
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کشمیر کی سب سے بڑی علمی دانشگاہ یونیورسٹی آف کشمیر ہے, تفریحی و ثقافتی سرگرمیوں ,تدریسی معیار اور تحقیقی کلچر کے لحاظ سے،پورے خطے میں امامت کا درجہ حاصل ہے ۔ تدریس و تربیت کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی حیرت انگیز خوبصورتی سے سرشار ہے,دانشگاہ میں سب سے حسین و جمیل کیمپس نسیم باغ کیمپس ہے جو چناروں کے صحت افزا درختوں کی آغوش میں ہے , خیال کیا جاتا ہے کہ چنار صوفی بزرگ سید قاسم شاہ نے ایران سے یہاں لائے تھے اور پھر وادی کے مختلف سلطانوں ,فارسی تاجروں اور صوفیاء کرام کی مدد سے چنار کے درخت وادی کے کونے کونے میں پھیل گئے,چنار بنیادی طور پر ایک طویل عرصے تک ذندہ رہنے والا درخت ہے ..کشمیر کے چار الگ الگ موسم ہیں جن میں ہر ایک کا اپنا مخصوص کردار اور مخصوص حسن ہے .جہاں تک دلکشی و خوبصورتی کا تعلق ہے یہ تمام موسم اپنی مثال آپ ہیں,چاروں موسم اپنے مقررہ وقت پر اپنی حاضری دیتے ہیں بالترتیب موسم بہار ,موسم گرما ,موسم خزان اور موسم سرما .چاروں موسم مختلف خوربصورتی لے کر آتے ہیں اور نسیم باغ کو مختلف رنگوں سے رنگا رنگ کرتے ہیں، کیونکہ نسیم باغ کیمپس میں چناروں کی خاص تعداد موجودہ ہے جو دل کو تسکین سے سرشار کرتے ہیں, موسم بہار میں ہر پتہ سبز رنگ سے آنکھوں کو حیران کرتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے کسی پریوں کے شہر میں داخل ہوتے ہیں.موسم گرما آتا ہے لوگ گرمی کی وجہ سے بے حد پریشان ہوجاتے ہیں لیکن نسیم باغ موسم گرما میں ایئر کنڈیشنر سے کم نہیں ,چناروں سے آنی والی معطر ہوائیں دل میں ناامید ی کی کیفت کو نکال کر سرور سے ہمکنار کرتی ہیں ,دماغ کو شائستگی اور جسم کو ٹھنڑک سے نوازتی ہیں..موسم خزان آتے ہی نسیم باغ میں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی نظر آتی ہے اور مختلف رنگ سرخ ,پیلا ,نارنجی اور بھورا اور باقی رنگ اوڑھ لیتا ہے الغرض چنار کا ہر ایک پتہ سرخ و سنہری جامہ پہن کر پھول بن جاتا ہے.دنیا بھر سے فوٹو گرافر کے شوقین سنہری پتوں سے بھرے چنار کے درختوں کو کیمرا بند کرتے ہیں.وادی کشمیر میں خزان کا موسم ستمبر کے آخر سے نومبر کے وسط تک رہتا ہے جو درختوں کو نگا کرتا ہے موسم محض موسمی تبدیلی نہیں بلکہ بہت سارے پیغامات لے کر آتا ہے,اولین پیغام یہ دیتا ہے کہ ہر چیز زوال پذیر ہے ,کوئی بھی شئے کسی بھی وقت خاک میں مل سکتی ہے ,ساتھ ساتھ اس چیز کا تجربہ دیتا,جو پتے چند دن پہلے دلکش تھے ,جن پتوں کو لوگ کیمرا بند کرتے تھے ,اب یہی پتے زمین پر بھکر گئے غرض موسم خزان ہمیں ایک ابدی سچائی سے ہمراز کرتا ہے کہ ہر شے فانی ہے ,کوئی خوبصورتی زیادہ دیر تک نہیں رہتی اور ہر شئے دلکش ہوتے بھی بھکر جاتی ہے اس لیے انسان کو چاہئے کہ موسم خزان سے ایک گہری داستان بھی سنے اور صرف موسمی تبدیلی کی نظر سے نہ دیکھے اور پھر ان پیغامات کو سمجھ کر اپنی موج میں رہنا سیکھے کیونکہ زندگی بھی اسی طرح چلتی ہے.
موسم سرما آتے ہی نسیم باغ کیمپس برف کی چادر اوڈھ لیتا ہے اور خزان کی وجہ سے درختوں کے ننگےپن کو چھپاتا ہے اور یہ چنار کے درخت برف سے ہمکلام ہو کر اپنی تمام داستان ایک ہچکی میں بیان کرتے ہیں کہ کس طرح میں نے سفر کیا, ابتدا سے زوال پذیر ہونے تک کہ کیسے میں موسم بہار میں گنگناتا تھا, مجھے اپنے حسن پر کتنا ناز تھا اور میں اسی الجھن میں اپنے آپ سے بے خبر رہا,میں اپنے آپ کو خود کی شناخت نہیں کراسکا.شاید جس مقصد کے لیے میری ابتدا خالق کل نے کی تھی میں اس ہریالی, حسن ,دلکشی کے بھرم میں رہ کر اپنے وجود کو اس شکنجے میں ڈالا کہ خزان کی استحصالی خنک ہواؤں نے مجھے نگا کیا۔