
بجلی انسانی زندگی کی ایک اہم بنیادی سہولیات ہے۔جہاں وقت ڈیجیٹل ہوتا جا رہا ہے وہی تمام تر میدانی و پہاڑی علاقہ جات میں بجلی پہنچانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے تاکہ اس ڈیجیٹل دور میں لوگ اپنامستقبل تاریک محسوس نہ کریں۔لیکن پھر بھی ملک کے کئی ایسے علاقع موجود ہیں جہاں لوگ آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اوراس کی وجہ سے ان کی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ایسے ہی کچھ علاقع جموں کے ضلع ڈوڈہ کے گاؤں کا بھی ہے۔جہاں آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے لوگ محروم ہیں۔ حلانکہ ان میں سے کئی ایسے مقامات ہیں جہاں پر عرصہ دراز پہلے بجلی پہنچانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے مکمل انتظام کی بجائے تاروں کو سرسبز درختوں یالکڑی کے کھمبوں کے ساتھ خطرناک طریقہ سے جور دیا گیا ہے۔ جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ ابھی تک ان علاقہ جات میں لوگوں کے مسایل پرسنجیدگی سے غور نہیں کررہاہے۔
اس سلسلے میں علاقہ کے کئی باشعور لوگوں نے انتظامیہ سے بات کی اور اور اپنی مشکلات کا ازالہ کرانے کی ازحد کوشش کی۔اس سلسلے میں سماجی کارکن آصف اقبال بٹ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی انسانی زندگی کی بنیادی سہولیات ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چناب ویلی میں اب تک کئی مقامات پر بجلی سے مکانات جلنے کی خبروں کے ساتھ ساتھ انسانی جان جانے کی بھی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔ لیکن اس پر ابھی تک غور نہیں کیا گیا ہے کہ کیوں انسانی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے؟کئی مقامات پر اس کی وجہ سے کروڑوں کی جایدات ختم ہو گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے کچھ پہاڑی علاقہ جات آج بھی بجلی جیسی بنیادی سہولیات کا مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ جبکہ عرصہ دراز سے بجلی کی تاریں سرسبز درختوں کے ساتھ اور کئی مقامات پر لکڑی کے کھمبوں کے سہارے لگی ہوئی ہیں۔جن سے کبھی جانی توکبھی مالی نقصان کا اندیشہ بنا رہتا ہے۔ اس لیے انتظامیہ کو فوری طور پر ان علاقوں کا جائزہ لے کر بجلی کی تاروں کے لیے مکمل ستونوں کا انتظام کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تیز آندھی آنے کی وجہ سے یا اچانک آندھی آنے کی وجہ سے یہ تاریں کسی بھی انسانی جان یا کسی بھی جاندار مال کا نقصان کر دیتی ہیں۔ اس کی وجہ علاقے میں ہر وقت ڈر کا ماحول بنا رہتا ہے۔
وہیں بلاک ترقیاتی کونسلر کاہرہ، چودھری فاطمہ سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ محکمہ کو چاہیے کہ وہ ان علاقہ جات کا جائزہ لے کر فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے جو علاقہ میں لگائے جانے والے پولوں کا اندازہ کر سکے اور آنے والے وقت میں ان کھمبوں اور تاروں کو لوگوں کے لیے فائدہ مند بناسکے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لاک ڈون کے آیام میں جس طرح بچوں کوبجلی کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ قابل تشویش تھی۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے جلد سے جلد ان تمام مقامات پرمضبوط تاروں اور کھمبوں کا بندوبست کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے ا س سلسلے میں کئی مرتبہ ضلعی انتظامیہ اور گورنر انتظامیہ کے سامنے بھی اس طرح کی شکایت درج کی ہیں لیکن ابھی تک کوئی بھی ازالہ نہیں ہوسکا ہے۔فاطمہ نے مزید کہا کہ اس ڈیجیٹل دور میں جہاں تیز آندھی آنے کی وجہ سے بجلی کی تاریں زمین بوس ہوتی ہیں وہیں دوسری جانب کبھی بھی اسکولی بچے ان تاروں کی زد میں آکر نقصان کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ کئی مقامات پرا سکولوں کے اوپر سے تاریں لگی ہوئی ہیں اور جو کافی کمزور اور خستہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تاروں کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے تاکہ آنے والے وقت میں علاقہ کے لوگ کسی بھی نقصان کا شکار نہ ہو سکیں۔
وہیں سماجی کارکن شہنواز میر سے بات کی تو انہیں بتایا کہ چناب ویلی میں آج قدیم زمانے کی طرح لوگ بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ جن علاقوں میں بجلی کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا ہو ان علاقوں میں فوری طور پر بجلی کا کام شروع کیا جانا چاہیے تاکہ آنے والے وقت میں طلباء کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہیں ضلع ترقیاتی کونسلر مہراج ملک نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال محکمہ کے پاس کروڑوں روپے کی لاگت صرف بجلی کے نظام کی مرمت کے لئے واہگزار ہوتی ہیں۔جبکہ ان کروڑوں روپیہ کو زمینی سطح پر لگایا جائے تو علاقع کی حالت بدل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جموں و کشمیر کے ان مقامات پر فوری طور پر بجلی کے مکمل بحالی نہ کی گئی تو آنے والے وقت میں لوگ احتجاج کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ موصوف نے حالیہ کونسل میں اس بات پر زور دیا کہ محکمہ ابھی تک جن علاقوں میں مکمل بجلی کی فراہمی کا بندوبست نہ کر پایا ان علاقوں میں فوری طور بجلی کا معقول انتظام کیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں جب ہم نے محکمہ کے اسسٹنٹ الیکڑیکل انجینیر ٹھاٹھری مہراج سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان مقامات کی فہرست بنائی گئی ہے جہاں ابھی تک بجلی کا معقول انتظام نہیں کیا گیا ہے۔آنے والے وقت میں ان علاقہ کے لیے بجلی اور تار سیکشن ہوچکی ہیں صرف ٹنڈرینگ کا کام باقی ہے۔ ان کے علاوہ جب ہم نے محکمہ کے ایگز یکٹوانجینیرکشتوار، الطاف حسین سے بات کی تو انہوں نے بھی یقین دہانی کرائی کہ آنے والے کچھ ہفتوں میں بجلی کی تار اور جہاں جہاں لکڑی کے کھمبے لگےہوئے ہیں ان تمام کو تبدیل کر کے لوہے کے کھمبوں کا انتظام کیا جائے گا۔جس کو لے کر انتظامیہ نے کافی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں ٹھیکداروں سے بات بھی کی جا رہی ہے۔ آنے والے وقت میں علاقہ کے لوگوں کو راحت فراہم کرنے کا کام شروع کیا جائے گا۔بہرحال مقامی لوگوں کے پاس محکمہ کی یقین دہانی پر یقین کرنے کے علاوہ اور کوئی متبادل بھی نہیں ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا کہ آزادی کے 75سال بعد بھی ملک کے ان دور دراز پہاڑی علاقوں میں بجلی کا بہتر نظام ممکن کیوں نہیں ہو سکا ہے؟(چرخہ فیچرس)
