تحریر:محمد شہنواز عالم
یہ بات کون جانتا تھا کہ میرؔ فکر و فن کا ایک ایسا ہمالیہ کھڑا کرے گا جس کی بلندی کا اندازہ لگانے کے لئے دستار سنبھالنی ہوگی، جب ہم میر ؔ کی رنگا رنگ شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ میرؔ کی شخصیت شعر و سخن اور شعر و سخن ان کی شخصیت کے پرتو ہیں۔ فکر و فن میرؔ کی شخصیت کی ایک ایسی اکائی ہے جن کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ شاعری کے سانچوں میں خود کو ڈھالنے کا فن نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، یعنی اس عمل کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لئے زندگی کے کئی امور سے صرفِ نظر کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا میرؔ نے فکر و فن میں جو حسنِ توازن قائم کیا ہے اس بنا پر ان کی تخلیقات ایک اکائی کے طور پر ہی نہیں بلکہ فرائضِ حیات سے بحسن و خوبی عہدہ بر ہونے والے انسان کی حیثیت سے بھی قابل رشک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ کو مسلم الثبوت استاد اور بادشاہ غزل تسلیم کیا گیا۔ در اصل ان کی شاعری زندگی کے تلخ حقائق کی ایک داستان ہے، چھوٹی چھوٹی بحروں میں بڑے بڑے مضامین کو قلم بند کرنا میرؔ کا ایک نمایاں انداز ہے۔ ان کے کلام کی سب سے اہم خوبی سادگی، سلاست اور صداقت ہے۔ میرؔ نے اپنے کلام کے متعلق جو پیش گوئی کی تھی وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اشعار ملاحظہ ہوں۔
جانے کا نہیں شور سخن کا میرے ہرگز
تاحشر جہاں میں میرا دیوان رہے گا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا
پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سر دھنیئے گا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اس فن میں کوئی بے تہ کیا ہو میرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر میری یہ زباں ہے
برسوں لگی ہوئی ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میرؔ کی استادی کا
درج بالا اشعار کی روشنی میں ہم اس بات کو پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ میرؔ اپنے کمال کی خوبیوں سے بخوبی واقف تھے اور اپنے کلام کے اوصاف پر نازاں بھی، یہ بات سو فی صد صحیح ہے کہ اردو کے با کمال شاعروں نے بھی انہیں اپنا استاد تسلیم کیاہے
میرؔ کے کلام کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح صاف ہوجاتی ہے کہ میرؔ کو اپنے خیالات کو بہترین انداز میں پیش کرنے کا ہنر آتا ہے اور انہوں نے اپنے اظہار و ابلاغ کے لئے جو اسلوب اپنایا ہے وہ اپنے موضوع اور مواد کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ میرؔ کا جذبہ اظہار کے نئے پیکر میں ڈھل کر مے دو آتشہ بن گیا ہے۔ ان کی شاعری تکلف و تصنع سے پاک، سادگی، خلوص اور صداقت سے مزین ہے۔ میرؔ کی یہی سادگی ان کی شاعری کو بے جا تزئین و آرائش سے بے نیاز کرکے ہمیں ان کی شاعری میں آمد و بر جستگی کا احساس دلاتی ہے۔ اس متعلق کے چند اشعار پیش خامت ہیں۔
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
نازکی اس لب کی کیا کہیئے
پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے
میرؔ سے پوچھا جو ہم عاشق ہو تم
ہوکے کچھ چپکے سے شرمائے بہت
یاد اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
ہر چند میں نے شوق کو پنہاں کیا ولے
اک آدھ حرف پیار کا منھ سے نکل گیا
بے خودی کہاں لے گئی ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
آگے کسی کے کیا کریں دست طمع دراز
وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے
ہم ہوئے تم ہوئے میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
اب کے جنوں میں فاصلہ شایدکچھ نہ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
