مشہور قول ہے کہ “کچھ لوگ پچیس سال کی عمر میں مرجاتے ہیں ،مگر پچھتر سال کی عمر میں دفن کیے جاتے ہیں “۔
(Some people die at the age of 25 but aren’t buried until they are 75.)
یہ قول دو شخصیات کی طرف منسوب ہے، ایک بنجامن فرینکلن (Benjamin Franklin ) اور دوسرے رومین رالینڈ (Romain Rolland)۔
خیر۔۔۔ جس کا بھی ہو ،ہمیں مغز سے غرض ہے نہ کہ چھلکوں سے !
آپ کچھ دیر کیلئے اپنی موجودہ عمر سے دس سال پہلے کی دنیا میں چلے جائیں۔اپنے علم، عمل ،تقوی ،طہارت ،معاملات ، اخلاق ،مزاج ،نفاست ،طبیعت غرض ہر چیز کو ذہن میں تازہ کریں۔صدقِ دل سے اپنی شخصیت کا جائزہ لیجئے ،اگر آپ واقعی اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی محسوس کررہے ہیں کہ آپ کا “آج” ” کل “سے بہتر ہے، تو آپ کو مبارک ہو ۔اسی راستے پہ چلتے جائیں ان شاءاللہ کامیابی آپ کا مقدر ہوگی ۔
اس کے بر خلاف اگر آپ نے محسوس کیا کہ آپ جیسے پہلے تھے ،آج اُس سے بدتر ہیں یا بالکل ویسے ہی ہیں ۔یعنی آج سے دس سال پہلے آپ کے پاس جو علم تھا ،اُس میں ذرّہ برابر بھی اضافہ نہیں ہوا ہے ،بلکہ آپ اُنہی چند علمی ٹکڑوں پر قناعت کرگئے ہیں۔آپ کی ذاتی لائبریری میں جتنی کتابیں موجود تھیں، آج بھی اُتنی ہی ہیں۔
آپ کے عمل میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی ہے ۔آپ دس سال پہلے جھگڑالو قسم کےآدمی تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔آپ کتاب کا ایک صفحہ پڑھنے کو بھی اپنے لیے زہر کا گھونٹ پینے کے مترادف سمجھتے تھے ، آج بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔آپ کی دوستیاں فاسقین کے ساتھ تھیں اور آج بھی ایسا ہی ہے۔آپ کسی نشے کے عادی تھے ، آج بھی سگریٹ،حقہ،چرس وغیرہ آپ کی شخصیت کا جُزولایَنفک ہے ۔آپ ماں باپ کی نافرمانی کیلئے جانے جاتے تھے ،آج بھی ایسا ہی ہے ۔آپ کی نظر آوارہ تھی ،آج بھی ایسا ہی ہے ۔پیسے دیکھ کر لالچ کی وجہ سے آپ کی آنکھیں باہر آتیں تھیں ،آج بھی ایسا ہی ہے۔ لوگوں کی خوبیاں دیکھ کر آپ حاسد کی طرح آگ بگولا ہوتے تھے ، آج بھی ایسا ہی ہے۔دوسروں کو جنت و جہنم کا ٹکٹ بانٹا آپ کی عادت تھی ،آج بھی ایسا ہی ہے۔فضول اور لایعنی بحثوں میں الجھنا آپ کی عادت تھی ،آج بھی یہ” عادتِ شریفانہ “آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجود ہے۔کسی مسئلے پر دوسروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے آپ کے غصّے کا درجۂ حرارت سو کے عدد کو پار کرجاتا تھا ،آج بھی ایسا ہی ہے۔الغرض یہ کہ اگر آپ کا آج کل سے بہتر نہیں ہے تو برا نہ مانئیے گا ،آپ دس سال پہلے ہی مرچکے ہیں۔کیونکہ زندگی نام ہے جہدِ مسلسل کا۔زندگی نام ہے روانی کا ۔زندگی جُمود کا نام نہیں، بلکہ بہاؤ کا نام ہے۔جمود زندگی نہیں بلکہ موت کے مترادف ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگوں کی زندگیاں جمود کا شکار ہیں۔کوئی مجھ سے جمود کا حل پوچھے تو میں درجواب دو لفظ کہوں گا اور وہ ہیں” صحبت اور صالح “،جنکے ملنے سے “صحبتِ صالح ” کا مرکب بنتا ہے۔
۱) قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو،جو صبح و شام اپنے رب کو یاد رکھتے ہیں۔
ترجمہ:
اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں،انک ساتھ خود کو روکے رکھو
(سورۃ الکہف:۲۸)۔
