تحریر:رام پال
ایک تھا راجہ۔ بہت عقلمند، انصاف پسند، رحم دل، بہادر، رعایا پرور۔ اس کے راج میں ہر طرف امن و امان تھا، سکھ چین تھا، خوشحالی تھی، لیکن اتنی بڑی حکومت میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوجاتی کہ راجہ گھنٹوں سوچتا رہتا کہ اُس سے ایسی ایک بھول ہوئی کہ اس کی پرجا میں بے چینی پیدا ہوئی اور جب کوئی ایسی بات ہوتی تو وہ گھنٹوں خدا کے حضور میں گڑگڑاتا کہ اس کی پریشانی ختم ہو کیونکہ رعایا کا دکھ اس کا اپنا دُکھ تھا۔ ایک دن جب وہ اسی طرح خدا سے دعا مانگ رہا تھا تو اسے جھپکی سی آگئی۔ پھر اس نے دیکھا کہ ایک بزرگ کہہ رہے ہیں کہ اس کے دل پر جو زخم اس کی رعایا کی بے چینی کی وجہ سے لگا ہے۔ اس کی دوا کی تلاش کیلئے اسے تین سوالوں کے جواب ڈھونڈنے ہونگے۔ سوال یہ تھے: (۱) کسی کام کو سر انجام دینے کیلئے سب سے مناسب وقت کونسا ہے؟ (۲) کسی خاص وقت میں اہم ترین انسان کونسا ہے؟ (۳) اس وقت اس آدمی سے ملنے پر سب سے اہم مسئلہ کون سا ہے؟ راجہ چونک اٹھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ راجہ کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ حکم اس نورانی بزرگ نے خدا کی مرضی سے دیا ہے، لہٰذا اس کا فرض ہے کہ وہ ان کے جوابات تلاش کرے۔
راجہ نے اپنے تمام صوبے داروں کو پیغام بھیجا کہ اِن سوالات کے جوابات اُسے جلد از جلد بتائیں۔ اس کے علاوہ اس نے ملک کے منادی کرنے والوں کو دربار میں بلایا۔ ان کو تینوں سوال ازبر کرائے اور کہا کہ جو بھی اس کا صحیح جواب دے گا اُسے آدھی ریاست انعام میں دی جائے گی۔ کچھ دن بعد ہی جوابات کا ڈھیر لگ گیا۔ راجہ کو ان تمام جوابات کو پڑھنے، سننے اور غور کرنے کیلئے ایک علاحدہ محکمہ قائم کرنا پڑا۔ اس محکمے نے سارے جوابوں کو الگ الگ زمروں میں بانٹ کر، قسم قسم کے عنوانات جما کر، ان کا نچوڑ نکال کر سیکڑوں صفحات کی ایک ضخیم رپورٹ راجہ کو پیش کی۔ لیکن راجہ کا ذہن اس رپورٹ کو پڑھ کر اور بھی الجھ گیا۔ پھر اس نے ان جوابات کا خلاصہ تیار کرنے کیلئے ایک اور کمیٹی قائم کی جس نے مہینوں کی عرق ریزی کے بعد جوابات راجہ کو بتائی اس کا راجہ کو پہلے ہی علم تھا۔ ان تین سوالوں کا حل بہت سے دانشوروں نے یہ تجویز کیا تھا: (۱) اہم وقت کیلئے اپنے وقت کے مشہور نجومیوں اور جیوتشیوں سے مشورہ لیں، وہ ستاروں کی چال دیکھ کر آپ کو مشورہ دے سکیں گے۔ (۲) سب سے اہم آدمی وہ ہے جسے آپ کا دل پسند کرے، آپ کا ذہن قبول کرے۔ جیسے آپ کے بیوی بچے، بہن، دوست احباب، رشتے دار، وزیر اور امیر، درباری، مصاحب یا جو بھی آپ کے من کو بھائے۔ (۳) سب سے اہم مسئلہ وہ ہے جسے آپ کے وزیر اور امیر سوچ بچار کے بعد خود اس پر، ہفتوں، مہینوں بحث کرنے کے بعد آپ کی منظوری یا نامنظوری کے لئے آپ کے سامنے دربار میںپیش کریں۔