منقولہ اشعار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میرؔ کا قاری میرؔ کے اشعار کے معنی سمجھنے سے پہلے اس کا اثر قبول کرلیتا ہے یعنی قاری پر شعر کا اثر پہلے پڑتا ہے اور معنی بعد میں کھلتا ہے۔ میرنےؔ اتنے مؤثر انداز سے اپنے خیالات و جذبات کو قاری کے سامنے پیش کیا ہے کہ ان کا تجربہ یکدم اور براہ راست قاری تک پہنچ جاتا ہے۔ انہوں نے بڑی سے بڑی بات بھی ایسی عام فہم زبان میں کی ہے جو اثر انگیز ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ میرؔ کی پوری زندگی آلام و مصائب میں گذری ہے، میرؔ کی خارجی زندگی داخلی زندگی سے مختلف نہ تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری دل اور دلی کامرثیہ کہا گیا ہے۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے دلی کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ آٹھ سو سالہ پرانی تہذیبوں کی بنیادیں متزلزل ہونے لگی تھیں۔ پرانا نظام معاشرت اور تہذیبی قدروں کا شیرازہ بکھرنے لگا تھا۔ میرؔ کی حساس طبیعت کو ان ہی حادثوں نے متاثر کیا تھا۔ چنانچہ میرؔ نے اپنے گرد و پیش کے حالات کو اپنی شخصیت کا جزو بناکر غزل کی صورت میں سماج کو لوٹا دیا۔ جس کا احساس ہمیں ان کی غزلوں کے مطالعے سے ہوتا ہے یعنی میرؔ نے اپنی غزلوں میں اجتماعی اور انفرادی شعور کو اس ڈھنگ سے سمولیا ہے کہ ذات اور کائنات کا فرق باقی نہیں رہتا ہے۔
میرؔ کی شاعری میں انسانی قدریں اور حزنیہ لہجے میں بغاوت کی چنگاریاں موجود ہیں۔ وہ غموں کے سامنے سپر انداز ہونے اور شکست خوردہ انسان کی طرح راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے غموں سے نباہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کیوں کہ زندگی میں غم و خوشی اتنی اہمیت کے حامل نہیں ہیں جتنی یہ بات کہ انسان اپنے عمل اور جد و جہد سے ایسے نقوش چھوڑ جائے جو تا قیامت مٹائے نہ مٹے۔ دیکھئے اس ضمن میں میرؔ کیا کہتے ہیں۔
بارے دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
کلیات میرؔ کی ورق گردانی سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ ان کے ہاں اخلاقی اور حکیمانہ اشعار کی کوئی کمی نہیں ہے، وہ اہم سے اہم نکات اور بلند سے بلندترین مضامین کو اس بے تکلفی سے بیان کرجاتے ہیں کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ میرؔ اپنی بالغ النظری کے ساتھ ایسے انسان کا تصور رکھتا ہے جو نفرت، تعصب اور انسانوں کے درمیان تفریق کی دیواریں کھڑی نہیں کرتا، کیوں کہ رنگ و نسل، زبان اور مذہب شخصی اور ذاتی شئے ہے یعنی عقیدہ کسی کا کچھ بھی ہو دنیاکے تمام انسان ایک ہیں اشعار دیکھئے۔
جائے ہے جی نجات کے غم میں
ایسی جنت گئی جہنم میں
جو ہے سو میرؔ اس کو میرا خدا کہے ہے
کیا خاک نسبت اس سے ہر فرد کو جدا ہے
ہم مذہبوں میں صرف کرم سے ہے گفتگو
مذکور و ذکر یاں نہیں صوم و صلٰوۃ کا
یہ بھی طرفہ ماجرا ہے کہ اسی کو چاہتا ہوں
مجھے چاہیے ہے جس سے بہت احتراز کرنا
وصل و ہجراں سے جو دو منزل ہیں راہ عشق کی
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا
کل پانوں ایک کاسہئ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخواں شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سر پر غرور تھا
میرؔ کے نظریۂ حیات اور فن میں ایک معیاری سنجیدگی اور ندرت ہے ان کے اشعار وجد کرنے پر کم اور اپنی داخلیت کی تفہیم پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ میرؔ نے اپنی فرح ناکی کے باعث ایسی بہت سے باتیں کی ہیں جن کی بنا پر ہم ایک خوش مزاج انسان سے واقف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میرؔ کو پڑھتے وقت ہمیں اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی باتیں قول محال بن کر ذہن کو بصیرت عطا کرتی ہیں۔
