوار ہو ۔ تو مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے بڑی مصیبت کی وجہ بن جاتے ہیں ۔ جب کوئی قوم کسی بھنور میں پھنس جاتی ہے تو قوم کا وہ لیڈر جو منفی نعروں پہ قوم کو اکساتا ہے۔اپنے لئے قائدانہ مقبولیت تو حاصل کرلیتا ہے۔اور پرُ جوش تقاریرسے قوم کو دن میں تارے اور شیخ چلی کے خواب دکھا سکتا ہے۔ مگر حقیقت میں وہ قوم کو چھوٹے گڑھے سے نکال کر بڑے گڑھے میں گرا دیتا ہے۔ لون صاحب سمجھتے تھے کہ دور ُ اندیشی سے خالی ذہن والے لیڈر کی ترقی ہمیشہ قوم کی بردباری پہ منصوب رہی ہے۔عبدالغنی لون نہ صرف قومی رہنما تھے بلکہ ایک اچھے سیاسی ڈاکڑ بھی تھے۔ جن کے ہاں قومی مستقبل کی تشخیص دوا اور پرہیز عین بیماری تھی۔ جوکہ وقت نے من و عن ثابت کر دیا۔ وہ جموں و کشمیر اور لداخ کی زمینی صور تحال اور عوامی ذہنیت کے لقمان تھے۔ وہ ثابت و سالم کشتی پہ بیٹھ کر طوفاں کا اندیشہ پیش کرتے رہے۔ وہی کشتی ان کے جانے کے بعد شکستہ نظارہ ثابت ہوئی۔ لون صاحب کو اب دو دہائیاں ہم سے پردہ فرماتے ہوئے ہوگئے۔ مگر اُن کی قابلیت ، ذہانت ، دوراندیشی محنت خاصکر قومی درد انہیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں سانسوں کے ساتھ زندہ رکھے گا۔ یہ بات بلاخوف تردید یہاں تحریر کرتا ہوں۔ لون صاحب کے قاتل نے یعنی جس نے سازش کی گولی چلائی ، میدان فراہم کیا۔ ان تینوں کرداروں نے ایک قوم کے تشخص ، اور انقلاب کو کفن پہنادیا ۔ اس نے قوم کے مستقبل کا جنازہ اٹھایا ۔ وقت نے بھی ثابت کر دیا کہ یتیم قوم کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ جب مکین لاپتہ ہوئے مکانوں پہ تالے چڑھے ۔