وقت گزرتا رہا اور راجہ کی بے چینی بڑھتی ہی گئی۔ کیونکہ ان تین جوابوں سے اس کو اطمینان ہونا تو الگ رہا الٹی ذہنی کوفت ہوئی۔ اب راجہ کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان سوالات کے جوابات کیلئے اپنے خدا کے در پر دستک دے۔ اس لئے اس نے پھر اپنا سر خدا کی چوکھٹ پر رکھ دیا اور اُسے پھر وہی نورانی صورت دکھائی دی۔ بزرگ نے راجہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا:
راجہ سنو، خدا تمہارے اس عمل سے بہت خوش ہے کہ تم نے اپنی ہمت اور وسائل سے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر تمہارے ذہن نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ ان میں روح نہ تھی۔ لہٰذا اب تم کسی ایسے شخص کی تلاش کرو جو دنیا میں رہ کر بھی دنیا میں نہ رہتا ہو، جو ایمان کو جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہو اور تمہیں راجہ سمجھ کر نہیں، ایک عام مخلص خدا کا بندہ جان کر تمہاری جھولی میں مرادوں کے پھول بھر دے، اس کے بعد ہی تمہیں چین اور سکون مل سکے گا۔
راجہ نے جب سجدے سے سر اٹھایا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ فوراً ہی اُسے نورانی بزرگ کی بات یاد آئی۔ اُس نے اپنا بھیس سیدھا سادہ عام آدمیوں جیسا بنایا اور چپ چاپ شاہی محل کے دورازے سے باہر چلا۔ اب اُسے کسی ایسے شخص کی تلاش جو اُسے ان سوالات کا جواب دےسکے۔ راجہ آبادی چھوڑ کر اکیلا ایک ویرانے کی طرف چل دیا۔ اس کے پاؤں کشاں کشاں ایک خاص سمت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ نورانی بزرگ اس کے رہبر، رہنما اور خضر ہوں۔
یہ پہلی دفعہ نہیں تھا کہ راجہ نے اس طرح بھیس بدل کر اپنی رعایا کا دکھ سکھ سننے کیلئے پیدل یاترا کی ہو، مگر اس وقت اس کے ساتھ ہمیشہ نمک حلال غلام اور وزیر ہوا کرتے تھے لیکن آج وہ اکیلا تھا۔ کم از کم خود یہی سمجھ رہا تھا لیکن جب وہ اپنے کمرے سے نکلا تھا تو اس کا ایک غلام سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھاگ کر وزیر سے کہا، ’’تیار ہوجایئے۔ راجہ جی دورے پر جارہے ہیں۔‘‘ لیکن یہ دونوں جب تک راجہ سے پوچھتے کہ آج ریاست کے کس حصے میں جانا ہے راجہ اپنے خیالوں میں مگن ایک خاص سمت میں جا چکا تھا اور پہلے کبھی ادھر نہیں گئے تھے کیونکہ وہاں آبادی نہ تھی صرف جنگل تھا اور جنگل میں کوئی بھی ایسا فریاد سنانے والا نہیں رہتا تھا جس کی وہ مدد کرسکیں۔ پھر بھی وزیر عقلمند تھا۔ اس نے نہ سمجھتے ہوئے بھی وفادار غلام کے کان میں کہا، ’’ضرور اس میں کوئی بھید ہے۔ ہمیں راجہ کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے ساتھ بھی رہنا ہے۔ مدد بھی کرنی ہے لیکن اُسے اِس بات کا علم نہیں ہونا چاہئے۔‘‘ راجہ چلتے چلتے ایک بہت گھنے جنگل میں داخل ہوگیا جس کے بیچ میں ایک سادھو مہاتما کی کٹیا تھی۔
جس وقت راجہ وہاں پہنچا تو اُسے ایسا لگا جیسے وہ نورانی صورت اس سے کہہ رہی ہو کہ یہی ہے تمہاری منزل۔ ان کے جوابات سے ہی تمہیں اطمینان ہوگا۔ راجہ وہاں رُک گیا اور اس نے تینوں سوالات دہرائے۔ سادھو اس وقت اپنی کٹیا کے اردگرد پودے اُگانے کیلئے زمین کھود رہے تھے۔ لیکن چونکہ بہت بوڑھے اور کمزور تھے، اس لئے کام ٹھیک سے نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے راجہ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ سوالات سننے تو درکنار۔ بس اپنے ہی کام میں مصروف رہے۔ راجہ اپنے دل میں شرمندہ ہوا اور سادھو سے کہنے لگا: ’’اب آپ آرام کریں۔ مَیں چونکہ طاقتور اور جوان ہوں، اسلئے کیاریاں بنانے کا کام میں کروں گا۔‘‘
