تحریر:ڈاکٹر غلام قادر لون
وادی میں زوال شروع ہونے کا کم سے کم وقت 11:32 بجے پر اور زیادہ سے زیادہ وقت 12:03 بجے ہوتا ہے۔ زوال سے آدھ گھنٹہ پہلے کا وقت بھی نماز عید کا آخری وقت مانا جائے تو چھوٹے دنوں میں گیارہ بجے اور بڑے دنوں میں ساڑھے گیارہ بجے تک نماز عید کا وقت رہتا ہے۔ اگر مخصوص حالات اور موسم کو مدنظر رکھ کر نماز عید9:00 سے 10:30 بجے تک بھی ادا کی جائے تو کوئی قباحت نہیں۔
’اور اس نے دین میں تمہارے لئے کوئی تنگی نہیں رکھی ۔ ‘(الحج : ۷۸)
’اِنَّ الدِّیْن یسر’‘‘( دین آسان ہے۔) (صحیح البخاری)
صلاۃ العید : ’ووقتھا بعد ارتفاع الشمس قدرِر ُمرمحِِ الی الزوال‘ (الدُّرالبھیۃ)
نماز عید : ’نماز عید کا وقت سورج نیزے کے برابربلند ہونے سے ڈھلنے تک ہے۔‘ (فقہ الحدیث)
پچھلے کئی برسوں سے وادی کشمیر میں نماز عید صبح ساڑھے سات بجے تک ادا کرنے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ نماز عید کا وقت وہ وقت ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوجائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حدیث میں نماز عید کا وقت وہ ہے جب سورج ایک نیزے کے برابر بلند ہوجائے۔ تاہم یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ یہ نماز عیدکا ابتدائی وقت ہے۔ اس کا انتہائی وقت زوالِ آفتاب ہے۔ جیسا کہ علماء نے صحیح حدیث سے استدالال کیا ہے۔ نماز کے دوران اگر زوال کا وقت داخل ہوجائے کہ نماز فاسد ہوگی اس لئے احتیاط کا تقاضا ہے کہ زوال سے پندرہ بیس منٹ پہلے نماز عید ختم ہو۔ فقہا ء کرام نے تصریح کی ہے کہ زوال سے کچھ پہلے نماز ختم ہو۔ امسال ۱۰ جولائی یعنی عیدالاضحی کے روز نصف النہار ؍ زوال 11:45 بجے شروع ہو۔ا اگر زوال سے پندرہ بیس منٹ ہی نہیں آدھ گھنٹہ پہلے تک نماز عید کا آخری وقت مان لیا جائے تب بھی 11:15 بجے تک نماز عید ادا کی جاسکتی ہے چھوٹے دنوں میں زوال کا وقت وادی کشمیر میں 11:32 بجے پر اور بڑے دنوں میں 12:03 بجے پر شروع ہوتا ہے۔ گویا وادی میں زوال شروع ہونے کا کم سے کم وقت 11:32 بجے پر اور زیادہ سے زیادہ وقت 12:03 بجے ہوتا ہے۔ زوال سے آدھ گھنٹہ پہلے کا وقت بھی نماز عید کا آخری وقت مانا جائے تو چھوٹے دنوں میں گیارہ بجے اور بڑے دنوں میں ساڑھے گیارہ بجے تک نماز عید کا وقت رہتا ہے۔ اگر مخصوص حالات اور موسم کو مدنظر رکھ کر نماز عید9:00 سے 10:30 بجے تک بھی ادا کی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
چند سال پہلے تک وادی میں اکثر مقامات عید کی نماز 8:00بجے صبح سے 10:30 بجے صبح تک ادا کی جاتی تھی ۔ اس سال اقراء مسجد سرائے بالا سری نگر کے مشہور خطیب اور مبلغ محترم شوکت شاہین صاحب نے عیدا لاضحی کے موقع پر کہا کہ عید کی نماز صبح جلدی ادا کرنے کا کلچر عام ہوگیا ہے۔ حدیث کی اپنی تاویل نہیں کرنی چاہئے۔نمازعید عظمت اسلام کی مجلس ہے۔ یہ سال میں دو نمازیں ہوتی ہیں ۔یہ قوت اسلام کا اظہار ہونی چاہئیں۔ اگر 10:00 بجے بھی نماز ہوجائے وہ بھی ناجائز نہیں ہے۔‘‘
