تحریر:رئیس احمد کمار
اپنے پڑوس میں رہنے والے لوگوں کو دیکھ کر مجیب ہر وقت اپنی قسمت اور تقدیر کا رونا روتا تھا ۔ اس کے پڑوس میں سبھی لوگ اونچے محلوں میں رہتے تھے اور اعلی قسم کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوئے جب یہ لوگ مجیب کے سامنے سے گزرتے تھے تو خیریت پوچھنا تو دور کی بات تھی وہ اس سے بات کرنے سے بھی کتراتے تھے ۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا ، ہر روز نئے پکوان کھانا ، مہنگے کپڑے پہننا اور اعلی قسم کی آرام دہ گاڑیوں میں چھٹیوں کے دنوں اپنی فیملیوں سمیت باغوں اور دیگر صحت افزاء مقامات کی سیر پر جانا مجیب کو کافی ستاتا تھا ۔ ہر روز اس کے دماغ میں صرف یہ بات گردش کرتی تھی کہ کب اسے بھی یہ چیزیں میسر ہوجائیں اور اس کی زندگی بھی جینے کے قابل بن جائے ۔۔۔۔۔۔
اپنے ماں باپ اور دیگر یاروں دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد مجیب نے فیصلہ کیا کہ وہ دن دگنی اور رات چگنی محنت کرکے نوکری حاصل کرنے کے لیے مسابقتی امتحان پاس کر کے ہی دم لے گا ۔ تب جاکے وہ ایک عالیشان مکان، مہنگی آرام دہ گاڈی اور دیگر سہولتیں اپنے پاس مہیا رکھ سکتا ہے ۔ برابر چھ مہینے تک مجیب نے نہ صرف کسی رشتہ دار کے گھر کا رخ تک نہ کیا بلکہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کے بارے میں بھی بالکل ناواقف رہا۔ چھ مہینے بعد مسابقتی امتحان میں مجیب نے اچھی کارکردگی دکھاکر محکمہ مال میں بہ حیثیت نائب تحصیلدار سرکاری ملازمت حاصل کی ۔ اب نہ صرف غریبی اور تنگدستی کے دن ہمیشہ کے لیے ختم ہوں گے بلکہ مجیب اپنے تمام خوابوں کو شرمندہ تعبیر بھی کرے گا ۔ ایک سال کے بعد ہی ماں باپ نے شادی کرنے کا مشورہ دیا لیکن مجیب نے یہ جواب دے کر ماں باپ کی رائے کو نکارا ۔۔۔۔۔
” ابھی تو مجھے سرکاری ملازمت حاصل کیے ہوئے ایک ہی سال ہو گیا ہے ۔ ابھی نہ میں نے عالیشان مکان بنایا نہ ہی آرام دہ گاڑی ہی لائی ۔ صرف تنخواہ پر میں اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر اتنے کم وقت میں کیسے کر سکتا ۔ اس لیے مجھے ایک دو سال اور انتظار کرنا ہوگا ۔ تنخواہ کی بچت بھی ہوگی اور چاے پانی کے ذریعے بھی اچھی خاصی کمائی ہوگی۔ تب میرے تمام خواب پورے بھی ہوں گے اور شادی بھی کسی بڑے امیر گھرانے میں ممکن ہوگی جہاں سے جہیز کے طور پر بہت کچھ مل سکتا ہے”۔۔۔۔
تین سال بعد ہی مجیب نے شادی قصبے کے ایک امیر گھرانے میں رچائی ۔ تنخواہ سے حاصل ہوئی بچت اور چاہے پانی کے ذریعے کمائی ہوئی بے شمار دولت سے مجیب نے نہ صرف ایک عالیشان مکان تعمیر کیا بلکہ اپنی سواری کے لیے ایک قیمتی گاڑی بھی خریدی ۔ اب مجیب کو اپنے گاؤں میں اپنے جیسا کوئی دکھتا ہی نہیں تھا ۔ شادی کے ایک سال بعد اللہ نے اولاد نرینہ بھی عطا کیا ۔ لیکن بیوی کو گاؤں میں زندگی بسر کرنا راس نہیں آیا اور چند مہینے بعد ہی ازدواجی زندگی اتنی متاثر ہوئی کہ اجیرن بن گئی ۔ مجیب کا نیا تعمیر کردہ عالیشان بنگلہ ، قیمتی گاڑی اور دو دو ہاتھوں سے کمائی ہوئی دولت بھی اس کی بیوی پر کوئی اثر نہ کرسکی ۔ معاملہ اس حد تک پہنچا کہ عدالت میں طلاق کرنی پڑی ۔ مجیب کو عدالت کے جج صاحب نے بیس لاکھ روپے نقدی جرمانہ کیا اور لاکھوں روپیہ کے زیورات اور دیگر سازوسامان بھی بیوی کو واپس کرنا پڑا ۔ مجیب کے ماں باپ نہ صرف زہنی مرض کے شکار ہوئے بلکہ مجیب خود بھی ڑاکٹروں کے چکر لگاتا رہا کیوں کہ کئی ساری بیماریوں نے اسے بھی گھیر لیا تھا ۔ اپنے ایک قریبی دوست کے اسرار پر مجیب نے اپنا چیک اپ کروانے کے لیے بیرون ملک جانے کے لیے ہوائی جہاز کی ٹکٹ بک کرائی ۔ پورا چیک اپ اور تمام ٹیسٹ کروانے کے بعد معلوم ہوا کہ مجیب کو کینسر کا آخری سٹیج تھا ۔ جان لیوا بیماری سے لڑتے لڑتے آخر مجیب بیرون ملک سے واپس آتے ہی زندگی کی جنگ ہار گیا ۔ اس کے ماں باپ جو پہلے ہی زہنی مریض بن چکے تھے نے مجیب کا بنایا ہوا عالیشان بنگلہ بھی بیچ دیا ، قیمتی گاڑی بھی بیچی اور باقی دولت بھی علاج و معالجہ پر خرچ کی لیکن کچھ بن نہ پایا ۔ جب مجیب کے والدین پوری طرح بے بس نظر آنے لگے تو ان کی اکلوتی بیٹی فاطمہ جس کی شادی ایک دہائی قبل شہر میں ہوئی تھی نے اپنے دونوں ماں باپ کو اپنے گھر لیا ۔ کچھ مہینے بعد ہی دونوں کی موت واقع ہوئی اور ان کو شہر کے قبرستان میں مقامی باشندوں نے دفنانے نہیں دیا ۔ پھر کیا ہوا بیٹی کے سسرال والوں نے ہی کچھ اور لوگوں کی مدد سے میتوں کو واپس اپنے گاؤں میں پہنچا کر وہاں ہی کفن دفن انجام دیا ۔۔۔۔