تحریر:زاہد ملک
ضلع ریاسی کی عوام باراستہ گلابگڑھ کولگام کشمیر کے ساتھ برائے راست سڑک رابطہ کی مانگ ایک عرصہ سے کر رہی تھی۔حکومت جموں و کشمیر نے عوام کی خواہش کے مطابق ضلع ریاسی اور ضلع کولگام کو آپس میں بذریعہ سڑک ملانے کا فیصلہ کیا تھا اور سال 2009-10 میں اس کی تعمیرکرنے کا من بنا لیاتھا۔اس سڑک کی تعمیر کا کچھ حصہ صوبہ کشمیر اور کچھ حصہ صوبہ جموں میں تعمیر ہونا مطلوب تھا۔اسی وجہ سے اس کی تعمیر دونوں جانب سے شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔صوبہ کشمیر سے اس سڑک کی تعمیر سال 2010 میں نندی مرگ کولگام کے مقام سے شروع ہوئی۔وہاں اس کا افتتاح کیا گیاجوقریب دس کلومیٹر تک تعمیر ہوچکی ہے۔اس کا نام نندی مرگ تاگلابگڑھ ہے۔یہ سڑک کشمیر کی جانب سے نندی مرگ،گور پتھری،زومس تل اور تراجن تک تعمیر کی گئی ہے۔
عوامی حلقوں کے مطابق صوبہ جموں کی طرف محکمہ پی ڈبلیو ڈی سب ڈویژن مہور سے اس منصوبہ کا باقاعدہ ایک پروجیکٹ تیار کیا گیا اور برائے منظوری حکام بالا مورخہ 29-09-2010 زیرا سکیم پی ایم آرپی ارسال کر کے سڑک کی تعمیر تجویز کی گئی۔اس پروجیکٹ کا نام نہوچ(مہور) تا نندی مرگ (کولگام) براستہ گلابگڑھ رکھا گیا ہے۔اس پروجیکٹ میں سڑک کی لمبائی 35 کلومیٹر نہوچ سے نکن تک درج کی گئی ہے۔ مگر آج تک نہ ہی اس پروجیکٹ کا کوئی ذکر کیا گیا اور نا ہی تعمیر سڑک کا کام شروع ہواجو باعث تشویش ہے۔شہر جموں اور سرینگر کو آپس میں ملانے کیلئے یہ سڑک سب سے کم فا صلہ پر ہے اور یہ سڑک ان دو صوبوں کے درمیان چوتھا متبادل اور کامیاب راستہ بن سکتا ہے۔ اس سے پہلے بانہال قاضی گنڈ،مغل سڑک،راجوری شوپیان اور کشتواڑ سنتھن ٹاپ اننت ناگ موجود ہے مگر اس سڑک کے تعمیر ہونے سے جموں کشمیر کے درمیان نزدیک ترین اور آسان سفر ہوگا۔اس کے علاوہ ٹریفک کی مشکلات میں بھی کافی حد تک آسانی ہوگی اور سڑک حادثات بھی کم پیش آسکتے ہیں۔
اس سڑک کی تعمیر ہونے سے بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً ٹریفک آمدو رفت کیلئے برفباری کے علاوہ ہمیشہ بحال رہنے کے امکانات ہیں، بانہال،مغل شاہراہ پر بھی ٹریفک جام کم ہوسکتے ہیں۔لوگوں کو سفر کرنے میں آسانی ہوگی اور کم وقت میں اپنے منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ دونوں اضلاع سیاحت کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں۔دونوں اضلاع کے درمیان خوبصورت پہاڑیاں اور ندیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور ہر طرف سے خوبصورت منا ظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ قدرت نے دونوں اضلاع یعنی ریاسی اور کولگام کے دور دراز علاقہ جات کو اپنے حسن جمال سے نوازا ہے۔دونوں اضلاع کے درمیان بڑے بڑے میدان ہیں اور سیاحت کو اس سڑک کی تعمیر ہونے کی وجہ سے ترجیح مل سکتی ہے۔اس کے علاوہ اس کی تعمیر ہونے سے دور دور سے سیاح سیر کیلئے آئیں گے جس کی وجہ سے دونوں اضلاع کے پچھڑے علاقہ جات کے نواجوانوں کا روزگار چل سکتا ہے اور ریاسی ضلع کے مہور، چسانہ، گلابگڑھ، درماڑی اور اس کے علاوہ گول کے نوجوانوں کیلئے روزگار کے وسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ضلع کولگام کے نند مرگ،گور پتھری،دمہال ہانجی پورہ وغیرہ میں بھی سڑک کی تعمیر اور سیاحت کے منظر نامے کی وجہ سے روزگا پیدا ہوسکتے ہیں۔
