جنوبی کشمیر کے بعض علاقوں سے اطلاع ہے کہ سبزیوں اور دوسرے کئی ایسے فصلوں میں پچھلے دنوں سے کوئی مشکوک قسم کی بیماری پھیل رہی ہے ۔ اس بیماری سے ساگزار بڑے پیمانے میں متاثر ہورہے ہیں ۔ وہاں کے کسان بلکہ پوری آبادی اس بیماری کے پھیلنے سے سخت پریشان دکھائی دیتی ہے ۔ سبزیوں میں پھیلی اس بیماری کے حوالے سے لوگوں کو کوئی جانکاری ہے ۔ اس طرح کی بیماری پہلی بار نظر آرہی ہے ۔ لوگ یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہیں کہ اس کی وجہ کیا ہے اور اس کو کیسے قابو میں کیا جاسکتا ہے ۔ لوگوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ سرکاری حلقے اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔ لوگوں کے پاس جاکر اس بارے میں معلومات حاصل کرنا اور انہیں ضروری ہدایات سے واقف کرانے کے لئے کوئی مہم شروع نہیں کی گئی ہے ۔ لوگوں شکایت کررہے ہیں کہ ایگریکلچر محکمے کی طرف سے اس بارے میں تاحال کوئی بھی ہدایات نہیں پہنچی ہیں جن پر عمل کرکے ساگزاروں کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے ۔
جموں کشمیر میں پچھلی دو دہائیوں سے اس طرح کی بیماریوں کے پھیلنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ کئی بار شکایت کی گئی کہ میوہ باغوں میں ایسی بیماریاں پھیل رہی ہیں جن کا اس سے پہلا کوئی وجود نہیں تھا ۔ بعد میں پتہ چلا کہ جراثیم کش ادویات کے چھڑکائو سے اس طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں ۔ ایسی ادویات از خود میوہ باغوں کے لئے مضر ثابت ہورہی ہیں ۔وسیع پیمانے پر اور بار بار ادویات کے چھڑکائو سے میوہ باغوں کو نقصان پہنچنا یقینی ہے ۔ کئی بار اس حوالے سے جانکاری ملنے کے باوجود بڑے پیمانے پر دوائوں کے چھڑکنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ جتنا سرمایہ اس کے لئے خرچ کیا جاتا ہے باغوں سے اتنی آمدنی حاصل نہیں ہورہی ہے ۔ ماہرین کوئی متبادل طریقہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں ۔ بہت سے ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ادویات چھڑکنے سے نہ صرف ماحول آلودہ ہورہا ہے بلکہ میوہ باغات کو بھی نقصان ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس طرح کے کئی بار تجربے کئے گئے ۔ اس سے پہلے معلوم ہوا کہ بازار میں جو کھاد کسانوں کو فراہم کی جارہی ہے وہ غیر معیاری بلکہ نقلی ہے ۔ حال ہی میں سرکار نے بلا لائسنز کھاد بھیجنے پر پابندی لگادی ہے ۔ اس طرح کی قدغن ادویات کی فروخت اور فراہمی پر بھی عائد ہے ۔ بلکہ بہت پہلے سے اس کاروبار کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے ۔ لیکن اس قانون کے اطلاق پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ لوگوں سے قانون کی بالادستی کا خوف ختم ہوچکا ہے ۔ انسانوں خاص کر جان لیوا بیماریوں میں ملوث افراد کے لئے ایسی ادویات فراہم کی جارہی ہیں جو سرے سے ہی کسی کمپنی نے تیار نہیں کی ہوتی ہیں بلکہ جعلی کمپنیوں کے نام پر سپلائی کی جاتی ہیں ۔ اس طرح کے کاروبار سے نفع ضرور ملتا ہے لیکن اس کے اثرات سخت جام لیوا ثابت ہورہے ہیں ۔ ادھر یہ اطلاع منظر عام پر آنے کے بعد کہ کچھ مخصوص سبزیوں میں مشکوک بیماری پائی جاتی ہے لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے ۔ کسان پہلے ہی کئی وجہ سے پریشانیوں میں مبتلا ہیں ۔ موسم کی تبدیلی کا یہاں کی زراعت اور فصلوں پر منفی اثرات پڑرہے ہیں ۔ اسی طرح میوہ باغات کے حوالے سے بھی سخت تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ حالیہ بارشوں اور اس دوران ہوئی ژالہ باری کی وجہ سے فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہورہاہے ۔ اخروٹ اور سیب کی فصلوں کے حوالے سے خاص طور بتایا جاتا ہے کہ ان کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ۔ کسان ہر ایسے موقعے پر سرکاری اعانت کے منتظر ہوتے ہیں ۔ کچھ عرصہ سے اس کے لئے کوئی سرکاری اعانت نہیں کی جاتی ہے ۔ انتظامیہ یقین دلاتی ہے کہ نقصان کا تخمینہ لگانے کے بعد کسانوں کو ان کی خواہش کے مطابق امداد فراہم کی جائے گی ۔ لیکن ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہے ۔ اب کسانوں کو مبینہ طور مفت مشورہ بھی نہیں دیا جاتا ہے ۔ سبزیوں میں پیداہوئی بیماری کے بارے میں انہیں کوئی جانکاری نہیں دی جارہی ہے ۔ انتظامیہ کی طرف سے کوئی پہل کی گئی نہ ماہرین نے سامنے آکر کوئی مشورہ دیا ۔ حکومت کے پاس کئی ادارے ہیں جو اس حوالے سے پہل کرکے کسانوں کو ضروری جانکاری دے سکتے ہیں ۔ یا دل جوئی ہی کی جائے تو اطمینان ملنا یقینی ہے ۔ لیکن کسانوں کو ایسے موقعے پر بے یارومددگار چھوڑنا اچھی بات نہیں ہے ۔ کشمیر میں ایسے کوئی نجی ادارے نہیں جو اس موقعے پر کسانوں کی اعانت کرسکیں ۔ کسان اس حوالے سے کہاں جائیں سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی حلقے زور دے رہے ہیں کہ ایسے موقعوں کے لئے بنائے گئے ادارے بروقت متحرک کئے جانے چاہئے تاکہ متاثرہ لوگوں کو راحت مل سکے ۔