مہاتما نے کچھ نہیں کہا۔ صرف کدال اور کھرپا زمین پر رکھ دیا اور خود ایک درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر مدھم سروں میں بھجن گانے لگے۔ راجہ دیر تک کام کرتا رہا۔ آخر اس نے کدال کو الگ رکھ کر پھر اپنے سوالات دہرائے۔ لیکن مہاتما جی بھجن گانے میں اتنے مگن تھے کہ انہوں نے راجہ کی بات پر غور ہی نہیں کیا۔ راجہ نے سوچا اسے انتظار کرنا چاہئے یہ کبھی تو توجہ دیں گے۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اسی کام میں جٹ گیا۔ شام ہوگئی۔ راجہ بھی آدمی تھا۔ تھک کر چور ہوگیا۔ اس نے پھر اپنے سوالات دہرائے۔ اب کی بار مہاتما جی نے نظر اٹھا کر اُسے دیکھا۔ راجہ کی کچھ اُمید بندھی، لیکن جلد ہی وہ پھر نااُمید ہوگیا، کیونکہ مہاتما اس کی طرف دیکھنے کے بجائے جنگل کی ایک سمت کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے جہاں سے پتّوں کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کسی کے تیز بھاگنے کی آواز آرہی تھی۔ چند لمحے بعد، ایک لمبی داڑھی، خوفناک چہرے، سرخ آنکھوں اور لمبے چوڑے تن و توش والا ایک آدمی سامنے آیا، جس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے پیٹ کو تھام رکھا تھا، جس میں سے خون بہہ رہا تھا۔ راجہ اور سادھو کے سامنے آکر وہ کمزوری، تھکن اور زخم کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر گیا۔ راجہ جلدی سے اٹھا۔ اُس نے دیکھا کہ اس شخص کے پیٹ میں ایک خنجر گھسا ہوا ہے۔ راجہ کی مشاق انگلیوں نے خنجر آہستہ سے باہر نکالا۔ مہاتما جی اتنے میں تھوڑا سا پانی ایک برتن میں لے آئے تھے۔ اس سے راجہ نے زخمی آدمی کا زخم دھویا۔ پھر اس نے اپنا رومال اور مہاتما جی کا انگوچھا لے کر زخم کو کس کے باندھ دیا اور زخمی کو اٹھا کر اندر مہاتما کے تخت پر آرام سے لٹا دیا۔ چونکہ رات ہوچکی تھی۔ راجہ تھک کر چور ہوچکا تھا اسلئے وہ بھی کٹیا کی دہلیز پر لیٹ گیا۔ مثل مشہور ہے کہ نیند سولی پر بھی آجاتی ہے، راجہ وہاں بھی مزے سے سوگیا۔
جب راجہ صبح کو اٹھا تو اس نے دیکھاکہ زخمی کی حالت بہتر ہے۔ زخم زیادہ گہرا نہ تھا۔ راجہ کو دیکھتے ہی زخمی مسکرایا۔ راجہ نے کہا، ’’شکر ہے اب تم ٹھیک ہو۔‘‘ اور اس آدمی نے دھیمے سے کہا، ’’شکر ہے، مَیں پاپ کرنے سے بچ گیا۔‘‘ مہاتما جی مسکرانے لگے اور راجہ زخمی کا منہ تکنے لگا۔ کیسا پاپ؟ یہ ایک سوال تھا۔ لیکن اس کا جواب زخمی نے خود ہی آہستہ آہستہ اس طرح دیا کہ وہ ایک ڈاکو ہے، جس کے گروہ کے سب آدمیوں کو راجہ نے قتل کر دیا تھا۔ اب راجہ اِدھر آرہا تھا تو اس نے جنگل میں راجہ کو پہچان لیا تھا۔ اور اُسے قتل کرنے کے لئے وہ اپنے غار سے تلوار لینے گیا تھا مگر راستے ہی میں راجہ کے وزیر نے اُسے پہچان لیا، اور راجہ کے وفا دار غلام نے اُسے زخمی کر دیا۔ لیکن چونکہ وہ جنگل کے راستوں سے واقف نہیں تھے اس لئے ڈاکو جان بچا کر مہاتما جی کی کٹیا کی طرف یہ سوچ کر بھاگا کہ ان کے پاس جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں جس سے وہ غریب آدمیوں کی سیوا کرتے ہیں، لیکن یہاں مہاتما کے ساتھ راجہ نے ڈاکو کی تیمارداری کرکے اس کی جان بچا دی۔
