از:ندیم خان
ایسا لگتا ہے جیسے قانون کی بالادستی مکمل طور پر منہدم ہو چکی ہے اور اس کا براہ راست اثر خواتین پر ہو رہا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات عام سی بات ہو گئی ہے۔ کولکتہ میں چند دن قبل ایک واقعہ ہوتا ہے، جس کے بعد مقامی سطح پہ احتجاج شروع ہوا۔ واقعہ یہ ہے کہ ریاست مغربی بنگال میں ایک ٹرینی ڈاکٹر ممیتا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد بدترین طریقے سے ان کی جان لے لی گئی، 31 سالہ خاتون ٹرینی ڈاکٹر ‘مومیتا‘ جمعے کی شب اپنی ہاؤس جاب کی 36 گھنٹوں پر مشتمل سخت شفٹ کے بعد اسپتال میں خواتین کے لیے ‘کومن روم‘ نہ ہونے کے باعث اسپتال میں موجود ایک سیمینار ہال میں ہی سو گئی تھی۔ جس کے بعد متعدد افراد کی جانب سے ان کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر ممیتا کی مسخ شدہ لاش وصول کرنے کے لیے ڈاکٹر ممیتا کے ماں باپ کو تین گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ جب لاش وصول ہوئی تو کیفیت یہ تھی کہ پیلوس کی مضبوط ترین ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور دونوں ٹانگیں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں لڑھک رہی تھیں گویا ڈاکٹر ممیتا انسان نہ ہو بلکہ پلاسٹک کی کوئی گڑیا ہو جس کے اعضاء اپنی مرضی سے توڑ مروڑ دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ممیتا کا گلا اس انداز میں گھونٹا ہوا تھا کہ لہو منہ سے بہہ رہا تھا۔ اس قدر سفاکیت اور وحشت جس پہ بات کرتے ہوئے انسان کانپ جائے لیکن یہاں کچھ لوگ ہیں جو اس قسم کے خوفناک واقعے سے بھی جنسی لطف کشید کر رہے ہیں۔ آپ ذرا تصور کیجیے کہ خبروں کے مطابق ڈاکٹر ممیتا کا گلا گھونٹ کے مارا گیا ہے اور آنکھوں کو عینک کے شیشوں سے چھلنی کیا گیا ہے، ڈاکٹروں کے مطابق کلکتہ کی اس زیرِ تربیت ڈاکٹر کے یوٹرس میں 150 گرام سیمن پایا گیا جنسی طور پہ جو تشدد ہوا بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ لکھتے ہوئے مناسب الفاظ نہیں مل رہے جو اس بربریت کا اظہار بھی کریں اور اک قلمکار کے قلم کی حیا بھی برقرار رکھیں۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ممیتا کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مقتولہ کی آنکھوں، چہرے، سر، بازو، ہاتھوں، ہونٹوں، ٹھوڑی، پیٹ اور شرمگاہ پر زخم پائے گئے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مقتولہ کے جنسی عضو کے اندر بھی زخم تھا جو Perverted Sexuality کی عکاسی کرتا ہے۔ یعنی مقتولہ کے اندر کوئی لوہے یا لکڑی کا آلہ ٹھونسا گیا۔ اگرچہ یہ درندگی بھی ایک انتہائی درندگی ہے تاہم پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق گلے کی ہڈی کے علاوہ مقتولہ کے جسم کی کوئی اور ہڈی ٹوٹی ہوئی نہیں تھی۔ رپورٹ کے مطابق کلکتہ کی اس زیرِ تربیت ڈاکٹر ممیتا کا سر فرش یا دیوار کے ساتھ پٹخا گیا اور بعد میں گلہ دبا کر قتل کر دیا گیا۔ گلہ دبانے سے ہی گلے کی ہڈی ٹوٹی۔ درندے کی دیدہ دلیری کا یہ عالم تھا کہ وہ یہ دل دہلا دینے والا جرم کر کے بھی گھر چلا گیا اور آرام سے سو گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں سیمینار ہال میں چار مرد دکھائی دیے جن میں سے تین وہ تھے جن کے ہسپتال میں کوئی نہ کوئی قریبی رشتہ دار داخل تھے جبکہ چوتھا سنجے رائے تھا جو بلیو ٹوتھ بھی لاش کے پاس چھوڑ گیا۔ کلکتہ پولیس نے جب سی سی ٹی وی فوٹیج اور بلیو ٹوتھ کی بنیاد پر سنجے رائے کو پکڑا تو اس کے چہرے پر ناخنوں کے نشانات پائے گئے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ مقتولہ نے اپنے بچاؤ کی خاطر ہر ممکن مزاحمت کی۔”انڈیا ٹوڈے“ کے مطابق سنجے رائے نے نہ صرف دورانِ تفتیش اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے بلکہ پولیس افسران کو یہ بھی کہا ہے کہ مجھے پھانسی دے دو۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سنجے رائے نہ صرف پورن فلمیں دیکھنے کا عادی ہے بلکہ اپنی والدہ، بہن اور بیوی کو بھی جسمانی تشدد کا نشانہ بنا چکا ہے اور چند برس قبل اس کی ساس نے اس کے خلاف بیوی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے پر پولیس کو ایک رپورٹ درج کروائی تھی۔
