کشمیر اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ہی دنیا میں مشہور نہیں ہے بلکہ یہاں مختلف علوم و فنون سے وابستہ سینکڑوں فنکاروں پیدا ہوئے ہیں جہنوں نے اپنے اپنے میدانوں میں کار ہائے نمایاں انجام دے کر یہاں کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دئیے۔ادب کی بات کی جائے تو دہلی ،لکھنو ،عظیم آباد کی طرح دبستان کشمیر بھی اردو ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار نبھا رہا ہے۔یوں تو یہاں مختلف اصناف کو فروغ ملا لیکن اردو افسانہ کی طرف بیشتر قلمکاروں نے توجہ کی اور زندگی سے جڑے مسائل ،اس کی رنگا رنگی ، یہاں کی خوبصورتی اور ابتر حالات کو فنی چابکدستی کے ساتھ افسانوں میں پیش کیا۔یہاں لاتعداد افسانہ نگار ایسے ہیں جنہوں نے اس صنف کو ترقی دی۔زمان حاضر میں جو قلمکار افسانہ نگاری کی شمع کو محنت ،لگن اور محبت سے روشن کررہے ہیں ان میں ایک اہم نام جاوید شبیر کا ہے۔جاوید شبیر کا افسانوی مجموعہ ” پھر ہوئے زخم ہرے ” کے عنوان سے 2021 ء میں منظر عام پر آیا۔ مجموعے کو میزان پبلشرز نے چھاپا ہے۔اس مجموعے کا انتساب انہوں نے اپنے پیارے دو نواسوں دراب اور دائم کے نام کیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ وادی کے معروف افسانہ نگار وحشی سعید نے لکھا ہے جس میں وہ جاوید شبیر کی افسانوں پر اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ___
” جب ان افسانوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پڑھنا شروع کرتے ہیں تو کانوں میں آہستہ سے کبھی درد دل کی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں اور کبھی بے وفائی کی شکایتیں لیکن ان افسانوں میں کچھ اور بھی ہے۔۔۔یادوں کی تلخیاں اور ہجرتوں کے بھنور۔۔!”
پیش لفظ از وحشی سعید _صحفہ 8
پیش لفظ کے بعد مصنف نے ” کچھ اپنے بارے میں ” کے عنوان سے اپنی ادبی زندگی کی شروعات ، ریڈیو اسٹیشن تک رسائی کا احوال ، فیشن کے طور ناول پڑھنے کا ذکر ، سرکاری نوکری اختیار کرنے کے بعد فالتو وقت میں کتابیں پڑھنا، کاپی پر لکھے ہوئے مواد کے ضائع ہونے کا قصہ، بشیر شاہ صاحب سے مراسم ، نور شاہ صاحب کی رہبری اور رہنمائی ، جاوید آذر صاحب کی حوصلہ افزائی ، محمد امین بٹ کا مشورہ اور گلڈ کا ممبر بننا اور اس مجموعے کی اشاعت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔”پھر ہوئے زخم ہرے” میں کل اٹھائیس افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔پہلا افسانہ "کھلسی کا کتا "اور آخری "رخ بدلے ہواؤں نے” ہے۔کتاب کا بیک فلپ وادی کے معتبر اور کہنہ مشق افسانہ نگار نور شاہ نے لکھا ہے۔
ہر فرد کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔ایک ادیب اس واقعے کو تخلیقی رنگ دے کر افسانے میں ڈھالتا ہے۔اس میں اگر وہ کامیاب ہوتا ہے تو قارئین کو ایک بہترین افسانہ پڑھنے کو ملتا ہے۔ہاں اگر واقعہ رپورٹ بن جائے یا اس میں تخلیقیت کا عنصر مفقود نظر آئے،افسانویت غائب ہو تو واقعہ افسانہ نہیں بلکہ رپورٹ یا خبر کی حدود میں آجاتا ہے یا مضمون کے دائرے میں داخل ہوتا ہے۔”