یہ سب کچھ سنا کر ڈاکو آہستہ سے اُٹھ کر مہاتما جی اور راجہ کے قدموں کی طرف بڑھا۔ مہاتما جی مسکرائے۔ راجہ نے ڈاکو کو سنبھال کر پھر تخت پر لٹا دیا اور اب راجہ کو پھر اپنے سوال یاد آئے مگر اس سے پہلے کہ وہ ان کو دہراتا مہاتما جی نے بڑے پیار سے کہا، ’’بیٹا! مجھے بھگوان نے تمہارے سوالات کا جواب دینے کا حکم دیا تھا، لیکن ہر بات کا وقت مقرر ہے اور اب تمہیں چونکہ اپنے تینوں سوالوں کا جواب مل چکا ہے اس لئے تم آرام سے واپس محل جاؤ۔ ’’لیکن کیسے؟‘‘ راجہ نے مہاتما کے چرن چھو کے پوچھا۔
مہاتما نے ہنس کر کہا، ’’دیکھو، سب سے اہم وقت وہ تھا جب میری جگہ تم زمین کھود رہے تھے، کیونکہ زمین کھودنے کیلئے رکنے کے بجائے اگر تم اسی وقت واپس جاتے تو یہ ڈاکو تمہیں جان سے مار ڈالتا مگر یہاں اس کام میں تمہیں شام ہوگئی اور اس طرح تم قتل یا زخمی ہونے سے بچ گئے۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس وقت سب سے اہم آدمی تمہارے لئے مَیں خود تھا جس کا کام تم کر رہے تھے۔ راجہ ہوتے ہوئے بھی تم ایک غریب سادھو کا کام کرنے ہچکچائے نہیں، لہٰذا تم نے میری اہمیت پہچان لی، تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ تمہارے لئے سب سے اہم مسئلہ اس زخمی کی جان بچانے کا تھا، یہ فوری مسئلہ تھا، اس پر عمل کرکے تم نے ایک جانی دشمن کو ایک عزیز دوست آدمی بنا دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ سب سے اہم وقت ’ابھی‘ ہے۔ یہ گزر گیا تو پھر دوبارہ ہاتھ نہیں آئیگا، لہٰذا جو کرنا ہے ابھی کرو، کل پر نہ ٹالو۔ سب سے اہم آدمی وہ ہے جو اس وقت تمہارے سامنے ہے خواہ وہ تمہارا وزیر یا سپہ سالار یا تمہاری رعایا کا کوئی غریب، لاچار فرد ہو۔ کیونکہ اُسے تمہاری ضرورت ہے اور سب سے اہم مسئلہ وہ ہے جو فوری طور پر اس شخص نے تمہارے سامنے حل کرنے کیلئے رکھا ہو۔ کیونکہ اُسے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے، ایک بھوکا ایک مہینے تک تمہارے وعدے پر نہیں جی سکتا اور نہ اگر کسی نے تمہارے ملک پر حملہ کیا ہے تو تم اس مسئلہ کو اگلے سال تک کیلئے ٹال سکتے ہو۔‘‘
راجہ کو اپنے تینوں سوالوں کا جواب مل گیا اور اس کے ساتھ ہی مہاتما جی کی شبیہ آہستہ آہستہ اس نورانی بزرگ جیسی ہوگئی جو راجہ کے خواب میں دو دفعہ آئے تھے اور جب راجہ نے اُن کے قدم چھونے چاہے تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اب راجہ کی سمجھ میں آگیا کہ یہ نیکی کا راستہ خدا نے اُسے سمجھایا ہے۔ اس نے یہ تینوں باتیں پلّے باندھ لیں اور ہمیشہ ان پر عمل پیرا رہا۔
(مرکزی خیال ٹالسٹائی کی کہانی ہے)