٢) اگر ہم علماء کی صحبت اختیار کریں گے تو ہم خود عالم بن جائیں گے یا طالب علم۔ یا کم از کم علم کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم کو ضرور ملے گا۔یہ بات ہمیں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بخوبی سمجھ میں آئے گی۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ، وَكِيرِ الْحَدَّادِ، لَا يَعْدَمُكَ مِنْ صَاحِبِ الْمِسْكِ، إِمَّا تَشْتَرِيهِ أَوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وَكِيرُ الْحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أَوْ ثَوْبَكَ، أَوْ تَجِدُ مِنْهُ رِيحًا خَبِيثَةً.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال کستوری بیچنے والے عطار اور لوہار کی سی ہے۔ مشک بیچنے والے کے پاس سے تم دو اچھائیوں میں سے ایک نہ ایک ضرور پالو گے۔ یا تو مشک ہی خرید لو گے ورنہ کم از کم اس کی خوشبو تو ضرور ہی پا سکو گے۔ لیکن لوہار کی بھٹی یا تمہارے بدن اور کپڑے کو جھلسا دے گی ورنہ بدبو تو اس سے تم ضرور پالو گے۔
(صحیح بخاری؛۲۱۰۱)
٣) نیک لوگوں کی صحبت سے انکی اچھی عادات ہم ک میں منتقل ہوجائیں گی،بشرطیکہ ہم اپنی اصلاح کیلئے فکرمند اور مخلص ہوں۔
عالموں کی صحبت سے علم ،زاہدوں کی مجالس سے زُہد ،ماسوا سے غنی لوگوں سے غناء،بااخلاق افراد سے اخلاق،قدردانوں سے قدر ،محبت کرنے والوں سے محبت،مہمان نواز لوگوں سے مہمان نوازی ،فن تقریر میں مہارت تامہ رکھنے والوں سے تقریر کا فن ،قلم کے بادشاہوں کی کتابیں پڑھ کر تحریر،عزیمت کی راہ کے راہیوں سے عزم و ہمت ،باحیا لوگوں سے حیا ،پاکیزہ و نفیس افراد سے پاکیزگی اور لیڈروں سے قیادت سیکھی جاتی ہے۔
فقط کتابوں کی ورق گردانی سے بڑے لوگ پیدا نہیں ہوا کرتے ۔ایک عالم اپنے سے بڑے علماء اور ایک لیڈر اپنے سے بڑے قائدین کو پیدا کرتا ہے۔
۴) کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی سے کچھ پوچھنا بھی نہیں ہے اور اپنی جھوٹی عالمانہ شان بھی باقی رکھنی ہے۔ایسے لوگ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔”فأسئلو اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون “کے قرآنی اصول کے تحت اپنا جہل دور کرنے کے لیے ماہرینِ فن سے وقتًا فوقتًا سوالات کے جوابات لینے چاہیے ۔
جب حضرت موسیٰ حضرت خضر سے استفادہ کرسکتے ہیں ،تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہے ؟
ترجمہ:
موسیٰ نے ان سے (جن کا نام خضر تھا) کہا کہ جو علم (خدا کی طرف سے) آپ کو سکھایا گیا ہے اگر آپ اس میں سے مجھے کچھ بھلائی (کی باتیں) سکھائیں تو میں آپ کے ساتھ رہوں
(سورۃ الکہف :٦٦).
۵) آدمی جن لوگوں کے ساتھ دل سے محبت رکھتا ہے ،انہی کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا پسند کرتا ہے ۔یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دل متقیانہ ہو اور صحبت فاسقانہ۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ “اَلرَّجُلُ عَلیٰ دِینِ خَلِیلهٖ فَلیَنظُرْ مَنْ یُّخَالِلُ” یعنی یہ کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔آدمی کو دیکھنا چاہیے کہ اس کی دوستی کس کے ساتھ ہے۔(ریاض الصالحین حدیث نمبر ۳٧٠)
الغرض یہ کہ
“صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند ”
“نیک لوگوں کی صحبت سے نیک بنوگے اور برے لوگوں کی صحبت سے برے ہی بن جاؤگے”۔
جن لوگوں کی زندگی میں جُمود (stagnance) پایا جاتا ہے ،وہ اُن لوگوں کی صحبت اختیار کریں جن کی زندگی میں دینامیت یا حرکت (Dyanamism) پائی جاتی ہے۔یہ اس مسئلے کا میرے خیال سے سب سے بہترین قابل عمل حل ہے۔