محترم شاہین صاحب ہمارے دوست ہیں وہ کبھی اختلافی مسائل کو ہوا نہیں دیتے۔ اس لئے ہم ان کا زیادہ احترام کرتے ہیں مگر یہاں معاملہ حق دوستی نبھانے کا نہیں کہ ان کی طرف داری کریں بلکہ اپنے محدود مطالعے کی روشنی میں ایک دینی مسئلہ میں اظہار رائے کرنا مقصود ہے۔
ہماری رائے میں محترم شوکت شاہین صاحب نے وادی کے لوگوں کے اخلاق و عادات کے پیش نظر مناسب اور معقول بات کہی ہے۔ احادیث کے مطابق آپ ﷺ عیدالفطر کے موقع پر صبح طاق تعداد میں کھجوریں تناول فرما کر عیدگاہ کی طرف نکل جاتے تھے۔ اور عیدالفطر کی نماز اس وقت پڑھاتے تھے جب سورج دو نیزوں کے برابر بلند ہوتا تھا۔ عیدالاضحی کے روز گھر میں آپ ﷺ کچھ نہیں کھاتے تھے اور عید گاہ روانہ ہوتے تھے۔ جہاں آپ ﷺ عیدالاضحی کی نماز اس وقت پڑھاتے جب سورج ایک نیزہ کے برابر بلند ہوتا تھا۔ ان احادیث سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء نے کہا ہے کہ عید کی نماز کا وقت اس وقت شروع ہوتاہے جب سورج ایک نیزہ بلند ہو۔
اس سلسلہ میں محدثین نے صحابی حضرت عبداللہ بن بسر ؓ کا واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ وہ لوگوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے کیلئے نکلے۔ امام صاحب تاخیر سے آئے تو انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو اس وقت فارغ ہوچکے ہوتے تھے۔ یہ وقت تو تسبیح (صلاۃ التسبیح یعنی چاشت) کا ہے۔ (سنن ابی دائود ؛حدیث: ۱۱۳۵ سنن ابن ماجہ؛ حدیث: ۱۳۱۷)
اب دیکھنا یہ ہے کہ نماز عید کا آخری وقت زوال ہونا کہاں سے ثابت ہے۔ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس چند سوار آئے اور انہوں نے گواہی دی کہ انہوں نے کل چاند دیکھا ہے جس پر رسول الہ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ روزہ کھول دیں اور جب صبح ہوجائے تو عید گاہ پہنچیں۔ (سنن ابی دائود حدیث: ۱۱۵۷ ، سنن ابن ماجہ حدیث : ۱۶۵۳ ، سنن النسائی حدیث: ۱۵۵۷)۔
یہ لوگ زوال کے بعد دن کے آخر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے۔ جب انہوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی۔ تو آپ ﷺ نے صحابہ کو جو چاند نہ دیکھنے کی بنا پر رمضان کا تیسواں روزہ پورا کررہے تھے، روزہ کھولنے کا حکم دیا اور انہیں دوسرے دن صبح عید گاہ پہنچنے کی تاکید کی جہاں وہ عید کی نماز ادا کریں۔ فقہا ء نے اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عید کی نماز کا آخری وقت زوال ہے۔ اگر زوال کے بعد عید کی نماز کا وقت ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسی دن نماز پڑھاتے ۔ صحابہ کو دوسرے دن صبح کو عید گاہ پہنچے کا حکم نہ دیتے ۔ مطلب یہ کہ چاند دیکھنے کی اطلاع زوال کے بعد ملی تھی اس لئے آپ ﷺ نے صحابہ کو روزہ کھولنے کا تو حکم دے دیا مگر عید کی نماز نہیں پڑھائی کیونکہ اس کا وقت ہی نہیں رہا تھا۔
فقہاء نے اسی حدیث کی بنا پر کہا ہے کہ عید کی نماز کا وقت آفتاب ایک نیزہ بلند ہونے کے وقت سے لے کر زوال کے آغاز تک ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ زوال سے پندرہ بیس منٹ قبل نماز ختم ہو۔
قدوری میںاس کے مصنف نے لکھاہے: ’’فاذاحلت الصلاۃ بارتفاع الشمس دحّل وقتھا الی الزوال فاذازالت الشمس خرج وقتھا ۔‘‘
