از:غلام حسن( سوپور)
چالیس سال قبل ایک شخص نے زبردست طاقت ور گھوڑے کو پال رکھا تھا , ایک دن ایسا ہوا گھوڑا بیمار پڑ نے کے بعد مر گیا, مذکورہ شخص نے مردہ گھوڑے کو آٹھا کر کہیں دور چھوڑ دیا ,
اتفاق سے ایک شخص یہاں سے گذر ا , جس کی نظر مردہ گھوڑے پر گئی , مذکورہ شخص چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست ذہانت کا مالک بھی تھا ۔ مذکورہ شخص کے من میں ایک زبردست خیال آیا , آپ نے انشورنس کمپنی کے ایک ایجنٹ سے رابطہ کیا , ساری کہانی اسے سنادی, انشورنس کمپنی کا ایجنٹ موقع پر حاضر ہوا , مردہ گھوڑے کو دیکھا , گھوڑے کا آن سپاٹ (on the spot) انشورنس ہوا , گھوڑے کے کان میں ٹیگ (Tag) لگادیا گیا, تمام فارملٹیز (Farmalties) بخوبی انجام پائی , مردہ گھوڑے کی فوٹوگرافی ہوئی , چند دن بعد مذکورہ فرضی مالک نے انشورنس کلیم (claim) کی , انشورنس ایجنٹ نے تمام کاروائی مکمل کی , کلیم منظور ہوئی , فرضی مالک کو انشورنس کلیم مل گیا اور انشورنس ایجنٹ نے بڑی دیانتدار کے ساتھ اپنا حصہ لے لیا۔
اگر دیکھا جائے تو پورے دیش کا یہی حال ہے , ہر طرف کفن چور , بددیانتی , بے ایمان , کرپٹ آفیسران اور لٹیرے موجود ہیں , یہاں بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے , یہاں لوگ جھوٹی نمازوں کے عادی ہوچکے ہیں , حرام کو حلال سمجھتے ہیں اور غریب کے حق کو مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا جاتا ہے اور بڑی بے دردی سے غریب کے گلے پر آری چلائی جارہی ہے ۔یہاں طاقت ور کمزور پر کلہاڑی چلانے میں کوئی عار نہیں رکھتا ہے , یہاں کا مولوی چھوٹی واعظ خانی سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے , وہ زہر ہلال کو قند کہتے ہوئے لوگوں کو کھانے کیلئے کہہ رہا ہے ۔
یہاں کے سیاست دانوں کی تاریخ سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے جو رہنماوں کی آڑ میں رہزن کا کام کررہے ہیں, جنھوں نے ہزاروں ایسے ہی کفن چوروں کو جنم دیا ہے اور مردہ انسانوں کی کھال کینچ کر فروخت کی ہے ,یہاں کے بیوروکریٹوں کی لوٹ کھسوٹ کی سیاہ داستان تاریخ کا حصہ ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے , سرکاری دعوٰی بظاہر کھوکھلے اور فریب نظر آرہے ہیں نہ کہیں جواب دہی اور نہ کہیں ٹرانسپیرنسی (Transparancy) نظر آرہی ہے اور جرائم پیشہ بددیانت افراد کو کھلی چھوٹ مل چکی ہے , جس وجہ سے سماج کا اخلاقی اور دیانتدار کا اقتدار زوال کا شکار ہوچکا ہے ۔ وہ دن دور نہیں جب مظلوم کی آواز میں قہر ہوگا اور اس قہر سے سیاہ اور سفید کرتوت زمین بوس ہو جایئں گے ۔