اس انڈسٹری سے بہت سارے لوگوں کا روزگار جُڑا ہوا ہے۔ آوٹ آف باکس ہرگز سوچانہیں جاسکتا؟۔کیوں کوئی اپنی پیٹ پر لات مارنا چاہیے گا۔
تحریر :مقصود منتظر
کشمیری سادھ لوگ ہے۔ اتنے سادھ کہ سادگی بھی انہیں سلام کرتی ہے۔ کشمیریوں سے کوئی بھلا کرے تو تادم مرگ نہیں بھولتے اور اگر کوئی پیارسے ڈھس بھی لے تو انہیں تکلیف ضرور ہوگی مگر تب تک یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جب تک نہ ڈھنسے والا خود یہ اعلان کرے کہ ہاں میں نے تمہیں ڈھس لیا۔ ایک اوربڑی تاریخی خوبی یا خامی ہے اس قوم کی۔ وہ یہ کہ جس کے ساتھ محبت کا دعوے کریں اس کے متعلق کوئی بدگمنانی برداشت نہیں کرتے۔ اور کسی سے نفرت کریں تو پھر ٹوٹ کر نفرت کرتے ہیں۔
عمومی طور پر نازک موڑ پر رہنے والا مسئلہ کشمیر اس وقت کس موڑ پر ہے؟ کیا کشمیر بک چکا ہے؟ اگر بیچا ہے تو کس نے بیچا؟ اب مزید کیا ہونے والا ہے۔ کیا ادھرہم اُدھرتم ہوچکا ہے ؟ اور اس طرح کے دیگر تمام سوالوں کے جواب کشمیریوں کے پاس ہیں۔ مطلب وہ مسئلہ کشمیر کا اصل مسئلہ جانتے ہیں۔ کب ،کس نے کیا کیا، کسی نے وفا نبھائی اور کس نے بے وفائی کی۔ یہ بھی کشمیری خوب جانتے ہیں۔ مگر مسئلہ ایک ہی ہے کہ انہیں یقین نہیں آتا یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو وہ یقین کرنے کو تیار نہیں۔جو حقیقت وہ دیکھ رہے اسے تسلیم کرنے پر راضی نہیں۔ یعنی انہیں کوئی بتائے گا کہ یہ ہوچکا وہ ہوچکا ہے تب ہی وہ مانیں گے ۔۔
کیا ہی اچھا ہوا کہ مظفرآباد کے پرتعش ہوٹل میں کشمیر کے حوالے سے مذاکرہ ہوا۔ مذاکرے میں پاکستان کی صحافت کے چوٹی کے نام شامل تھے۔ عاصمہ شیرازی نے مسئلہ کشمیر کا پٹاری کھولی۔۔ نو اگست کے بعد پاکستان کے میڈیا کا کیا کردار رہا؟ اس عنوان سے ہونے والے سیشن میں معروف صحافی حامد میر نے میڈیا کے کردار کو قابل شرم جبکہ سیاسی جماعتوں (بشمول آزادکشمیر) کو افسوسناک اور شرمناک قرار دیا۔ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کے ساتھ ہونے والی صحافیوں کی خفیہ میٹنگ کے احوال بھی دہرائے۔ عاصمہ شیرازی کو گواہ بناتے ہوئے کہا کہ کس طرح پاک فوج کے سابق سربراہ نے انہیں مسئلہ کشمیر کا حل سمجھانے کی کوشش کی ۔ بقول حامد میر جنرل باجوہ نے میڈیا کو مسئلہ کشمیرکے حل میں رکاوٹ قرار دیا ۔ حامد میر نے کہا پانچ اگست 2019 کو جو کچھ ہوا اس کے حوالے سے متعدد اور مقتدر حلقوں کو پہلے سے ہی معلوم تھا ۔ حامد میر نے کہا کہ میٹنگ میں باجوہ صاحب نے جو حل بتایا وہ یہ ہے کہ اُدھر کا کشمیر انڈیا کے پاس رہے گا اور ادھر والا پاکستان کے پاس۔ ایل او سی کو مکمل بارڈر میں تبدیل کیا جائے گا۔
مذاکرے میں کشمیری صحافی طارق نقاش اور وحید اقبال نے کشمیر اور مسئلہ کشمیر کی کوریج کا شکوہ کیا تو معروف دانشور اور صحافی وسعت اللہ خان نے خوبصورت انداز میں دونوں کو خاموش کردیا ۔ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر انڈسٹری بن چکا ہے اور اس انڈسٹری سے بہت سارے لوگوں کا روزگار جُڑا ہوا ہے۔ آوٹ آف باکس ہرگز سوچانہیں جاسکتا ۔کیوں کوئی اپنی پیٹ پر لات مارنا چاہیے گا۔ اس دوران چند جذباتی نوجوانوں اور بگڑے بچوں نے نعرے لگائے۔۔ کشمیر ہمارا ہے اور اس کا فیصلہ ہم کریں گے۔۔ تو وسعت اللہ صاحب مائیک سمیت محفل سے جانے لگے۔ نشست کی میزبان عاصمہ شیرازی نے اڑچن کو دور کرتے ہوئے محفل جاری رکھی۔
ایک اور کشمیر صحافی عارف بہار نے وادی کشمیر کے لوگوں میں پائے جانے والے نئے رجحان پر روشنی ڈالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام پاکستان کی موجودہ صورتحال سے سخت پریشان ہیں۔ وہ پاکستان کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انہیں اپنا غم کم اور پاکستان کی اندرونی و بیرونی صورتحال زیادہ تنگ کرتی ہے ۔ اگر چہ کشمیریوں کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا مگر اب بھی وہ یقین کرنے کو تیار نہیں ۔ عارف بہار نے وادی کشمیر میں حالات کی تبدیلی اور عوام کی نئی سوچ کا بھی ذکر کیا۔ بولے اب کشمیریوں نے پاکستان سے شکوے شکایتیں کرنا چھوڑ دیا ۔
جب پاکستان اندرونی طور پر سیاسی و معاشی حالات سے دوچار ہے اور بحرانوں اور غیر یقینی کیفیت نے ہر خاص و عام کو مشکل میں ڈال رکھاہے تو ایسے وقت میں کشمیر کے حوالے سے اتنے بڑے مذاکرے کا مقصد کیا ہے؟ آزادکشمیر کے عوام میں شکوک و شبہات پائے جارہے ہیں ۔ بعض کا ماننا ہے کہ یہ مذاکرہ باجوہ صاحب کے دیئے گئے حل کو زمین پر لانے کیلئے ماحول ساز گار بنانے کی ایک کوشش ہے۔ یاد رہے اس مذاکرے کا اہتمام کراچی آرٹ کونسل نے کیا ہے مگر اس کے سپانسر جنگ گروپ اور بینک آف پنجاب، ایس کام ، سمیت دیگر اہم اداروں نے کیا تھا ۔۔
قارئین جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا ہےکہ کشمیری مسئلہ کشمیر کی موجودہ پوزیشن اور اس سے متعلق سوالات کا جواب بخوبی جانتے ہیں لیکن اب انہیں یہ یقین دلوایا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوچکا ہے۔ ادھرہم اُدھر تم ہوچکا ہے۔