میرے خیال کے مطابق میرؔ کی غزلوں کا مطالعہ نا مکمل رہ جائے گا اگران کے عشق حقیقی کی باتیں نہ کی جائیں، کیوں کہ میرؔ کی غزلوں میں عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی بھی نمایاں ہے۔ عاشقانہ جذبات کو انسانی زندگی میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ محبوب حقیقی ہو یا مجازی عاشقانہ فکر و نظر کے دونوں ہی حاصل اور مقصود ہیں۔ اس طرح صوفی ہو یا عاشق دونوں کی زبان اور وسیلۂ اظہار یکساں ہیں۔ تصوف میں عشق ہی سب کچھ ہے۔ تصوف کا مزاج عشق حقیقی سے عبارت ہے۔ عشق حقیقی سے تصوف کا خمیر اٹھتا ہے گویہ کہ نگاہِ عشق و محبت کی معراج کا دوسرا نام تصوف ہے۔ میرؔ کی طبیعت میں قناعت پذیری، درد مندی، خودداری، صبر و رضا اور غموں سے نباہ کرنے کی صلاحیت اسی تصوف کی دین ہے۔ میرؔ کے تصوف کے اشعار دیکھیں۔
تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور پھرا ہے عشق
ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق
عشق ہے باطن اس کا ظاہر کا، ظاہر باطن عشق ہے سب
اودھر عشق ہے عالم بالا، ایدھر کو دنیا ہے عشق
آدم کی خاکی سے عالم کو جلا ہے ورنہ
آئینہ تھا یہ، ولے قابل دیدار نہ تھا
عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو
سارے عالم میں پھر رہا ہے عشق
کون مقصد کو عشق میں پہونچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
میرؔ کا تصوف ہمیں گوشہ نشینی کے بجائے اخلاقی، عمرانی، مابعدالطبیعاتی اور نفسیاتی مسائل سے روشناس کراتا ہے، جب ہم میرؔ سے قریب ہوتے ہیں تو ہم زندگی کے بہت سے ایسے مسائل سے واقف ہوتے ہیں جو خود ہماری زندگی کے معلوم ہوتے ہیں اور ہم پر یہ راز کھلتا ہے کہ میرؔ کے مسائل نہ صرف میرؔ کے تھے بلکہ وہ مسائل ہمارے بھی تھے۔ غرض یہ کہ میرؔ کی یہی عمومیت آفاقیت میں اس وقت تبدیل ہوجاتی ہے جب وہ انسانیت کے اعلیٰ و ارفع قدروں کو اپنی روح میں جذب کرلیتے ہیں۔ جن کی بنیاد سوزوگداز، دردمندی، محبت اور بلند ظرفی پر قائم ہے۔ اس جانب اشارہ کرتے ہوئے جمیل جالبی رقمطراز ہیں۔
”میرؔ نے اپنی تخلیقی قوتوں سے زندگی کا رس نچوڑ کر اسے اپنی شاعری کے کوزے میں بند کردیا ہے۔ جب تک زندگی باقی ہے میرؔ کی شاعری بھی باقی رہے گی آنے والے زمانوں میں شاعری اپنا چولا بدلے گی جیسا کہ میرؔ کے زمانے سے اب تک بدلتی رہی ہے لیکن میرؔ کی مشعل اسی طرح روشن رہے گی جیسی اب تک روشن رہی ہے۔“ ۴؎
میرؔ کے اشعار کی اثر آفرینی میٹھی چبھن کے ساتھ ہی ساتھ پرکشش بھی ہے کیوں کہ میرؔ کے جذبات عشق کی آگ میں تپ کر کندن بنے ہیں۔ اسی لئے وہ دائمی چمک دمک رکھتے ہیں۔ جن سے دلوں کو روشنی اور حرارت ملتی ہے، میرؔ کے جذبات حقیقت سے لبریزاور تصنع سے پاک ہیں۔ میرؔ نے اپنے ان ہی احساسات، خیالات اور جذبات کو عام بول چال کی زبان میں اس انداز سے پیش کیا ہے کہ شاعری کا رشتہ براہ راست سارے معاشرے سے جڑگیا اور پھر اسی عام بول چال کی زبان کو میرؔ نے تخلیقی شعور کی بھٹی میں پکا کر ایسا نکھارا کہ اس کی قوتِ اظہار دوبالا ہوگئی، یعنی میر نے متدادل جذبات و احساسات کو بول چال کی زبان میں ایسا سمویا کہ شاعری اور زبان دونوں کے سامنے نئے نئے امکانات کے دروازے کھلنے لگے۔ اس ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی رقمطراز ہیں۔
”زبان کے جتنے رنگ ممکن ہیں، میرؔ نے ان سب کو استعمال کیا اور بڑی کامیابی سے استعمال کیا۔ پوری اردو کا کوئی شاعر اگر ہمارے یہاں ہے تو میرؔ ہیں جس طرح شیکسپیئر نے انگریزی زبان کے روزمرہ سے لیکر فلسفیانہ اور مفکرانہ رنگ تک ہر طرح کی زبان کے جلوے اپنے ڈراموں اور نظموں میں دکھادیئے اور زبان کو جتنا لچک دار بنانا ممکن تھا اس حد تک اسے لچک دار بھی بناکر دکھا دیا۔ اسی طرح میرؔ نے اردو کے پورے امکانات کو برت کر دکھادیا۔“ ۵؎
مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ میرؔ اردو کا ایسا شاعر ہے جس کی عظمت کا اعتراف ہر خاص و عام نے کیا ہے، میرؔ کے کلام میں اتنی تازگی و شگفتگی ہے کہ آنے والی نسلیں بھی ان کی عظمت کا اعتراف کریں گی اور ہم سے کچھ زیادہ کریں گی۔