(قدوری، باب صلاۃ العیدین)
یعنی اس کا وقت تب شروع ہوتا ہے جب سورج بلند ہونے پر اس کا پڑھنا صحیح ہو اور زوال تک رہتا ہے جب سورج ڈھلنے لگے تو اس کا وقت ختم ہوتا ہے۔
’ہدایہ‘ فقہ کی مشہور کتا ب ہے۔ اس کے مصنف نے بھی قدوری کے الفاظ دئے ہیں اور نماز کا آخری وقت زوال ہونے کی دلیل اوپر والی حدیث دی ہے کہ جب زوال کے بعد لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی تو آپ ﷺ نے صحابہ کو اگلے دن عید گاہ کی طرف نکلنے کا حکم دیا۔ (ہدایہ ۔ باب العیدین)
شرح وقایہ میں عید کی نماز کے بارے میں آیا ہے:
’ووقتھامن ارتفاع ذکاء الی زوالھا ‘(اور اس کا وقت سورج کے بلند ہونے اس کے زوال تک رہتا ہے۔) (شرح وقایہ؛ باب العیدین)
عیدکی نماز کے بارے میں درمختار کے مصنف کا بیان ہے:
’ووقتھا من الارتفاع قدر رمح فلالصیح قبلۃ بل تکون تفلاً محرماً الی الزوال باسقاط الھایتہ فلوزالت الشمس وھو فی اثنائھا فسدت۔ ‘یعنی عید کی نماز کا وقت سورج ایک نیزہ بلند ہونے کے وقت سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک ہے۔ اگر سورج ایک نیزہ برابر بلند ہونے کے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی تو وہ درست نہ ہوگی بلکہ نفل ہوگی جس سے منع کیا گیا ہے۔ اگر نماز کے دوران زوال شروع ہوا تو نماز فاسد ہوگی۔ (درمختار باب العیدین)
مصنف کہتے ہیں کہ اگر کوئی عذر ہو جیسے بارش وغیرہ تو عید (فطر) کی نماز دوسرے دن کے زوال تک موخرکی جاسکتی ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی
کے احکام بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ دونوں کے احکام میں فرق یہ ہے کہ اگر عذر ہو تو عیدالاضحی کی نماز قربانی کے تیسرے دن یعنی بارہویں ذی الحجہ کے زوال تک موخر کی جاسکتی ہے۔ اگر بغیر عذر کے عیدالاضحی کی نماز تیسرے روز کے زوال تک موخر کی تو نماز ہوگی مگر کراہت کے ساتھ جبکہ عیدالفطر کی نماز بغیر عذر کے موخر نہیںکی جاسکتی ہے۔ (درمختار؛ باب العیدین)
قاضی ثناء اللہ پانی پتی جنہیں شاہ عبدالعزیز دہلوی’بیہقی وقت‘‘ کہا کرتے تھے لکھتے ہیں: ’وچوں آفتاب بلند شود و چشم خیزگی نماید ازآں وقت تا پیش اززوال وقت نماز عید ین است‘
اور جب سورج بلند ہوجائے اور نظر اس کی تاب نہ لائے تو اس وقت سے لیکر زوال سے کچھ پہلے تک نماز عیدین کا وقت ہوتا ہے۔
(مالا بدمنہ؛ ص ۶۴)
وہ یہ بھی لکھتے ہیں:
’واگر بعذرے نماز عیدالفطر از امام و قوم فوت شود روز دوم ادا کنند نہ بعد ازاں و عیدالاضحی را تاخیر تا دواز دہم جائز یست۔ ‘یعنی اگر کسی عذر کی وجہ سے عیدالفطر کی نماز قوم اور اما م سے چھوٹ جائے دوسرے دن (زوال تک) ادا کریں اس کے بعد نہیں اور عید الاضحی کی نماز کو بارہویں تاریخ (کے زوال تک) موخر کرنا جائز ہے۔ (مالا بد منہ؛ ص ۶۵)
فقہ کی اردو کتابوں میں بھی یہ احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مولانا مجیب اللہ ندوی لکھتے ہیں:
’اگر کسی وجہ سے عیدالفطر کی نماز شوال کی پہلی تاریخ کو نہ پڑھی گئی تو پھر اس کو دوسرے دن پڑھا جاسکتا ہے اور عیدالاضحی کی نماز ۱۱ اور ۱۲ تاریخ( کے زوال) تک پڑھی جاسکتی ہے۔‘ (اسلامی فقہ ج ا ص ۲۹۸)
