تحریر:ڈاکٹر جی ایم بٹ
اسلام ایک ایسے ماحول میں آیا اور پروان چڑھا جب معاشرہ سخت ناانصافی اور ناقدری اکا شکار تھا ۔ اگر وہاں صرف جنگ و جدل اور لڑائی جھڑے ہوتے تو اسلام کے لئے جگہ تلاش کرنا مشکل تھا ۔ وہاں جو ناانصافی اور ظلم وجبر تھا ۔ مظلوم کی آواز سننے کے لئے کوئی تیار نہ تھا ۔ اس کا نتیجہ ہوا کہ اسلام نے جب عدل و انصاف کا نعرہ لگایا تو لوگ اس کی طرف دوڑ کے آئے ۔ بے حیائی اور عبادات سے دوری اسلام کو وہاں قائم کرنے میں مددگار تو رہی ۔ لیکن اصل کشش یہ نہیں تھی ۔ بلکہ ظلم اور عدل وانصاف کے فقدان نے لوگوں کو اسلام کے دائرے میں لایا ۔ وہاں بہت سے لوگ تھے جو شراب سے نفرت کرتے تھے ۔ کچھ لوگ ضرور تھے جو کعبہ کو توحید کا مرکز سمجھتے تھے ۔ بعض لوگ اس بات پر رنجیدہ تھے کہ معاشرے میں برائیاں جنم لے رہی ہیں ۔ لیکن فساد کی اصل وجہ کی طرف متوجہ نہیں تھا ۔ کسی کو یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ اقتدار اعلیٰ مخصوص طبقوں کے اتھوں میں رہنے کا نتیجہ ہے کہ ظلم پروان چڑھ رہاہے ۔ معاشرہ بگاڑ کا شکار ہورہا ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں باپ بیٹی کو زندہ دفن کررہاتھا وہاں اصل نعرہ یہی ہونا چاہئے تھا کہ ان بیٹیوں کو اپنے لئے رحمت سمجھو ۔ جہاں غلاموں سے چاپائیوں کا کام لیا جاتا تھا وہاں اصلاح کا اصل نعرہ غلاموں کے حقوق ہونا چاہئے تھے ۔ لیکن جب پیغمبر نے اپنی نبوت کا اعلان کیا تو انہوں نے کوئی دوسرا نعرہ دینے کے بجائے برائیوں کے اصل جڑ کی طرف توجہ دی ۔ انہوں نے ایک الٰہ کے حاکم ا علیٰ ہونے کی بات کی ۔ یہاں تک کہ ظلم و ستم کا اصل منبع اس کی زد میں آگیا ۔ اس طرح سے عدل وانصاف کے قائم ہونے کا یقین ہوگیا ۔ عدل وانصاف اور مساوات کے قیام نے اسلام کو مظلوموں کا سہارا اور بے سہاروں کی امید بنادیا ۔ اسلام جب عرب سے نکل کر مصر ، روم اور ایران تک پہنچ گیا تو وہاں بھی انہی مخلوم اور عدل و انصاف کے خواہش مند لوگوں نے اس کو قبول کیا ۔ بلکہ ہندوستان میں اس کے پھیلائو کا سبب بھی یہی چیز بنی ۔
اسلام اصل میں اسی عدل اور مساوات کا دین ہے ۔ عبادات کا جو تصور اسلام نے دیا اس کی بنیاد بھی مساوات ہے ۔ نماز سے لے کر حج تک جو بھی عبادت اسلام نے فرض قرار دی ہے اس میں مساوات کا فلسفہ پوشیدہ ہے ۔ نماز میں بادشاہ اور نوکر کا ایک ہی صف میں کھڑا ہونا مساوات کے لئے ہے ۔ حج کے اصل فرائض کو ایک ہی لباس میں ادا کرنا مساوات کا درس دیتا ہے ۔ زکوات سماج میں پھیلی معاشی بے یقینی اور طبقہ بندی کو ختم کرتا ہے ۔ روزے امیری اور غریبی ختم کرنے کا راستہ کھولتا ہے ۔ اسی طرح دوسری عبادات جہاں اللہ کے سامنے جھکنے اور اپنی حیثیت ختم کرنے کا راستہ ہے وہاں اس سے کمزور طبقوں کو سہارا دینے کی تعلیم ملتی ہے ۔ ہمارے لئے یہ انداززہ لگانا مشکل ہے کہ اسلام کی اصل بنیاد مساوات اور عدل وانصاف ہے ۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں مسلمان ہی اس راستے میں اصل رکاوٹ ہیں ۔ وہاں بے اعتدالی مسلمانوں کا شیوہ ہے ۔ آج ہر طرف جو ظلم نظر آتا ہے اس کا سبب مسلمان ہیں ۔ خون خرابے کے محرک مسلمان ہیں ۔ دوسروں کے خوف کا مرکز مسلمان ہیں ۔ عالمی سطح پر دہشت گردی کا اصل منبع مسلمانوں کو ہی سمجھا جاتا ہے ۔ پچھلی نصف صدی سے ہم دنیا کو سمجھا رہے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا ہے ۔ اسلام خوں خرابے کی حمایت نہیں کرتا ۔ اسلام مساوات مخالف مذہب نہیں ہے ۔ سیاسی طور کای جواب آئے ۔ لیکن عام شہری اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں ۔ مسلمانوں کو امن کا دشمن مانتے ہیں ۔ اسلام کو روحانیت کا نہیں بلکہ قتلو غارت کا مذہب سمجھتے ہیں ۔ اسلام میں ضرور اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ انصاف مخالف عناصر کے خلاف صف آرا ہوجائیں ۔ لیکن یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے کہ عام شہریوں کو مارا جائے ۔ اصلاح سے عاری لوگوں کا خون بہایا جائے ۔ مسلمانوں نے اپنے اعمال سے اپنا خون دوسروں کے لئے حلال بنادیا ۔ یہ سوچے بغیر کہ ہمارے اعمال ہمیں کہا ںلے جارہے ہیں پوری دنیا کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔ الٹا ناکامی کا منہ دیکھنے لگے تو صفائیاں دینے لگے ۔ کئی ہزار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد انہیں عدل و انصاف کی تعلیم یاد آگئی ۔ ان کے لئے نبی کے کردار کا نمونہ سامنے آیا ۔ پھر کہا جانے لگا کہ اسلام تلوار سے نہیں بلکہ محبت اور اخوت سے پھیلا ہے ۔ جب تک لوگ مارنا آسان تھا یہی اسلام بنادیا گیا ۔ واپس مزاحمت ہونے لگی تو دین کا اصل سرچشمہ عدل وانصاف بنا دیا گیا ۔ اب بات سننے کے لئے کوئی تیار نہ تھا تو جمہوریت اور سیکولر ازم کا راگ الاپا جانے لگا ۔ تلوار کے مقابلے میں تلوار سامنے آگئی ، بندوق کے مد مقابل توپ نظر آنے لگی تو حق اور مساوات کا درس یاد آگیا ۔ حقوق انسانی کا نعرہ یاد آگیا ۔ لیکن اب کافی دیر ہوچکی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام کی اصل تعلیمات بتانے والا کوئی نہیں رہا ۔ بلکہ اکثریت تو اسی کی حامی ہے ۔ لیکن ان کی آواز کمزور ہے ۔ ان کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں ۔ ان کے منہ بند پڑے ہیں ۔ یہی اسلام کی بدنامی کی اصل وجہ ہے ۔