کھلسی کا کتا” میں جاوید شبیر نے راہ چلتی گاڑیوں کے پیچھے بھونکنے اور دوڑنے والے کتے ٹائیگر کی روداد کو بیان کیا ہے۔سدھیر جب کرگل سے لہیہ آتا ہے تو کھسلی کے مقام پر گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوجاتا ہے اور اسے میجر بھاوے اپنے بیراک میں آنے کی دعوت دیتے ہیں جہاں وہ اس کتے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ جب میجر واسن کی جگہ میں یہاں تعینات ہوا تو ٹائیگر کو میں نے اپنے پاس رکھ لیا البتہ میجر واسن اس کی ماں اور بھائی کو اپنے ساتھ لے گئے۔جب میجر واسن جیپ میں سوار ہوئے تو ٹائیگر رسی کاٹ کر گاڑی کے پیچھے دوڑ پڑا۔تب سے یہ ہر آنے جانے والی چھوٹی گاڑی کے پیچھے دوڑنے لگا شاید اس امید سے کہ کہیں اس کی ماں اور بھائی مل جائیں۔ڈرائیور سدھیر کو اطلاع دیتا ہے کہ گاڑی تیار ہوگئی اور وہ میجر بھاوے سے اجازت لیتا ہے، گاڑی جب چلتی ہے تو سدھیر کھڑکی سے باہر جھانکتا ہے۔ٹائیگر اس کی گاڑی کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ اس افسانے میں ایک عام واقعہ کو افسانہ بنایا کی سعی کی گئی ہے لیکن مصنف اس کو پوری طرح افسانہ نہ بنا سکے۔البتہ ٹائیگر کی اپنے مالک کے تئیں وفاداری اور ماں بھائی سے محبت کی عکاسی خوب کی ہے۔اس وفاداری اور محبت کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے___
” میجر بھاوے کا کہنا تھا کہ زندگی میں پہلی بار اس نے اس قسم کا کتا دیکھا ہے ورنہ اتنا پالنے پوسنے کے بعد ٹائیگر کو اب تک سب کچھ بھول جانا چاہیے تھا۔اس کی بھاگ دوڈ کی عادت بھلانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔مختلف اقسام کے کتے لائے تاکہ یہ ان کے ساتھ مل کر کھیل کے سب کچھ بھوک جائے لیکن یہ کمم بخت اپنی عادت سے باز نہ آیا۔دوسرے کتے آپس میں گھل مل گئے مگر یہ ٹائیگر ہمشیہ ان سے الگ تھلگ رہا اور آج بھی اکیلا ہے۔”
افسانہ کھلسی کا کتا صحفہ_ 23
جاوید شبیر نے کشمیر کے حالات و واقعات سے چشم پوشی نہیں کی بلکہ ان کے افسانوں میں یہاں کے لوگوں کا درد و کرب اور ان تمام واقعات کا عکس ملتا ہے جو یہاں پچھلی دو دہائیوں سے رونما ہورہے ہیں افسانہ ہم کیا چاہتے۔؟ کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔جب عسکری تنظیم کا سربراہ پولیس کے ساتھ ایک مڈبھیڑ میں مارا گیا تو ہر سو حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے اور کئی جگہوں پر مشتعل ہجوم اور پولیس کے مابین تصادم بھی ہوا۔ حکومت نے امن و قانون کو بنائے رکھنے کے لیے کرفیو نافذ کیا اور پھر سارے تعلیمی اور سرکاری دفاتر بھی بند ہو گئے۔ہڑتال ، کرفیو اور سڑکوں پر جگہ جگہ رکاوٹوں کے باعث لوگوں کی نقل حرکت مسدود ہوکے رہ گئی جس کا اثر عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مریضوں پر بھی پڑا۔افسانہ ہم کیا چاہتے۔۔؟ میں وامق کی بیماری ،ہڑتال اور کرفیو سے ان کی حالت سے لے کر اس کی وفات تک کی روداد بہترین ڈھنگ سے بیان ہوئی ہے۔وامق پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھا۔اسے علاج کی ضرورت تھی لیکن موبائل فون بند ، سڑکوں پر رکاوٹیں اور بندیشیں ہونے کے سبب اسے وقت پر طبعی سہولیات نہ مل سکیں جس کی وجہ سے اس کا انتقال ہوگیا۔افسانہ کشمیر کے حالات کی بہترین عکاسی کرتا ہے اور اس طرف توجہ دلانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ ہڑتال ، نعرہ بازی اور کرفیو کی وجہ سے معصوم لوگوں نے اپنی جان گنوائی ہے۔ افسانے کے اختتام سے حساس قارئین کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں__
