تحریر:جہاں زیب بٹ
حالیہ پارلیمانی انتخابات میں بارہ مولہ نشست سے بھاری شکست درج کر نے کے بعد این سی کے نایب صدر عمر عبداللہ “آم کھٹے ہیں'” کا مصداق بن رہے ہیں۔دفعہ 370 کی منسوخی کی پانچویں سالگرہ کے موقعہ پر انھوں نے آیندہ پارلیمانی انتخابات میں خود حصہ لینے کے امکان کو نکارتے ہوئے کہا کہ وہ ایل جی سے ابنا چپراسی لینے اور فایل پر دستخط کرنے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ عمر عبداللہ کی طرف سے یو ٹی میں اسمبلی الیکشن نہ لڑنے کا اشارہ ملنے سے ہم سادہ لو ح کشمیریوں کو یہ غلط فہمی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے کہ این سی لیڈر اختیارات کا قائل ہے وہ صرف ایک با اختیار حکومت کی قیادت کرے گا ۔اسے یوٹی درجہ قبول نہیں ۔تا ثر مل سکتا ہے کہ صاحب اخلاقی چوٹی پر کھڑا ہے ۔لیکن دوسرے ہی سانس میں جب انہوں نے کہا کہ وہ آیند ہ انتخابات میں پارٹی کی قیادت کرے گاتو اس سے کسی غلط فہمی میں مبتلا ہو نے کی کویی وجہ باقی نہیں رہتی۔ مذکورہ بیان سے گمراہ ہونے کا امکان معدوم ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔دونوں باپ بیٹے یعنی فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ دن رات یہ دعویٰ کرتے ہوۓ نہیں
تھکتے کہ وہی آیندہ حکومت بنا دیں گے۔مان لیں یہ دعویٰ کل کو صحیح ثابت ہو جائے تو ا گلی حکومت کی قیادت عبدالرحیم راتھر،میاں الطاف ،ساگر یا ناصر
سو گامی تو نہیں کرے گا بلکہ لیلیٰ اقتدار فاروق یا عمر کے پاس ہی چلی جایے گی ۔تب فایل پر ایل جی کے دستخط کا انتظار کے بغیر کو نسا چارہ ہو گا ؟ آج عمر عبداللہ حکومت سے باہر ہیں تو ان کو فایل پر ایل جی دستخط کا انتظار کر نا رسوائی محسوس ہوتی ہے۔مگر کل جب بے اختیاری کے باوجود کرسی مل جایے تو آج کا رسوا کن انتظار کل سرمہ افتخار قرار پایے گا ۔اسی ،فریب ،تضاد اور دوغلا پن کا دوسرا نام این سی ہے۔
عمر اور فاروق عبداللہ حقیقی سیاست کرتے جایز عوامی مسایل اٹھاتے اور اب دفعہ 370پر لوگوں کو مزید گمراہ کر نے کی عادت چھوڑتے تو یہاں کی سیاست میں حقیقت پسندانہ عنصر پیدا ہوتا دلایل کا بول بالا ہوتا ،گمراہ کن نعرے بند ہوتے اور استحصال کا امکان معدوم ہو تا۔لیکن افسوس یہ ہے کشمیر کی سیاست طویل مدت تک چھائے رہنے والی جماعت این سی دھوکہ اور جھوٹ پر مبنی سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوتی ۔اس نے دفعہ 370 پر جتنی سیاست کی اور جتناانتخابی فاید ہ اٹھایا اس میں وہ یکتا مثال ہے۔اب 5اگست 2019 کے بعد 370 پر سیاست کرنے کا موقعہ کافی حد تک معدوم ہو نے کے بعد بھی وہ پرانی عادت سے باز آنے کو تیار نہیں۔وہ شرم نہیں کرتی کہ اس نے چار سال تک گپکار الاءنس کی سربراہی کی اور جب سیاسی اغراض غالب ہویے تو اتحاد میں بچی ہو ءی آخری بڑی جماعت پی ڈی پی کے ساتھ “تم کس کھیت کی مولی” ایسا برتاؤ کیا۔شرم پر شرم یہ کہ وہ پھر بھی دفعہ370ک