تحریر:جی ایم بٹ
نشہ مکت بھارت کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ ملک کے اکابر اس بات پر پریشان ہیں کہ آبادی کا بڑا حصہ خاص کر نوجوان تیزی سے منشیات کی زد میں آرہے ہیں ۔ اس سے نہ صرف انسان کی صحت تباہ ہوتی ہے ۔ بلکہ سماج کا باصلاحیت طبقہ بے کار بن جاتا ہے ۔ منشیات کے پھیلائو کی وجہ سے سماج کا ذہین طبقہ اپنی ذہانت اور قابلیت سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ ایسا ہوجائے تو ترقی کے راستے بھی بند ہوجاتے ہیں ۔ اس کے اثرات آئندہ نسلوں پر پڑتے ہیں ۔ آج نوجوان ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں تو ظاہر سی بات ہے کہ معاشرہ ترقی سے محروم ہوجائے گا ۔ اس دوران دوسری قومیں آگے بڑھ جائیں گی اور منشیات زدہ معاشرہ پیچھے رہ جائے گا ۔ ترقی کی یہ منزل جو ایسے معاشرے سے چھوٹ جائے گی اس کی بازیافت پھر ممکن نہیں رتی ہے ۔ منشیات کی وجہ سے معاشرے کھوکھلے ہوکر رہ جاتے ہیں ۔ ان کے اندر شرافت کا کوئی نام و نشان نہیں رہتا ہے ۔ دیانت دوردور نظر نہیں آتی ہے ۔ شرم و حیاہ کا جنازہ نکل جاتا ہے ۔ عزت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے ۔ ایسے معاشرے وقار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ اصول و ضوابط اور قانون کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں ۔ ایسے معاشرے کے اندر زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ معاشرے ایسی تباہی کو قبول نہیں کرتے ہیں ۔ اس کے خلاف صف آرا ہوجاتے ہیں ۔ نشہ کو جڑ سے مٹانے کے لئے اکٹھے ہوجاتے ہیں اور اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے مہم چلاتے ہیں ۔ نشہ مکت بھارت اسی کا ایک پہلو ہے ۔
اسلام نے جس معاشرے کے اندر اپنی مہم کا آغاز کیا وہاں منشیات زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا تھا ۔ اسلام نے شراب کو سماجی زندگی سے بے دخل کرنے کے لئے انسان دوست مہم چلائی ۔ آناَ فاناَ اس پر پابندی نہیں لگائی ۔ بلکہ پہلے اپنے ماننے والوں کے اندر ایمان کو راسخ کیا تاکہ انہیں جو بھی حکم دیا جائے وہ اس کو بلا چون وچرا قبول کریں ۔ یہاں تک کہ انہیں اسلام کے لئے جان لٹانے کے لئے بھی کہا جائے تو اس کے لئے تیار ہوجائیں ۔ جب یہ اوصاف مومنوں کے اندر پیدا ہوئے تو انہیں سماجی برائیوں سے دو ر ہونے کو کہا گیا ۔ بہت سے صحابہ ایسے بھی تھے جنہوں نے شراب حرام ہونے کے الٰہی حکم سے پہلے اس سے دور رہنا شروع کیا تھا ۔ یہاں تک کہ اللہ نے پہلے نشے کی حالت نماز کے نزدیک آنے سے منع کیا ۔ یہ پہلا اشارہ تھا کہ خود کو شراب کی حرمت کے لئے تیار رکھو ۔ آج یا کل اس کو حرام ہونا ہی ہے ۔ مسلمانو ایک ایسا سماج بننے والا ہے جہاں سود حرام ہوگا ۔ جہاں تجارت میں دھوکہ دہی حرام ہوگی ۔ جہاں ناجائز منافع خوری حرام ہوگی ۔ جہاں مردہ جانور کھانا حرام ہوگا ۔ جہاں جوے پر پابندی ہوگی ۔ جہاں شراب کو ملک بدر کرنا ہوگا ۔ سماج کو نشہ مکت بنانا ہوگا ۔ اسلام نے شراب کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے ۔ جس سماج کے اندر شراب عام ہو وہاں ماں بہن کی عزت محفوظ نہیں ۔ وہاں دیانت کا کوئی شائبہ نہیں ۔ وہاں اصول وضوابط کا نام و نشان نہیں ہوگا ۔ اسی وجہ سے اسلام نے منشیات کے استعمال اور پھیلائو کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ نشے کی ایک بار لت پڑجائے تو اس کو پھر چوٹنا بہت مشکل ہے ۔ یہ بہت بڑی برائی ہے جو کسی سماج کے اندر داخل ہوجائے تو اس سے نجات پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔ جموں کشمیر میں یہ ایک وسیع تجارت بن گیا ہے ۔ کئی لاکھ افراد اس کی زد میں آگئے ہیں ۔ بہت سے نوجوان اس کے استعمال سے موت کا شکار ہوگئے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کو اس سے بچانے کے لئے فکر مند نہیں ۔ کئی خاندان اس سے منتشر ہوگئے ۔ کئی افراد اس وجہ سے جیلوں میں بند پڑے ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہئے تھا کہ اس کے خلاف مہم چلائیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مولویوں کو کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ یہ محض ثواب کا کام ہے ۔ مولویوں کو خالی ثواب سے کوئی غرض نہیں ۔ انہیں اپنی دھن دولت کی فکر ہے ۔ جس طرح نوجوانوں پر نشے کا بھوت سوار ہوچکا ہے ۔ مولوی دولت کے پیچھے پڑے ہیں ۔ پہلے انہیں معلوم نہیں تھا کہ دولت بنانے سے کس قدر عیش و مسرتیں مہیا ہوجاتی ہیں ۔ انہیں اگلی دنیا میں جنت کی فکر لگی ہوئی تھی ۔ کسی طریقے سے انہیں پتہ چلا کہ اس دنیا میں بھی جنت کے مزے لئے جاسکتے ہیں ۔ اب وہ اس جنت سے نکلنے کو تیار نہیں ۔ وہ لوگوں کو دو دو ہاتھ لوٹ رہے ہیں ۔ لوگوں سے جنس اور نقد دونوں طرح کا مال لے رہے ہیں ۔ لوگوں کی کمائی حلال کی ہے یا حرام کی ۔ مولویوں کو اپنے حصے سے غرض ہے ۔ بلکہ حرام کی کمائی والے انہیں زیادہ عیش کراتے ہیں ۔ ان کے ذریعے سے انہیں حج اور عمرے کے لئے مفت ٹکٹ مل جاتے ہیں ۔ سیر و تفریح کے مواقع فراہم ہوجاتے ہیں ۔ اس وجہ سے مولوی منشیات کے خلاف کوئی مہم چلائیں بہت مشکل ہے ۔ یہ لوگ اپنی آمدنی کو کم ہونے دیں ممکن نہیں ۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے مولویوں سے جنت کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے انہیں مال وزر سے نوازتے ہیں ۔ پھر کون کم عقل ہے جو اپنے پائو ں پر خود ہی کلہاڑی مارے گا ۔ ان حقایق کو دیکھ کر سماج کے باشعور طبقے کو متحرک ہوکر منشیات کے خلاف مہم چلانا ہوگی اور نشہ مکت سماج فراہم کرنے کی فکر کرنا ہوگی ۔ یہی وقت کی ضرورت ہے ۔