” نعروں کے شور اور لوگوں کے اڑدھام میں گاڑی رکی رہی مگر وامق کی حالت بگڑتی جارہی تھی۔اچانک برکت اللہ اور دوسرے لوگوں نے دیکھا کہ وامق باپ کی طرف پھترائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اب اس کے چہرے پہ تکلیف کے کوئی آثار نہیں تھے وہ شائد زندگی کی قید سے آزاد ہوچکا تھا اور باہر ہجوم سے برابر نعروں کی آواز آرہی تھی ” ہم کیا چاہیے۔۔۔”
افسانہ ہم کیا چاہتے۔۔؟صحفہ 123
افسانہ ” پھر ہوئے زخم ہرے ” میں سدھارتھ اور بھاونا کی عشقیہ کہانی کو خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔سدھارتھ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کا پروفیسر ٹی بی مریض کی حیثیت سے سرینگر کے سینی ٹوریم میں داخل ہوتا ہے جو جموں کا رہنے والا تھا۔یہاں پہنچ کر اس کی یادیں تازہ ہو گئیں کیونکہ بی اے کے بعد اس نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لیا تھا اور یہی اس کی ملاقات بھاونا سے ہوئی تھی۔دونوں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے اور بات رشتہ تک آن پہنچی۔سدھارتھ کے والدین لڑکی کو پسند کرنے اور اس کے والدین سے بات کرنے کے لیے سرینگر آرہے تھے کہ رامبن کے قریب بس کو حادثہ پیش آیا۔ماں تو بچ گئی لیکن باپ دو دن بعد زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔اس صدمے سے دونوں کا رشتہ ملتوی ہوا۔
ایک ماہ بعد سدھارتھ کے امتحان کا نتیجہ نکلا اور وہ اپنے شعبے میں اول آیا۔نتیجے کے چند ماہ بعد سدھارتھ کو دہلی کالج میں لیکچرار کی نوکری مل گئی۔اس نے ماں سے بھاونا سے رشتے کی بات کی تو اس نے منع کیا کہ اس کا ستارہ گھر پر بھاری ہے اور وہ یہاں آنے سے قبل ہی سسر کو کھا گئی۔ماں کی خواہش کا خیال رکھتے ہوئے سدھارتھ نے رشتے کو ملتوی کرلیا۔دو سال کے انتظار کے بعد گھر والوں نے بھاونا کا رشتہ جموں کے آرمی کیپٹن وشال گپتا سے کردیا جس کی ڈیوٹی آسام میں تھی۔
سدھارتھ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی اور اب وہ یونیورسٹی میں پروفسیر بن گیا تھا۔اس کے معتدد مضامین اور کتابیں چھپ چکی تھیں اور وہ سیاسیات کا جانا مانا نام بن چکا تھا لیکن زیادہ تحقیق کی وجہ سے اس کی صحت بگڑ چکی تھی۔ یہی سبب تھا کہ وہ سرینگر آیا۔یہاں وہ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں گیا جہاں اس کا پر زور استقبال کیا گیا۔وہ وزیر باغ جنک راج کوہلی کے گھر بھی گیا جہاں وہ پیئنگ گیسٹ کی حیثیت سے رہتا تھا، جہاں اسے پتا چلا کہ کوئی بھاونا نام کی لڑکی اسی ڈھونڈنے آتی تھی جو مندر باغ سرینگر کی رہنے والی ہے۔وہ مندر باغ کا رخ کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ بھاونا کے شوہر کا شادی کے دو سال بعد انتقال ہوگیا اور وہ اب اکیلی رہتی ہے۔جموں کے اسکول میں کام کرتی ہے اور ایک دو ماہ کے لیے سرینگر آتی ہے۔ سدھارتھ ہمسائی کو اپنا کارڈ دے کر اسپتال واپس آتا ہے تو رات کو اسے شور سنائے دیتا ہے۔اگلی صبح وہ نرس سے دریافت کرتا ہے جو اسے بتاتی ہے کہ بھاونا نامی عورت کا کل دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا ہے یہ سن کر ہی وہ گر پڑتا ہے۔
