جموں کشمیر انتظامی کونسل نے ایس او 192 کو منسوخ کرکے ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو راحت فراہم کی ۔ یوم آزادی سے ایک دن پہلے ایل جی کی صدارت میں منعقد ہوئے کونسل کے اجلاس میں اس حوالے سے فیصلہ لیا گیا ۔ کونسل کے اس فیصلے سے کہا جاتا ہے کہ یونین ٹیریٹری میں کام کررہے تمام ملازموں کو تنخواہ اور دوسری الائونس یکسان صورت میں ملیں گی ۔ اس سے پہلے نئی بھرتی ہونے والے ملازموں کو دو سال کے لئے ایک مقررہ رقم ہی بطور تنخواہ ادا کی جاتی تھی ۔ پہلے یہ مدت کار پانچ سال تھی ۔ بعد میں سرکار نے اس کو دو سال کردیا ۔ اب یہ دو سال کی قدغن بھی ختم کی گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ اس قدغن کو پوری طرح سے ہٹایا جائے تاکہ ملازمین کو یکسان تنخواہ اسکیل میں لایا جائے ۔ اس فیصلے کی سراہانا کرتے ہوئے سرکاری ملازمین کو دی گئی راحت پر خوشی کا اظہار کیا ہے ۔
یو ٹی کی انتظامی کونسل نے پچھلے تین سالوں کے دوران سرکاری ملازمین کو کافی سہولیات فراہم کیں ۔ اس سے ملازمین کو کافی راحت ملنے کے علاوہ خاطر خواہ تنخواہ بھی ملتی ہے ۔ اس کے باوجود سرکاری ملازمین کے حوالے سے شکایت کی جاتی ہے کہ مسائل حل کرنے کے بجائے ضرورت مندوں کو تنگ کرتے ہیں ۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ روزانہ کی بنیادوں پر سرکاری آفیسروں اور ملازموں کو عام شہریوں سے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے ۔ کئی ایک کو گرفتار کرکے جیل بھیجدیا گیا ۔ ایسی عبرتناک صورتحال کے باوجود ملازم رشوت لینے سے باز نہیں آتے ہیں ۔ ہمیں یہ دیکھ کر بڑا ہی افسوس ہوتا ہے کہ ایک دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے آفیسر غریب مزدوروں سے ایک دو ہزار روپے کی رشوت لیتے ہوئے پکڑے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ایڈمنسٹریشن جس دفتر میں بھی اچانک چھاپہ ڈالتی ہے ملازم اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر پائے جاتے ہیں ۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کافی مراعات ملنے کے باوجود سرکاری ملازم ڈیوٹی دینے کو تیار نہیں ہیں ۔ اسکولوں کی حالت ابتر ہے ۔ طلبہ پڑھائی میں بہت پیچھے ہیں ۔ سرکاری اسکولوں کے بجائے نجی تعلیمی اداروں میں پڑھائی کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح ریونیو ڈپارٹمنٹ بڑے ہی عوام دشمن سمجھے جاتے ہیں ۔ ایسے دفاتر میں جانا کوئی پسند نہیں کرتا ۔ عدالتوں سے راحت نہیں بلکہ ڈر اور خوف محسوس کیا جاتا ہے ۔ آر ڈی ڈی محکمہ رشوت کی منڈی کے سوا کچھ نہیں معلوم ہوتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ مجموعی طور سب ملازم چور اور رشوت خور ہیں ۔ کچھ لوگ اب بھی اپنی ڈیوٹی کے پکے اور عوام کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔ تاہم زیادہ تر ملازم غریب عوام کی کھال کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ایسے ملازموں کی دفتر میں کوئی عزت ہے نہ سماج میں پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔ لیکن یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ بار بار رشوت میں ملوث پائے جانے کے باوجود یہ ایسے دیدہ دلیر ہیں کہ رشوت ترک کرنے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری ملازموں کو دی جانے والی مراعات کو لوگ پسند نہیں کرتے ۔ جس کسی کو سرکاری دفتر سے واسطہ پڑتا ہے مایوس ہوکر بیٹھ جاتا ہے ۔ یہ بات شرمندگی کی باعث ہے کہ کسی بھی دفتر کو رشوت سے صاف وپاک نہیں سمجھا جاتا ہے ۔ یہ بلا وجہ نہیں ہے ۔ بلکہ اس کے عیاں اسباب ہیں ۔ اس کے باوجود سرکار انہیں مراعات دینے میں بخل نہیں کرتی ۔ سرکاری ملازم سمجھتے ہیں کہ تنخواہ انہیں سرکار دیتی ہے ۔ کام کرنے کے عوض سائل سے خرچہ وصول کرنا ان کا حق ہے ۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ۔ سرکار کی طرف سے اپنے ملازموں کو مراعات دینا کوئی غلط بات نہیں ۔ لیکن مراعات لے کر عوام کو دھوکہ دینا بہت ہی معیوب بات ہے ۔ اس میں کسی حد تک سرکار بھی قصوروار ہے ۔ ایسے ملازموں کے ساتھ سختی سے پیش آنا ضروری ہے ۔ لیکن سرکار ایسا نہیں کرتی ۔ حال ہی میں معلوم ہوا کہ پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کی بھرتی میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں ۔ سرکار نے اس غرض سے تیار کی گئی لسٹ منسوخ تو کی لیکن ملوث افراد کے خلاف کوئی فوری اور بڑی کاروائی نہیں کی گئی ۔ ان پوسٹوں کے لئے درخواستیں جمع کرانے والے مستحق افراد خوامخواہ کا ظلم کا شکار بن گئے ۔ دھاندلیاں کرنے والوں اور ان کے ہاتھوں منتخب امیدواروں کو سزا دینے کے بجائے وہ امیدوار شکار بن گئے جو ایسی نوکری کے مستحق تھے ۔ کسی کو سزا نہ ملنے کی وجہ سے ہی رشوت ستانی پر قابو پانا ممکن نہیں ہوتا ہے ۔ اس دوران ملازموں کو ایک سے بڑھ کر ایک سہولت فراہم کی جائے تو لوگوں کا مایوس ہونا یقینی ہے ۔ سرکار کو چاہئے کہ ورک کلچر بدلنے کے لئے ملازموں کو مجبور کرے ۔ تاکہ عوام کو بھی راحت مل جائے ۔