
انسان کو اللہ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے اور اللہ کے قوانین کی پیروی کر کے یہ ثابت کرے کہ اس کی زندگی صرف اور صرف اللہ ہی کے تابع ہوکر ہی گذر رہی ہے۔ دنیا میں انسان کو رہ کر اللہ کی بندگی کر کے اُخروی زندگی کے حوالے سے اعمال صالح کو انجام دینا ہے اور اعمال صالح کرنے کے طریقے حضور پر نورﷺ نے جیسے بتائے ہیں انھیں کو عملا کراور اپنا کر اس کو یہ کارعظیم انجام دینا ہوگا تب ہی انسان اپنے عظیم منصب کے ساتھ انصاف کر سکے گا۔ ایک انسان ہونے کے ناطے انسان کو چاہئے کہ وہ انھیں قوانین کی پایداری کرے جن کی پاسداری سے وہ اپنی حیثیت کو قائم رکھ سکے۔ اس سلسلے میں اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے انبیاء و رسل مبعوث فرما کر انسان کو اپنے مقام سے باخبر کیا ہے اور اس کی رہنمائی بھی فرمائی ہے کہ وہ کیسے اپنے رب کو راضی کر سکے گا اس سلسلے میں اللہ کے نبیوں اور رسولوں نے اپنی ذمّہ داری کو بخوبی انجام دیا ہے اور اس سلسلے کی آخری کڑی آں حضورﷺ کی ذات عظیم ہے کہ آپؐ نے انسان کی فلاح اور کامیابی کے لئے اپنی زندگی کے مقدس ایام میں بے مثال جدوجہد کر کے انسانوں کی رہنمائی کا وہ فریضہ انجام دیا ہے کہ رہتی دنیا اس کو یاد رکھے گی۔ آں حضورﷺ نے کٹھن سے کٹھن مراحل طے کر کے معراج انسانیت کے لئے کام کیا اور گِرتے ہوئے انسان کو اٹھاکر اس کی ڈھارس بندھائی ، اندھیرے میں پھنسے انسان کو روشنی دیکر درست راہ دکھادی۔ عورتوں کو چھینے ہوئے حقوق واپس دے کر نوازا اور ان کو وہ مقام دلوایا کہ عورت نے سماج میں عزت کا مقام حاصل کیاورنہ عورت بے بس اور کمزور نظر آتی تھی، اسکو سماج میں عیب سمجھا جاتا تھااور نام نہاد غیرت کے نام پر اسکو قتل کیا جاتا تھا ۔ پس جب نبی رحمتﷺ تشریف لائے تو آپﷺ نے اسکو وہ درجہ دیا کہ ماں بن کر اسکو یہ خوش خبری دی گئی کہ تیرے قدموں کے نیچے اولاد کے لئے جنت ہے اور بیٹی ہوتے ہوئے تو باپ کے لئے رحمت ہے۔ اور اس طرح بہن ہوکر اسکو اور بھی بنیادی اور جائیز حقوق سے نوازا گیا ۔ اسلام نے انسانوں پر وہ احسانات کئے ہیں جو بے شمار بھی ہیں اور انمول بھی ۔ اللہ کا پورے عالم پر احسان ہے کہ اللہ نے انسانوں کی رہبری و رہنمائی کے لئے آخری بار حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور آپﷺ پر قرآن نازل فرمایا اور آپﷺ کو خاتم النبیین جیسے منصب سے نوازا اور اس امت کو آخری امت قرار دیا۔ آخری امت کی بہت بڑی ذمّہ داریاں ہیں اور ان ذمّہ داریوں میں سب سے بڑی ذمّہ داری یہ ہے کہ اللہ کے بندوں تک اللہ کے دین کی دعوت کو پہنچایا جائے ۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کی مرضی سے باخبر کیا جائے اور ان چیزوں سے بھی باخبر کیا جائے کہ جن سے اللہ کی ناراضگی ہوجائے گی۔ انسان کی قیمتی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اس مختصر سی دنیا میں رہ کر ابدی و دائمی زندگی (آخرت) کے لئے کام کرے تاکہ زندگی کا اصل مقصد حاصل ہوجائے۔ دنیا میں رہ کر انسان کمزوروں اور ناتوانوں کے کام آئے۔ اندھیرے میں اجالا کرے ، راہ میں پڑے کو راہ دکھادے ، لوگوں کی آہِ بد سے خود کو بچائے، بیچاروں اور مفلسوں کی دعائیں حاصل کرے ، علم سے دور لوگوں کو علم کی روشنی سے نوازے، والدین کے حقوق خود بھی ادا کرنے کی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ان کے حقوق سے باخبر کرے، استاد کی قدرکرے، شاگرد سے محبت وانس سے پیش آئے ، اپنے مال میں سے حق داروں کے حقوق ادا کرکے ان تک ان کا حق پہنچائے۔ غرض اعلیٰ اور ارفع اصولوں کی آبیاری کر کے حضرت انسان بننے کی کوشش کرے۔ انسان وہی اچھا ہے جو خود بھی اللہ کی بندگی کرے اور دوسروں کو بھی اس کار خیر پر اُبھارے۔ دنیا میں بہت سے ایسے لوگ دیکھے گئے جنھوں نے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا غلط استعمال کر کے زمین پر فساد پھیلایا اور اللہ کے بندوں کے حقوق پامال کئے اور اللہ کی ناراضگی کے شکار ہوئے ۔ تاریخ ایسے لوگوں کو باغیوں کے نام سے جانتی ہے اور ایسے بھی لوگ گذرے جنھوں نے اللہ کے بندوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے جہد مسلسل کر کے ایسے ان مٹ نقوش چھوڑ دئے کہ دنیا انھیں سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ ایک آدمی اپنی زندگی میں ہی کارخیر انجام دے۔ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: آدمی کا اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ (خیرات) دے دینا اس کے حق میں اس سے بہتر ہے کہ وہ مرتے وقت سو درہم خیرات دے(ابوداؤد) ۔ اس حدیث مبارک میں رسولﷺ امت کے لوگوں کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ زندگی میں عمل صالح انجام دے ، زندگی کی نعمت عظمیٰ کی قدر کرے۔ یہ ایک واضع حقیقت ہے کہ انسان نِراجسم نہیں ہے بلکہ روح بھی ہے۔ روح کے سکون کے لئے اسے غذا کی ضرورت ہے اگر اسے آپ غذا سے محروم کر دیں گے تو وہ بے چین رہے گا اور اس کی بے چینی کے بعد اگر آپ جسم کی پرورش اور دیکھ بال کو کافی سمجھیں گے تو آپ کو سکون اور اطمینان نہیں ملے گا۔ آج انسان اسی دکھوکہ کا شکار ہے ۔وہ روح کی غذا کی طرف سے بالکل بے پرواہ ہے۔ اس کے سامنے صرف جسم ہے اور اس کی لذتیں ،اسی کا نتیجہ ہے کہ اسے چین نصیب نہیں ۔ روح کی غذا کے لئے کیا چیز ضروری ہے ،اسے ہم سب جانتے ہیں۔ انسانی تجربہ بتاتا ہے کہ جب تک انسان نے اپنا تعلق اپنے پیدا کرنے والے سے درست نہیں کیا اس کی روح کو چین نہیں ملا۔ اسی تعلق کے بعد انسان کے اندر وہ اخلاق پیدا ہوئے جن کے بغیر سماجی مسرتیں حاصل نہیں ہوسکتی ہیں۔ اسی تعلق کی وابستگی کے نتیجے میں وہ انسانی صفات پیدا ہوئیںاور نشونما پاتی رہتی ہیں جو ہماری مسرتوں کا سبب بنی ہیں۔ غرض نیکی کا جذبہ دلوں کو زندہ رکھتا ہے اور برائی سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔ اسلئے انسان کو چاہئے کہ وہ ہر وقت اور ہر قدم ذکر خدا جاری رکھے اور استحضار موت بھی۔ انسان کا اس دنیا میں قیام بہت ہی مختصر ہے ۔ دنیا سے کوچ کرنے کے بعد ہی اس کو عالم برزخ کا سامنا کرنا ہوگا اور پھر عالم آخرت کا بھی ۔ اگر اس کے اندرعقیدۂ آخرت راسخ ہوا ہوگا تو وہ ضرور اعمال صالح پر توجہ دے گا اور برائیوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے گا اور اس طرح سے اس کو زندگی کا اصل مقصد بھی حاصل ہوگا جس کے لئے اللہ نے اس کو زندگی دی ہے۔ پس دانا انسان وہ ہے جو ایک تو خود اعمال صالح کرے گا اور ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس پر ابھارے گا۔ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے اس کی مرضی کے مطابق کام لے ۔ اسے یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنی مرضی چلائے ۔ ملک اللہ کا ہے ۔ایسا کرنے سے انسان مقصد زندگی کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے۔ اگر اس کے برعکس اس کا عمل ہوگا تو وہ مقصد زندگی حاصل کرنے میں ناکام رہے گا۔ انسان کی کوشش ہو کہ وہ توفیق ایزدی سے ان احکامات کو عملانے کی کوشش کرے جو اس کو اپنے رب کی طرف سے ہیں ۔ دنیا ایک کشمکش کی جگہ ہے یہاں ہمیشہ حق و باطل کا مقابلہ رہا ہے۔ یہاں ہمیشہ صحیح اور جھوٹ کا مقابلہ رہا ہے۔ اور تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی رہی ہے اور حق کا بول بالا کرنے والے ہی مقصد زندگی کو پا گئے۔ اگر چہ انھیں مشکلات ہی جھیلنے پڑے اور طعنوں اور استہزاؤں کا سامنا کرنا پڑا لیکن پھر بھی یہ لوگ اس شعر کے مصداق بنے چلے کہ
آئین جواں مرداں حق گوئی و بیباکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روبائی
راہ حق میں متاع زیست تک کو قربان کرنے والا ہی مقصد زندگی کو پاتا ہے۔ اسلئے کہ اس میں جذبۂ حق اور خلوص نیت ہوتا ہے ، تاریخ کا غائیر مطالعہ کرتے ہوئے ایسے اولوالعزم لوگ نظر آتے ہیں جنھوں نے مقصد زندگی کو پاکر حیات اخروی کو سنوارا اور اپنے پیچھے وہ نقوش چھوڑدئے جنھیں دیکھ کر صاحب عقل، صاحب علم اور صاحب ایمان آج بھی ان پر رشک کرتے ہیں ۔
بقول شاعر:
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