پھر ہوئے زخم ہرے ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں تجسس آخر تک برقرار رہتا ہے۔اس افسانے میں محبت کا پرندہ اونچا اڑتا تو ہے لیکن جدائی کا صیاد اسے جلد ہی مار گراتا ہے۔سدھارتھ اور بھاونا کی عشقیہ داستان کو دلکش اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔زبان سلیس اور رواں ، جذبات نگاری ہو یا منظر نگاری رومانوی رنگ لیے ہوئے یہ افسانہ درست اور چست طریقے سے اگے بڑھتا ہے۔اس میں یادوں سے بے چین ہونے کی عکاسی بھی کی گئی ہے اور تخیل کی کرشمہ سازیاں ،جذبات کی فضا بندی ، ماضی کی دھیمی دھیمی کسک، حال کی بدحالی ، ،جدائی ، دوبارہ ملنے کی امید اور دائمی جدائی کے صدمے کو بھی دکھایا گیا ہے۔
سلگتی چنگاریاں” جب شعلہ بن کر سب کچھ راکھ کردیتی ہیں اس صورتحال کو جاوید شبیر نے افسانوی رنگ دیا ہے اور جن اذیت ناک لحموں اور واقعات کو دیکھ کر ” زخمی ” کہتے ہیں کہ ” پھر ہوئے زخم ہرے” ان لمحوں اور واقعات کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ان کے افسانوں کا موضوع وہ "دیوانہ” بھی ہے جو ” کال بیل ” بجا کر لوگوں کو آگاہ کرتا ہے کہ "ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں”۔”مغرور شخص” جب ” پکار ” اٹھا کہ ” بہہ گئے ارمان ” تو لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ "پنکی "نے جب "بس سٹاپ” پر نعرہ لگایا کہ” ہم کیا چاہتے۔۔؟” تو اسے بدلے میں "طمانچہ” ملا اور وہ یہ سہہ کر چپ ہوگئی کہ یہی ہے” بھگوان کی مرضی”،” جب رخ بدلے ہواؤں نے” تو "چیف” نے” پھولوں کے سوداگر” سے کہا کہ” نہیں مرتی ہے ماں "تو اس نے جوابا کہا کہ انتظار کرو "پردہ اٹھ رہا ہے”،” مسیحا” آنے والا ہے ابھی لوگ” نئی دنیا سہائے خواب” بن رہے ہیں ان سارے واقعات کو جاوید شبیر نے بے ساختگی اور گفتگو کے انداز میں سادگی کے ساتھ بیان کیا ہے۔وہ معاشرتی تجربات کی بنیاد پر انسانی زندگی کا باریک بینی سے نقشہ کھینچتے ہیں۔ان کے یہاں کسی قسم کی پیچیدگی یا گنجلک پن نظر نہیں آتا بلکہ نہایت سیدھے سادے ،سلیس اور شستہ زبان میں انسانی زندگی اور سماجی مسائل کو بڑے سلیقے سے افسانوں کا پیکر عطا کرتے ہیں۔بحثیت مجموعی ” پھر ہوئے زخم ہرے” میں تجربات ،مشاہدات ، رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کی عکاسی کی گئی ہے۔زندگی سے جڑے مسائل ہوں یا انسانی جذبات ،ماضی کی یادیں ہوں یا حال کی بدحالی افسانوں کے ذریعے متنوع کیفیات کی ترجمانی کی گئی ہے۔نور شاہ کا یہ کہنا بجا ہے کہ__
"ان کے افسانے پڑھ کر اس بات کا بخوبی احساس ہوتا ہے کہ ان کے افسانوی کردار ہماری زندگی کے حالات و واقعات کے ارد گرد گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔مقامی مسائل اور حیات و کائنات کی پیچدگیاں بھی ان کے افسانوں کا حصہ ہیں”۔