تحریر:سہیل سالم
ریاست جموں کشمیرمیں اردو کے بیشتر شعرا ء وادباء نے اپنے احساسات و جذبات کو صفحہ قرطاس پر اتارنے کے لئے اردو زبان ہی کو اپنا وسیلہ بنایا اور ان کی شاعری اور فکشن ریاست اور بیرون ریاست کے مختلف رسالوں میں چھپنے لگے۔دبستان کشمیر کے فکشن نگارو ںنے انقلابیت ،وطنیت،اخوت،جارجیت،اور انسانیت کے ساتھ ساتھ ملکی اور انسانی اقدار کی پامالی اور بے حرمتی کے دلدوز واقعات کی عکاسی کی ہیں۔اردو افسانہ ریاست میں کسی بھی جمود وتعطل کا شکار نہیں ۔یہاں کے افسانہ نگار اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔جن میں جناب محمد مقبول و کیل بھی رواں داوں نظر آتے ہیں۔
’’اشیانہ مقبول ‘‘جناب محمد مقبول و کیل کی پہلی تصنیف ہیں جو کہ ان کی اہلیہ نے مرتب کر کے منصہہ شہود پر لائی ۔ اشیانہ مقبول جوکہ۲۱ افسانوںپر مشتمل ہے۔زیرہ تبصرہ کتاب کا پہلا افسانہ’’اجنبی راہوں کے اجنبی مسافر ‘‘جس میںزندگی کے ایک خاص سفر کو کہانی کا روپ دیا گیا ہے۔ انسانی زندگی کو اگر ایک نئے زوایے اور منفرد طریقے سے دیکھنا ہو تو ،ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرنا ضروری ہے۔اسے ایک انسان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ دوران سفر موصول ہوئے تجربات ،مشاہدات اورمعلومات سے وہ دوسروں کے کام آسکتا ہے۔ اس افسانے میں عائشہ اور یوسف اپنے خوابوں کو رنگ بھرنے کیلئے زندگی کی خاردار راہوںکا سفر طے کر کے آخر کار ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں۔افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:’’عائشہ جب رخصت ہوئی اس کو الفاظ ہی نہیں مل رہے تھے وہ الوداع بھی پوری طرح سے نہ کر سکی۔تیز تیز قدموں سے اس طرح چل رہی تھی کہ اپنے سائے کے نقوش مٹارہی تھی ۔پیچھے کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔بس چلتی گئی تھوڑی دیر کا ساتھ بہت سی قصہ کہانیوں کو جنم دیتاہے۔ اور پر سکون خاموش سمندر میں ہیجان اور طلاطم کا عالم بپا کرتا ہے۔ہمیشہ کے لئے یاد گار بن جاتے ہیں ان یادوں اور کہانیوں کے کردار۔نہ مٹنے والے نقوش ہمیشہ کے لئے اپنا عکس چھوڑتے ہوئے وسیع وعریض سمندر میں گم ہوجاتے ہیں۔‘‘(آشیانہ مقبول۔۔ص۔۔50)
مجموعے کا ایک اور افسانہ ’’آخر کو میں مجبور ہوئی‘‘ہے جس میں والدین کے تئیں بچوں کے حقوق کی عکا سی کی گئی ہے۔حالانکہ والدین اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کرنے اور انھیں تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔چناچہ ماں باپ اپنے بچوں کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے لئے کئی مصیبتوں کا سامنے کرتے ہیںبقول محمد مقبول وکیل :’’خیر شاہدہ بی بی چپ چاپ زمانے کے زخم سہتی رہی اور بھر پور مقابلہ کرتی رہی ۔جو کچھ پنشن کی رقم آتی تھی اسی سے گرز بسر کر کے بچوں کو پروان چڑھاتی گئی۔۔۔تن تنہا زندگی کی کشتی کو کنارے کی اور لے جانے کی کوشش میں زندگی بھر وہ بر سر پیکار رہی کیونکہ یہ تو اس کی زندگی کا مقصد اولین تھا‘‘(آشیانہ مقبول ۔۔ص۔67 ) ۔ جہان تک میں سمجھتا ہوںاس مجموعے کا سب سے اہم افسانہ ب’’شاہین نے آشیاسہ بدل دیا‘‘ ہے جو کہ مجمو عے کا سب سے مختصر افسانہ بھی ہے۔