مولانا شمس الدین احمد جعفری رضوی لکھتے ہیں:
’عید ین کی نماز کا وقت اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب کہ سورج ایک نیزہ کے برابر ہوجائے اور ضحوۃ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک رہتا ہے لیکن عیدالفطر میں دیر کرنا اور عید الاضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے۔ سلام پھیرنے سے پہلے زوال ہوگیا تو نماز جاتی رہی۔ زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے۔ (قانون شریعت ۱: ۱۶۹)
مولانا مزید لکھتے ہیں:
’کسی عذر کی وجہ سے عید کے دن نماز نہ ہوسکی مثلاً سخت بارش ہوئی یا ابرکے سبب سے چاند نہیں دیکھا گیا اور گواہی ایسے وقت گزری کہ نماز نہ ہوسکی یا ابر تھا اور نماز ایسے وقت ختم ہوئی کہ زوال ہوچکا تھا تو دوسرے دن پڑھی جائے اور دوسرے دن بھی نہ ہوئی تو عیدالفطر کی نماز تیسرے دن نہیں ہوسکتی اور دوسرے دن میں بھی نماز کا وہی وقت ہے جو پہلے دن تھا۔ یعنے ایک نیزہ آفتاب کے بلند ہونے سے نصف النہار شرعی تک اگر بلا عذر عیدالفطر کی نماز پہلے دن نہ پڑھی تو دوسرے دن نہیں پڑھ سکتے ۔ عیدالاضحی کی نماز عذر کی وجہ سے بارہویں تک (بارہویں کے زوال تک) بلاکراہت موخر کرسکتے ہیں۔ بارہویں کے بعد پھر نہیں ہوسکتی اور بلا عذر دسویں کے بعد مکروہ ہے۔‘( قانون شریعت ۱:۱۷۰۔۱۷۱)
مولانا محمد رفعت قاسمی کا بیان ہے:
’اگر کسی عذر کی بنا پر عیدالفطر کی نماز ادا نہ ہوسکی تو اگلے روز عید کی نماز ادا کریں۔ اگلے روز کے بعد نماز نہ پڑھیں عیدالاضحی کے دن عذر ہوگیا تو دوسرے اور تیسرے دن تک پڑھ سکتے ہیں اس کے بعد نہیں پڑھ سکتے۔‘ (مسائل عیدین و قربانی؛ ص ۷۸۔۷۹) مولانا نے بڑی اہم بات لکھی ہے:
’’نماز عید کا وقت ایسا ہونا چاہئے کہ نماز فجر سے فارغ ہوکر بطریق مسنون لوگ تیاری کرکے عیدگاہ پہنچ جائیں۔ عید کے موقع پر کچھ لوگوں کا پیچھے رہ جانا متوقع ہے۔ لہٰذا امام اور حاضر بن کو چاہئے کہ عجلت نہ کریں۔ حاضرین کو ذرا ضبط اور صبر سے کام لینا چاہئے۔ امام صاحب کو مشورہ دے سکتے ہیں لیکن نماز شروع کرنے پر اصرار نہیں کرنا چاہئے اور امام کی بھی ذمہ داری ہے کہ حاضرین کی تکلیف کا خیال کرتے ہوئے پیچھے رہ جانے والوں کی رعایت کرے اور قرأت خطبہ میں اختصار کرکے تلافی مافات کرے ۔ سال میں دو موقعے آتے ہیں کہ بے نمازی بھی اس میں شرکت کرتے ہیں۔ ضعیف ، بیمار اور معذورین بھی ہوتے ہیں۔ نماز فوت ہوگی تو بڑی برکتوں سے محروم ہوںگے لِہٰذا قدرے انتظار کیا جائے۔ البتہ جو آخری وقت میں آنے کے عادی ہیں ان کو حاضرین کی تکلیف کا احساس نہیں ہے اور اپنی نماز کی بھی فکر نہیں ہے اس طرح اپنا انتظار کراتے ہیں۔ ایسے غافل ، کاہل اور سست لوگوں کا انتظار کرنا ان کی عادت کو بگاڑنا ہے۔ ‘‘ (مسائل عیدین و قربانی ؛ ص ۷۲۔۷۳)
امام شوکانی کی مشہور کتاب’الدررا لبھیہ‘‘ کا ترجمہ تشریح اور تخریج کے ساتھ حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب نے کیا ہے اور کتاب’’ فقہ الحدیث‘‘ کے نام سے دارالعلم ممبی سے دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ نماز عید کے بارے میں کتاب میں آیا ہے:
