تحریر:وسیم رضا
کشمیر میں دین اسلام کی شمع کو ایران کے میر سید علی ہمدانی ؒ نے روشن کی اور ان کے ہمراہ کثیر تعداد میں مبلغین و صنعت کاروں نے یہاں دینی و ثقافتی خدمات انجام دی۔خاندان میرواعظ بھی اسی کاروان میں شامل شخصیت میں سے ہے۔میرواعظ خاندان کو ریاست جموں و کشمیر خاص کر وادی کشمیر میں انتہائی خاص مقام حاصل ہے ۔یہ خاندان ایک نہایت ہی معروف،باوقار ،عظیم اور قدیم خاندان ہے چنانچہ یہ خاندان جلیل القدر اکابر دین و ملت کی خدمات مسلسل 400سالوں سے انجام دیتا آرہا ہے ۔کشمیر کسی زمانے میں شرکیات،بدعات،خرافات اور رسومات بد کاآماجگاہ تھا اس خاندان کی طویل محنت اور کو ششوں کے بعد ان پر بڑی حد تک قلع قمع ہوگیا۔شیعہ سنی تفرقہ کو ختم کرنے کیلئے جہاں علمائے دین ملت کے ذی عزت شخصیات نے خدمات انجام دی ہیں وہیں خاندان میرواعظ اور موسوی کے بزرگان کے تاریخی اقدامات بدولت آج بھی کشمیر میں وحدت کی زندہ مثال قائم نظر آتی ہے۔اس خاندان نے قابل قدر علمی اور ملی خدمات انجام دئیں وہیں اس خاندادن نے دینی ،اصلاح اور سیاسی میدانوں میں بھی گرانقد رول ادا کیا ۔اس خاندان کے بزرگوں اور اکابرین نا مساعد حالات میں احیائے دین،اقامت دین اور دعوت دین کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔منصب اور من کے لحاظ سے میرواعظین فریضہ ’’قَال اﷲو قَال رسول اﷲؐ ‘‘ یعنی اشاعت و تبلیغ دین رہا ہے ۔اس خاندان کے مراسم روابطہ کچھ ایسے خاندان سے بھی رہے ہیں جنہوں نے ملک کشمیر میں حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانؒ کی روشن کی ہوئی شمع کی حفاظت کی ۔
لفظ میرواعظ اصل میں فارسی لفظ ہے جس کا مطلب میر’’اعلیٰ‘‘واعظ’’مبلغ‘‘۔جب بھی کشمیر میں دینی، سیاسی یا سماجی تاریخ کا ذکر ہو تا ہے تو خاندان میرواعظین کی کئی شخصیات کا نام لئے بغیر نا مکمل محسوس ہو تا ہے۔جن میں مہاجر ملت میرواعظ مو لوی محمد یوسف شاہ ؒ (مفسر قرآن) اور شہید ملت میرواعظ مولوی محمد فاروق ؒ ہے۔مرحوم میر واعظ کشمیر مو لوی محمد فاروق ؒ 28ماہ ذی الحجہ1361ھ بمطابق 14دسمبر 1944ء میں میرواعظ منزل راجوری کدل سرینگر میں پیدا ہوائے۔انہوں نے اسلامیہ اورینٹل کالج سے دینیات، اسلامیات اور عربی ادب و لٹریچر میں امتیازی پوزیشن سے کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و ادب میں بھی ڈگری مکمل کر کے سند حاصل کی۔18سال کی عمر میں مرحوم مولوی محمدفاروق ؒ کو ’’نائب میرواعظ‘‘ کے منصب پر فائز کیا گیاپھر مو صوف میرواعظ مو لوی محمد یوسف شاہ ؒ کی راولپنڈی میں وفات کے بعد میرواعظ کشمیر بنا ئے گئے ۔خاندان میرواعظ کے صدہا سال معمول کے مطابق ہزاروں مسلمانوں کی مو جودگی میں سرینگر کی تاریخٰ جامع مسجد میں مرحوم مولوی محمد فاروق ؒ کو باقاعدہ دستار بندی کی گئی۔27دسمبر1963ء کو جب آثار شریف درگاہ حضرتبل سرینگر سے مو ئے مقدس(ص) کی گمشدگی سے پورے کشمیر میں بے چینی کا ماحول اور غصہ نظر آہا تھا ،سارا نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا،لوگ سڑکوں پر نکل آئے اورمو ئے مقدس(ص)کی بازیابی کے حق میں صدا ئے احتجاج کر نے لگے۔ایسے میں کچھ سیاسی رہنمایا تو جیلوں میں تھے کچھ باہر۔وادی بھر سے لوگوں کے جلوس میرواعظ منزل راجوری کدل آتے رہے ۔اس دوران موئے مقدس(ص) کی بازیابی کیلئے شہید ملت میرواعظ مو لوی محمد فاروق ؒ نے قیادت کو ہاتھوں میں لیتے ہو ئے کئی دینی شخصیات کے ہمراہ مو ئے مقدس(ص)کی بازیابی کیلئے عوامی تحریک چلائی ،اس طرح مرحوم میرواعظ مو لوی محمد فاروق ؒ کی سیاسی زندگی کا آغازہوا۔ موئے مقدس(ص) کی بازیابی کیلئے انہوں نے وادی کے تمام دینی،ملی اور سیاسی تنظیموں کے سربراہوں ونمائندوں کا ایک اجلاس بلاکر’ایکشن کمیٹی‘‘کی بنیاد ڈالی جس کی قیاد ت میرواعظ مولوی فاروق ؒ کر رہے تھے۔