یہ ایک علامتی کہانی ہے جس میں جنت بے نظیر کی پاکیزگی کو سیاست کے گندے پانی سے آلودہ ہوتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔انسا ن نے جب جنت بے نظیر میں شاہین کے پروں کو کاٹنے کی کوشش کی تو کسی بھی پرندے نے آواز نہیں اٹھائی اور اس طرح جنت بے نظیر کا نقشہ ہی بدل گیا۔افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ فر مائیں:’’یہ خبر جنہوں نے سنی وہ کہنے لگے کیا وہاں اس باغ میں شاہین نہیں تھا جو انہوں نے اپنے آپ کو باز کے حوالے کیا تو پہاڑوں کی چٹانوں سے آواز آئی شاہین نے تو وہاں سے اپنا آشیانہ بدل دیا ہے‘‘(آشیانہ مقبول۔۔ص۔۔86 )
افسانہ ’’لالہ صاحب کی حویلی‘‘ میں مسلم معاشرے کی تہدیب و ثقافت بڑی فنکارنہ مہارت سے پیش کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا افسانوں کے علاوہ اور راستہ لمبا ہوگیا،وطن کے چار یار،سراب ،نانی اماں،اور ایک معصوم کلی مر جھا گئی، میں جو آپ کے ساتھ ہوں،وہ نئی صبح تو آئی گی ،وطن عزیز سے شکوہ،دل کے زخم پھر ہرے ہوئے،ماسٹر رمضان ریشی اور چراغ بجھتے گئے یہ تمام افسانے اس کتاب میں شامل ہے۔جو مختلف موضوعات پر مشتمل ہیں ۔جن میں سماجی ،سیاسی،مذہبی ،منفی اور مثبت رخ،انسانی اور غیر انسانی رشتے کو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ مقبول وکیل نے اجاگر کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔
مقبول وکیل نے معاشرے میں پھیلی برائیوں ،گھریلویں زندگی کے واقعات ، رشتوں کی افادیت ،بچوں کی نفسیات ،شہری زندگی کا رکھ رکھائو ،معاشرے کے بدنما چہرے اور سیاست دانوں کی غلاظت سے اپنے بیانیہ کو وقاور عطا کیا ہے۔
اس کے علاوہ مقبول وکیل کے دیگر افسانے بھی زندگی کے نشیب وفراز اور عصر حاضر میں تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی ،سیاسی،اقتصادی، اور اخلاقی اقدار کو سمجھنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔مقبول وکیل کو افسانے کے فنی لوازمات پر دسترس ہے۔ان کی خوبی ہے کہ مقامیت پر بھی خاص توجہ دیتے ہیں۔اپنی مٹی کی خوشبو سے سنوارے ہوئے کرداروں کی تشکیل میں بھی ان کی سلیقہ مندی ،افسانے کو باوقار بناتی ہے۔پلاٹ کی سطح پر قصے میں نہ صر ف تسلسل قائم ہے بلکہ اس میں کشمکش اور تذبذب کا مادہ بھی موجود ہے۔مکالمے چست اور رواں ہیں،زبان کرداروں کے تہذیبی اور سماجی پس منظر نیز ان کے سماجی مقام ومرتبے کے مطابق ہے۔ان کے اسلوب میں روانی ،تازگی اور شگفتگی ہے ۔کتاب کے پہلے دس صفحے تین پیش لفطوں اور ایک نظم پر مبنی ہے لیکن سب اہم پیش لفظ وہ جو مرحوم کی اہلیہ نے رقم کیا ہے۔
مجموعی طور پر 0 25 صفحات پر مشتمل یہ افسانوں مجموعہ دبستان کشمیر میں افسانے کے فن کے تعلق کو سمجھنے میں اہمیت رکھتی ہے۔کتاب کی طبات بہت دیدہ زیب ہے۔چھپائی اور کاغذ بہت عمدہ استعمال کیے گئے ہیں۔ کتاب میں پروف کی ایک دو غلطیاں موجود ہیںجن کو کتاب کے دوسرے ایڈشن میں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔امید ہے کہ مقبول وکیل کی یہ کتاب ریاست اور بیرون ریاست کے ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوگی اور قارئین اسے دادوتحسین سے نوازیں گے۔