’ووقتھا بعد ارتفاع الشمس قدر رنج الی الزوال ‘نماز عید کا وقت سورج کے نیزے کے برابر بلند ہونے سے ڈھلنے تک ہے۔ (فقہ الحدیث ۱:561)
امام شوکانی کی اس کتاب پر محدث زماں شیخ ناصر الدین البانی ؒ کی تحقیق اور افادات ہیں۔ فاضل مترجم نے بڑی محنت سے اس کی تشریح اور تخریج کی ہے۔ عید کی نماز کے متعلق ’’ فقہ الحدیث‘‘ میں واضح کیا گیا ہے:
’’ نماز عیدین کا آخری وقت زوال آفتاب ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے زوال آفتاب کے بعد چاند نظر آنے کی اطلاع ملنے پر کہا کہ ’’ کل صبح لوگ نماز عید کیلئے عید گاہ پہنچیں۔‘‘
’’ اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے‘‘ (فقہ الحدیث ۱:561)
ان تمام گزارشات کا ماحصل یہ ہے کہ عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزے کے برابر بلند ہونے سے زوال آفتاب سے پہلے تک ہے۔
خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب شریعت میں کسی مسئلے میں پہلے ہی سے وسعت اور گنجائش موجود ہے تو اسے تنگ کرنا اور عوام کو مشکلات میں ڈالنا چہ معنی دارد!
عید کی نماز 6:00 بجے صبح پڑھنا یا 7:00 بجے یا 7:30 بجے تک ادا کرنا مستحب ہے اور فقہا ء نے احادیث سے واقفیت کے باوجود اسے مستحب ہی کہا ہے جس طرح عیدالفطر کے روز نماز سے پہلے طاق کھجوریں کھانا اور عیدالاضحی کے رو ز نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا آپ ﷺ سے ثابت ہے مگر فقہا ء کہتے ہیں کہ اگر کوئی عیدا لفطر کے روز نماز سے پہلے کچھ نہ کھالے یا عیدالاضحی کے روز نماز سے پہلے کچھ کھالے تو کوئی گناہ نہ ہوگا۔
وادی میں جہاں موسم اکثر بدلتا رہتا ہے یا اکتوبر سے لے کر مارچ تک صبح 8:00 یا 9:00 بجے تک سردی رہتی ہے یا زمین میں نمی ہوتی ہے؛ صبح عید نماز پڑھنے پر اصرار کرنا شریعت کا منشا نہیں ہے۔ پھر عید کے روز غسل کرنا ، نئے یا صاف کپڑے پہننا، خوشبو یا عطر لگانا ، ناخن تراشنا اور زینت کرنا بھی تو مستحب ہے۔ جو لوگ نماز فجر کے بعد مسجد ہی میں قیام کرکے صبح 6:00 بجے عید کی نماز پڑھنے کے بعد گھر آتے ہیں انہیں اس کا موقع ہی نہیں ملتا کہ وہ ان آداب کی طرف دھیان دیں اور جولوگ گھر وں میں ہوتے ہیں وہ بھی عیدکی نماز کیلئے پوری طرح تیار ی نہیں کرتے کیوںکہ انہیں تیاری کیلئے وقت نہیں ملتا۔ سرد علاقوں کے لوگ اکثر ان مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں۔
عید کی نماز عید گاہ میں پڑھنا مسنون ہے کیونکہ مسجد نبوی کی فضیلت کے باوجود آپ ﷺ نے عید کی نماز کیلئے عید گاہ ہی کو اختیار فرمایا ہے ۔ ایک حدیث کے مطابق صرف ایک عید کے دن جب لوگوں کو بارش نے آلیا تو آپ ﷺ نے انہیں مسجد میں عید کی نماز پڑھائی۔(سنن ابی داوٗد حدیث ۱:۱۱۶۰ سنن ابن ماجہ : ۱۳۱۳) مگر یہ حدیث ضعیف ہے تا ہم فقہ کا قاعدہ ہے،’الضروراتُ تبیح المخطورات‘ضرورتیں ممنوعہ چیزوں کو مباح کودیتی ہیں؛ اور فقہا ء نے اسی قاعدے کے پیش نظر مسجد میں عید کی نماز کا فتوی دیا ہے۔