مو ئے مقدس(ص)کی بازیابی کیلئے چلا ئی گئی عوامی تحریک کو کامیاب بنانے کے خاطر آپ کا اہم اور کلیدی رول رہا۔مسلم کانفرنس پر باقاعدہ پابندی عائد تھی اس لئے مو ئے مقدس(ص)کی بازیابی کے بعد کشمیر میں عوامی اتحاد کو اصل شکل دینے اور ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو بنیادی اور انسانی حقوق کی بحالی خاص طور پر جموں و کشمیر کے عوام کا بنیادی حق ’’حق خودارادیت‘‘کے حصول کیلئے مسلم کانفرنس کا احیائے نو کرتے ہو ئے میرواعظ مو لوی محمد فاروق ؒ نے1964ء میں عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک الگ سیاسی تنظٰم کی قیام عمل میں لائی۔مرحوم نے اندرا عبداﷲ ایکارڈ کی مخالفت کی اور اس ایکارڈ کیخلاف رائے عامہ منظم کرنے کیلئے سرینگر میں ایک جلوس کی قیادت بھی کی۔مذکورہ ایکارڈ کو مسترد کرتے ہو ئے مرحوم نے ’’حق خودارادیت‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔1965ء ہندو پاک جنگ کے دوران میرواعظ مولوی محمد فاروق ؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔2سال2مہینے اور10دن تک مسلسل انہیں قیدو پابند رکھا گیا۔جیل سے رہا ئی پا نے کے بعد انہوں نے’’ حق خودارادیت‘‘کے حصول کیلئے پرامن جدو جہد تیز کی۔وہ ہمیشہ مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے ہندو پاک کے درمیان بہتر تعلقات کے خواہاں تھے۔مرحوم یو این او کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرانے پر زور دیتے تھے۔انہوں نے سب سے پہلے سہ فریقی مذاکرات کی تجویز پیش کی اور اس بات کا باضابطہ اعلان کیا کہ مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں،کشمیری عوام،پاکستان اور ہندوستان۔لہذا اس مسئلہ کا حل کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق نکالا جانا چاہیے۔شہید ملت ؒ نے جس کشمیر کو خون سے سینچا وہ کشمیر ہمارا ہے سب سے پہلے عوامی اجتماع کے دوران متعارف کیا۔’’شیر‘‘ و’’بکرا‘‘ مسئلہ پر بھی شہید ملت نے عوام کے درمیان نفرت کی لکیروں کو مٹانے کیلئے تاریخی اقدام اٹھایا۔تعلیم کو فروغ دینے میں ان کا کافی رول رہا ہے۔انہوں نے کئی تعلیمی،درسگاہوں اور فلاحی اداروں کی بنیاد ڈالی ہے جن میں انجمن نصرۃ السلام ،انجمن اوقاف جامع وغیرہ قابل ذکر ہے۔
شہید ملت تمام مسالک اسلامی کے مابین ہمدلی کے حامی تھے ۔انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینیؒ کے انتقال پر جامع مسجدسرینگر میں ایک عظیم تعزیتی جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں وادی بھر کے علمائے دین و سیاسی قائدین کے علاوہ بھاری عوامی تعداد نے شرکت کی۔موجودہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای جب ہندوستان و کشمیر کے دورے پر گئے تو مرحوم میرواعظ نے ان کا استقبال جامع مسجد میں کیا اور امام خامنہ ای نے مرکزی جامع مسجد کا معائنہ کر کے کشمیری عوام کے درمیان وحدت بین المسلمین پر زور دیا۔
21مئی 1990ء کو شہید ملت میرواعظ مو لوی محمد فاروق ؒ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا۔مرحوم کو ان کے گھر میں نامعلوم مسلحہ افراد نے گولی ماردی۔لاکھوں لوگوں کی مو جودگی میں انہیں ’’مزار شہداء عیدگاہ‘‘سرینگر میں سپردخاک کیا گیا۔جب ان کی میت کو صورہ سے میرواعظ منزل راجوری کدل لا یا جا رہا تھا تو اسلامیہ کالج حول کے قریب سیکورٹی فورسز نے ہجوم سوگواراں پر بلا جواز فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں تقریبا 70افراد ہلا ک ہو گئے جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں زخمی ہو ئے۔مر حوم کی شہادت کے بعد پوری وادی با لخصوص مسلم علاقوں میں غم کی لہر دوڑی جس کے نتیجے میں قریب2ہفتے تک مکمل ہڑتال رہی ۔
(مقالہ سال نگار ’’ولایت ٹائمز‘‘ کے ڈائریکٹر و مدیر اعلیٰ ہیں اور مذکورہ مقالہ سال 2010 میں سرینگر کے کئی اخبارات میں شائع ہوا ہے)