تحریر:جی ایم بٹ
نماز اسلام کا بنیادی ستون ہے ۔ ایمان لانے اور اسلام میں داخل ہونے کے بعد نماز پہلا فرض ہے جو مسلمان کو ادا کرنا ہوتا ہے ۔ نمازوں کی اجتماعیت بحال رکھنے لئے مسجدیں تعمیر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ قرآن میں مسجدوں کی تعمیر پر تاکید کی گئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے مکے سے ہجرت کرتے ہوئے مدینے میں داخل ہونے سے پہلے مسجد تعمیر کی ۔ اس کے بعد آپؐ مدینے میں داخل ہوئے تو وہاں مسجد کی تعمیر کے لئے کوششیں شروع کیں ۔ مسجد نبوی تعمیر ہونے لگی تو آپؐ نے خود اس کے کام میں حصہ لیا ۔ دوسرے صحابہ کے ہم راہ مزدور کی طرح کام کیا ۔ جب سے لے کر آج تک مسجدیں تعمیر ہورہی ہیں ۔ کسی بستی کے اندر مسلمانوں کی موجودگی کی علامت مسجد ہے ۔ مسجد اللہ کی وحدانیت اور اس کی حاکمیت تسلیم کرنے کا مرکز ہے ۔ بدقسمتی سے مسجدوں کی تعمیر میں بھی جدیدیت کا عنصر داخل ہوگیا ۔ پہلے مسجدیں سادگی کی علامت ہوتی ہیں ۔ اب مسجدیں عالیشان اور زرق و برق انداز میں تعمیر کی جارہی ہیں ۔ پچھلے کئی سالوں کے دوران بستی بستی نئی مسجدیں تعمیر ہونے لگیں ۔ ان مسجدوں کے رنگ و روغن پر کثیر رقم خرچ کی جارہی ہے ۔ لوگ ذوق و شوق سے مسجدوں کے لئے زمین اور پیسہ دیتے ہیں۔ بلکہ اس معاملے میں بولی لگائی جاتی ہے اور صاحب حیثیت لوگ چندہ دینے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ مسجدوں کی تعمیر کے لئے توقع سے زیادہ رقوم جمع ہوتے ہیں ۔ سرینگر کے لالچوک سے لے کر دوردراز پہاڑی علاقوں تک جہاں بھی آپ دیکھیں بڑی شاندار مسجدیں تعمیر ہوئی ہیں ۔
جدید طرز کی مسجدوں کی تعمیر ایک حوصلہ افزا بات ہے ۔ ایک ایسے دور میں جبکہ انسان کے ذہن پر مادیت کا غلبہ ہے مسجدوں کی تعمیر پر پیسہ خرچ کرنا اسلام سے والہانہ عقیدت کی علامت ہے ۔ یہ ایک پہلو ہے ۔ اس کا دوسرا رخ بہت ہی مایوس کن ہے ۔ وہ یوں ہے کہ جن بستیوں میں اعلیٰ طرز کی مسجدیں بن رہی ہیں وہاں غریب طبقہ اور حاجت مند لوگ پوری طرح سے نظر انداز ہورہے ہیں ۔ خیراتی اداروں سے معلوم ہوتا ہے کہ بستیوں میں غریبوں ، یتیموں ، بیوائوں اور دوسرے حاجت مندوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ ایسے اداروں کو چلانے والوں کا کہنا ہے کہ آئے دن حاجت مندوں کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ یتیم ٹرسٹوں ، بیت المال کمیٹیوں اور دوسرے ایسے ہی اداروں سے وابستہ افراد سے اندرونی حالت معلوم کرنے پر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ لوگ حاجت مندوں کی امداد کرنے کو تیار نہیں ۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ مسجدوں میں پہلی صف میں بیٹھنے والے لوگ غریبوں کے لئے چندہ جمع کرنے والوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرتے ہیں ۔ انہیں مسجدوں میں چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں کہ اس وجہ سے مسجد کی آمدنی کم ہوتی ہے ۔ خیراتی اداروں کے رسید بک لے کر آنے والوں کو فراڈ قرار دے کر ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔ یہ بات غلط نہیں کہ چندہ جمع کرنے والے بیشتر لوگ جمع ہوئی رقم خود ہڑپ کر لے جاتے ہیں ۔ نامعلوم لوگوں کو اس طرح سے چندہ دینے سے احتراض کیا جانا چاہئے ۔ لیکن اپنی بستی اور جان پہچان کے لوگوں کو ایسے کام سے روکنا صحیح طریقہ نہیں ہے ۔ اسلام نے ہر شخص کو اپنے مال سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ بلکہ مال کو جمع کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ اس دوران غریبوں کے لئے حصہ مشخص کیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ فصلوں کے اندر حاجتمندوں کا حصہ مقرر کیا گیا ۔ عشر اور خمص کے نام پر زرعی پیداوار کے اندر حصہ مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ اسی لئے ہے تاکہ کسی بستی کے ضرورت مندوں کو ان کی اپنی بستی کے اندر سے کھانے پینے کی اشیا میسر آئیں ۔ زکوات غریبوں پر خرچ کرنے کے علاوہ کسی دوسرے مد پر خرچ نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ صدقات مفلسوں کا پیٹ پالنے اور ان کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں ۔ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی دایات پر عمل کرتے ہوئے زکوات ، صدقہ اور خیرات دیتے ہیں ۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا مصرف رسول کی ہدایات پر عمل میں نہ لایا جائے تو اس کی ادائیگی کا حق ہرگز ادا نہ ہوا ۔ یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ لوگ عالی شان مسجدیں تعمیر کرنے ، تعلیمی ادارے اور دوسروں کو حج اور عمرہ کرانے پر اپنا مال صرف کرتے ہیں ۔ زکوات اور صدقہ کا جو حصہ مدارس یا مسجدیں تعمیر کرنے پر صرف ہوتا ہے اس کی ادائیگی کا حق ادا نہیں ہوتا ۔ یہ جان کر ان اداروں کو صدقہ اور زکوات دینا جن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اس رقم کو غریبوں پر خرچ نہیں کرتے اس کی ادائیگی کسی صورت صحیح نہیں ۔ ایسے مال دار لوگوں کو زکوات کا فرض پورا ہوا نہ صدقہ ہی ادا ہوا ۔ ان کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد نہیں ہوئی ۔ معلوم ہونا چاہئے کہ جس بستی میں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہیں اور ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں وہاں کے لوگ کیسی بھی شاندار مسجدیں تعمیر کریں اللہ کے عذاب سے نہیں بچ پائیں گے ۔ یہ ہمارے ذہن کا فتور نہیں بلکہ اسلام کی سیدھی اور سادی تعلیم ہے ۔ اسلام نے غریبوں کو پالنا سب سے مقدم کام قرار دیا ہے ۔ خلفائے راشدین کے حوالے سے یہ بات واضح ہے کہ انہوں نے بیت المال کی ایک پائی مسجدوں کی تعمیر یا اسلامی درسگاہوں کا جال پھیلانے پر خرچ نہیں کیا ۔ بلکہ ایک ایک دانہ اور ایک ایک بوری غریبوں تک پہنچائی ۔ اس کام کو خود انجام دیا اور حاجت مندوں کی دلجوئی کی ۔ مسجدوں اور درس گاہوں میں یہی تعلیم دی جاتی ہے ۔ لیکن آج تک ایسی کوئی مثال ہم تک نہیں پہنچی کہ کسی مفتی ، مولوی یا واعظ نے یہ کار خیر انجام دیا ۔ انہوں نے اس نام پر کافی مال جمع کیا ۔ لوگوں سے صدقہ اور زکوات وصول کیا ۔ پھر اسے اپنے لئے گھر بنانے اور اہل و عیال کے لئے شاندار کوٹھیاں تعمیر کرنے پر خرچ کیا ۔ یہ انوکھا اسلام ہے ۔ جو قرآن میں نظر آتا ہے نہ احادیث کے اندر اس کی تعلیم دی گئی ہے ۔ مسجدوں کے لئے فنڈ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے اور غریبوں کی امداد کو روکا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے مودی کی دہائی دیتے ہیں اور مولوی کو گالیاں دیتے ہیں ۔ یہ وقت کا الٹ پھیر ہے ۔