کیا 10:00 یا 10:30 بجے عید کی نماز کیلئے اس قاعدے سے جواز نہیں نکلتا جبکہ امام ابن قیم نے بھی لکھا ہے کہ وقت اور مصلحت کے سبب فتویٰ میں تبدیلی ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ میں نماز کی نیت باندھتا ہوں ؛اِرادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طویل کروںگا لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کردیتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے ماں کو جوجماعت میں شریک ہوگی ، شدید بے قراری ہوجاتی ہے ۔ (صحیح البخاری حدیث : ۷۱۰ سنن ابی داوٗد حدیث : ۷۸۹) کیا آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ تم میں سے بعض لوگوں کو بھگانے کا باعث بنتے ہیں۔ جو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں کمزور ، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہوتے ہیں۔
(صحیح البخاری حدیث: ۷۰۲)
کیا حدیث میں نہیں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’بلاشبہ دین آسان ہے جو شخص دین میں سختی برتے گا تو دین اس پر غالب آجائے گا۔ عمل میں استقامت پیدا کرو۔ میانہ روی برتو۔ خوش ہوجاو ۔صبح و شام اور کسی قدر رات میں عبادت سے مدد حاصل کرو۔ ‘(صحیح البخاری حدیث:۳۹)
عہد رسالت خیرالقرون کا روشن ترین زمانہ تھا ۔تاریخ نے کبھی ایسا دور نہیں دیکھا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جس میں ہر طرف اور ہر گوشے میںخیر ہی خیر تھا۔ اُس زمانے میں شاید ہی کسی سے فجر کی نماز چھوٹتی تھی اور ہم جس دور مین جی رہے ہیں اس میں 90 فیصد مسلمانوں کو فجر کی جماعت ملتی ہی نہیں۔
ہم لوگ صحابہ ؓ کی گرد ِپاکوبھی نہیں پہنچ سکتے ’چہ نسبت خاک را با عالم باک ‘ ایک حدیث میں زبان رسالت سے دونوں زمانوں کے فرق کو واضح کرتے ہوئے صحابہ ؓ سے فرمایا گیا ہے:
’’تم لوگ ایسے زمانے میں ہو کہ اگر تم میں سے کوئی احکام کے دسویں حصے کو بھی چھوڑے گا تو وہ ہلاک ہوگا ۔اس کے بعد وہ زمانہ آئے گا کہ اگر ان میں سے کوئی احکام کے دسویں حصے پر بھی عمل کرے گا تو نجات پائے گا۔‘‘ (سنن الترمذی حدیث: ۲۲۶۷)
ہم سے بہتر طور پر غنی کشمیری نے دونوں زمانوں کے فرق کو سمجھا ہے ؎
خوشاعہدیکہ مردم آدم بے سایہ رادیدند
غریب امت ایں زمانہ گرسایہ آدم شود پیدا
’کیا مبارک زمانہ تھا کہ لوگ ایسے شخص کو دیکھتے تھے جن کا سایہ نہیں تھا۔اس زمانے میں آدم تو کجاآدم کا سایہ بھی نظر آئے تو یہ بھی باعث تعجب ہوگا۔‘
لہٰذا زمانے کے حالات ، موسم کے اتارر چڑھائو،لوگوں کے احوال و عادات کو دیکھ کر اور شریعت کی وسعت کے پیش نظر عید کی نماز نو دس بجے یا ساڑھے دس بجے بھی پڑھی جائے تو یہ ناجائز نہیں ہے۔ دین آسان ہے اور جدید زمانے میں لوگوں کو شرعی حدود کے اندر جس وقت سہولیت ہو اسے عید کی نماز کیلئے مقرر کرنا ہی دینی بصیرت کا تقاضا ہے۔ ہمارے خیال میں محترم شوکت شاہین صاحب نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے جس پر علماء کرام اور مساجد کے ذمہ داروں کو غور کرنا چاہئے۔ وقت اور حالات کا یہی تقاضا ہے ؎
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
