
دعا اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان ہر حال میں دعا کا محتاج ہے۔ کیونکہ دعا عبادت کا مغز ہے اور دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے لہذا بندہ مومن کو چاہیے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ سے دعا مانگے اور اللہ سے دعا مانگتا رہے کیونکہ وہ ایسا کریم ہے کہ مانگنے والے سے خوش ہوتا ہے اور جو اس سے سوال نہیں کرتا وہ اس سے ناراض ہوتا ہے ۔
اسلام میں دعا کی بہت بڑی فضیلت واہمیت آئی ہے، لیکن عام طور پر لوگ دعا کی حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں جہر کے ساتھ اجتمای طور پر لمبی لمبی دعائیں ضرور پڑھی جاتی ہیں اور بڑے بڑے اجتماعات اور جلسوں میں بھی کثرت دعاکی گونج سنائی دیتی ہے، مگر قبولیت نام کی کوئی چیز نظرنہیں آتی ۔دعاکے آداب کیا ہیں اور اس کی قبولیت کی شرائط کیا ہیں ؟ ان باتوں کو جاننے سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف الفاظ کی رٹ لگانے کودعاسمجھتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام دعائیں اللہ کے نزدیک شرف قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیں اور بے اثراوربے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں ۔قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی انہی لوگوں کی دعاؤں کوقبول کرتاہے اور بن مانگے بھی دیتا ہے، جواس کے احکام پرپابندی سے عمل کرتے ہیں اور اس کی آخری کتاب قرآن کو پڑھتے ہیں اور اس کی آیات پر غور و فکرکرتے ہیں ، اگرایسے لوگوں کو دعامانگنے کا موقع نہ بھی مل پائے، تب بھی اللہ تعالی ان کو دعامانگنے والوں سے بھی زیادہ دیتاہے۔اس سلسلہ میں ایک حدیث اس طرح آئی ہے
۔حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے جوشخص قرآن میں اس قدرمشغول ہوجائے کہ وہ میری یاد کے لئے الگ سے وقت نہ نکال سکے اور مجھ سے اپنی حاجت نہ طلب کرسکے تو میں مانگنے والوں کو جتنادیتا ہوں اس سے زیادہ اس کودوں گا۔دنیاوآخرت کی کوئی طلب ایسی نہیں ہے، جوایک بندہ مؤمن اللہ سے طلب کرسکتا ہے اور قرآن میں اس کاذکر نہ ہو ، بلکہ وہ انسان کے جذبات و احساسات کی پوری تسکین پاتا ہے اور اس کا وجود سراپادعابن جاتاہے۔ ایساآدمی خواہ اپنی کوئی ضرورت الگ سے طلب کرے یا نہ کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی سے اس کے فضل کے ذریعہ مانگو،کیونکہ اللہ اس بات کوپسند کرتا ہے کہ اس سے مانگاجائے اوربہترین عبادت کشاد گی کا انتظارکرناہے۔
میری مشکل اس دنیا میں نہ آساں کرسکا کوئی
مصیبت میں جو کام آیا مر ا پروردگار آیا
حضرت ابراھیم بن ادہم کے پاس کچھ لوگ آئے اور ان سے سوال کیا ،اے ہمارے امام ۔۔! کیا بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن وہ قبول نہیں ہوتی،انہوں نے جواب دیا:
تم اللہ تعالیٰ کو پہچانتے ہو لیکن اس کے احکام پر عمل نہیں کرتے،تم رسولﷺکی محبت کے دعوے کرتے ہو لیکن اس کی سنتوں کو تم نے ترک کردیا ہے ،تم شیطان کو دشمن قرار دیتے ہو لیکن اس کی پیروی کرتے ہو،تمہیں جنت کا علم ہے لیکن اس کے حصول کی کوشش نہیں کرتے، تمہیں جہنم کی ہولناکیوں کا ادراک ہے لیکن اپنے آپ کو اس کی طرف دھکیل تے جا رہے ہو،تم لوگ مانتے ہو کہ موت کا آنا یقینی ہے ،لیکن اس کے لئے تیاری نہیں کرتے،تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہو لیکن اس کا شکر ادا نہیں کرتے…پھر تمہاری دعا کیسے قبول ہو!!
ذرہ توجہ فرمائیں یہ صورتحال قدیم عہد کی ہے جب لوگ بنسبت ہمارے ایمان و امانت میں کئی گنا زیادہ تھے،ان کی صداقت کی مثالیں دی جاتی تھیں لیکن باوجود اس کے ان کو دعا کی عدم قبولیت کی شکایت تھی،لہٰذا وہ اپنی شکایت لئے اس وقت کے ایک بزرگ کے پاس جمع ہوتے ہیں اورعرض کرتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی ،کیا کریں؟
بزرگ فرماتے ہیں : اے لوگو۔۔۔!دعا کی قبولیت کے تو کچھ شرائط ہیں اگر وہ پورے ہونگے تو دعا بھی قبول ہوگی بصورت دیگر دعا کی قبولیت کی بھی کوئی سبیل نہیں احکام خداوندی اور سنت رسولﷺ پر عمل ،شیطان کو دشمن جانتے ہوئے اس سے دوری،اللہ کا شکر ،موت سے عبرت حاصل کرنا،جنت کے حصول کی کوشش اور جہنم سے بچائو کا سامان کرنا،اب خود ہی اپنے نفس کا حکم مکمل کرلو وہ تمہیں خود بتائے گا کہ یہ خصوصیتیں تمہارےاندر ہیں یا نہیں اگر جواب نفی میں ہو تو اپنےرب کے حضور سجدہ ریز ہوکر گڑگڑاؤ ،توبہ کروپھر تم خودبخود اس کا نتیجہ دعائوں کی قبولیت کی صورت میں اپنے سامنے پائوگے،کیونکہ میرے رب کی رحمت بہت وسیع ہے۔
لہٰذا اس دور کے لوگوں کو خصوصاً اس بات کی فکر کرنی چایئے کہ اللہ تعالیٰ کے در پر دستک دیں،منکرات سےاجتناب کریں اخلاص صداقت و دیانت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں تاکہ دعا بھی قبول ہو اور ایمان بھی مضبوط ہو،لیکن افسوس تب ہوتا ہے جب ہم ایمان کے دامن کو ترک کر بیٹھتے ہیںاور اللہ سے صرف نظر کرکے پیروں اور مزاروں کی اتباع میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں ۔
اللہ کے بجائے ان سے دعائیں مانگنا شروع کردیتے ہیں اگر دعا نہیں تو ان کو وسیلہ ضرور بناتے ہیں ، چناچہ اللہ فرماتے ہیں، ترجمہ:ـــ “جب آپ سے میرے متعلق میرے بندے پوچھیں تو انہیں بتادیں کہ میں ان سے قریب ہوں ،دعا مانگنے والا جب مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتاہوں،پھر مجھ ہی کو مانیں اور مجھ ہی پر ایمان لائیں۔”
بہر کیف ہمیں اس آیت کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ ہی سے دعا مانگنی چاہئے کیونکہ وہ ہمارے نہایت قریب ہے اور اس ہی پر ایمان رکھنا چاہئے، کیونکہ اس ہی میں ہماری ہدایت و فلاح مضمر ہےاور ساتھ ساتھ ہمیں رسولﷺ کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا، کیونکہ فرمان رسولﷺ ہے “جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی”پس معلوم ہوا کہ دعائوں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری شرط ہے۔
لہذا ہمیں رجوع الی اللہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوں اور ہماری دعائیں بھی اس کی بارگاہ میں مقبول ٹھہریں ،اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