اس ضمن میں دیول سے تعلق رکھنے والے ریٹائر نائب تحصیلدار عبدلرشید نے بتایا کہ وہ عرصہ دراز سے اس سڑک کی تعمیرکیلئے حکومت اور انتظامیہ کے دروازے کھٹکٹا رہے ہیں لیکن اس طرف کوئی غور و فکر نہیں کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ پسماندہ ہے اور اگرچہ اس پروجیکٹ کو منظوری ملتی تو یہاں کے نواجونوں کیلئے روزگارکے وسائل بھی پیدا ہوسکتے۔اسی سلسلے میں دیول کے ہی ریٹائر ٹیچر عبدالسبحان ملک نے بتایا کہ 2010 کے بعد اس پروجیکٹ کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ جب محبوبہ مفتی وزیر اعلیٰ تھیں،اس دوران ان کا ایک اجلاس ریاسی میں ہوا تھا اور وفود نے تب بھی سابق وزیر اعلیٰ کے سامنے یہ بات رکھی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت ایک طرف بڑے پروجیکٹ تعمیر کرنے کے دعوے کر رہی ہے تو پھر ریاسی ضلع کے گلابڑھ کے لوگوں کو کیوں نظر انداز کیا جارہا ہے؟وہیں پنچائت لار کے سرپنچ محمد اسداللہ نے کہا کہ جس دن یہ سڑک تعمیر ہوگی اس دن گلابڑھ روشن ہوگا۔انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کے تعمیر ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ بلاک گلابگڑھ کی عوام کو ہوگا۔اس سلسلے میں شیدول کے ایک نوجوان نورالامین نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقہ کے نوجوان روزگار کی تلاش میں بیرون ریاستوں کا رخ کرتے ہیں۔اگرچہ یہ پروجیکٹ تعمیر ہوتا تو نوجوانوں کو روزگار کمانے کیلئے باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بالکہ وہ آسانی سے یہاں اپنے روزگار قائم کر سکتے ہیں۔
اس ضمن میں گلابڑھ کے ایک معزز شہری عبدالرشید گیدرمت نے کہا کہ گلابگڑھ ریاسی ضلع کا آخری گاؤں ہے اور یہاں سے چند ہی گھنٹوں کا پیدل سفر طے کرکے کشمیر پہنچ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ پروجیکٹ تعمیر ہوتا تو لوگوں کو کشمیر جانے میں اور بھی کم وقت لگے گا۔دونوں اطراف آنے جانے میں آسانی ہوگی۔۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ پروجیکٹ تعمیر ہوتا تو کشمیر کی مانند یہاں پر بھی سیاح گھومنے کیلئے آئیں گے کیونکہ یہ خطہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔اس ضمن میں ڈی ڈی سی وائس چیئر پرسن، ریاسی ایڈوکیٹ ساجرہ قادر سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ جب پبلک آؤٹ ریچ پروگرام کے تحت مرکزی وزراء نے ریاسی ضلع کا دورہ کیا تھا تو میں نے لوگوں کی یہ مانگ ان کے سامنے بھی رکھی تھی۔انہوں نے مزیدکہا کہ امید ہے کہ حکومت اس پروجیکٹ کو منظوری دیکر گلابگڑھ سے سڑک کی تعمیر کا کام شروع کرے گی۔اس حوالے سے جب ایکس ای این پی ڈبلیو ڈی، مہور راجیش شرما سے بات کی گئی توانہوں نے کہا کہ انہوں نے کچھ روز قبل ہی مہور کا چارج سنبھالا ہے۔لہذا وہ دستاویزاتدیکھیں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔
بہرحال اگر یہ سڑک تعمیر ہو جاتی ہے تو یقینا عوام کا ایک دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اور جموں سے کشمیر آنے جانے کا براستہ سڑک ایک اور متبادل بھی بن جائے گا۔اس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گابلکہ مقامی لوگوں کوروزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔جس سے علاقع کی ترقی ممکن ہو سکے گی کیونکہ کویڈ۔19کے بعدلاک ڈاؤن اور دیگر حالات کی وجہ سے لوگوں کو معاشی تنگی کا کافی سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایسے میں اس سڑک کے تعمیر ہوجانے سے روزگار اور معیشت دونوں نقطہ نظر سے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ (چر خہ فیچرس)