ٹرینی ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے بعد ہیلتھ ورکرز کو بہتر تحفظ فراہم کرنے کے مطالبے کے لیے بھارت بھر میں ہزاروں ڈاکٹروں نے ہڑتال کر دی ہے۔ فیڈریشن آف ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (فورڈا) کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سرویش پانڈے نے کہا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 300,000 ڈاکٹرز اس احتجاج میں شامل ہو چکے ہیں اورہم ابھی مزید کے بھی اس احتجاج میں شامل ہونے کی امید کرتے ہیں۔ مختلف ذرائع پر آنے والی تصاویر میں کولکتہ اور دارالحکومت نئی دہلی کے ڈاکٹروں کو دکھایا گیا ہے، جن کے پاس موجود کتبوں اور بینرز پر لکھا ہے کہ ہمارے ڈاکٹروں کو بچائیں، ہمارے مستقبل کو بچائیں۔ اس وقت پورے ہندوستان میں اس دل دہلا دینے والے واقع کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹرز نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ کلکتہ نہ صرف بھارت کی ریاست مغربی بنگال کا دارالحکومت ہے بلکہ دنیا کا ایک مشہور تاریخی شہر بھی ہے۔ کلکتہ میں یہ بہیمانہ واقعہ اس وقت رونما ہوا ہے جب مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ ایک خاتون ممتا بینر جی ہیں۔ 2011 سے مسلسل تیسری بار مغربی بنگال کی وزیرِ اعلیٰ بننے والی ممتا بینرجی ایک بے مثال لیڈر ہیں جن کی قابلیت اور سادگی کی وجہ سے مغربی بنگال کی عوام انہیں ”دیدی“ کہتی ہیں۔ آپ بنگال کی اس دیدی کی اہلیت ملاحظہ کریں کہ انہوں نے 1997 میں انڈین نیشنل کانگریس سے علیحدگی اختیار کر کے 1998 میں اپنی جماعت ”آل انڈیا ترنمول (گراس روٹس) کانگریس“ کی بنیاد رکھی اور بنگال سے بھارت کی بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کا صفایا کر دیا۔ کلکتہ والے واقعہ کے متعلق جہاں ڈاکٹرز اور عام شہری احتجاج کر رہے ہیں وہاں ممتا بینر جی نے بھی اپنی ریاست مغربی بنگال اور ہندوستان کی عورتوں کی آواز بنتے ہوئے احتجاج میں شرکت کی اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو اتوار تک اپنی تحقیقات مکمل کرنے کی ڈیڈ لائن دی تھی اور ملزم کو پھانسی دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس ریاست کے دارالحکومت میں یہ افسوس ناک واقعہ ہوا ہے اس ریاست کی با اختیار اور طاقتور وزیر اعلی کو بھی ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ زیرِ تربیت ڈاکٹر کے ساتھ جنسی درندگی کا یہ ہولناک کھیل کیسے کھیلا گیا اور اس درندگی کا مظاہرہ کرنے والا ایک درندہ تھا یا ایک سے زیادہ تھے؟ اور نہ ہی اس دل دہلا دینے والے واقعہ کی مکمل تفصیلات ابھی تک بھارت کی مشہور تحقیقاتی ایجینسی ”سی بی آئی“ کو معلوم ہو سکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر تین عورتوں میں سے ایک عورت جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہے۔ ہمارے خطے میں بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کا سلسلہ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ دسمبر 2012 کو دہلی کی ایک بس میں ایک طالبہ جیوتی سنگھ کے ساتھ چھ درندوں نے جنسی درندگی کی۔ لوہے کے راڈ اندر ٹھونسے۔ پورا بھارت ہل گیا تھا۔ حکومت نے جیوتی سنگھ کو علاج کے لیے سنگھا پور بھیجا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ جنسی درندے کیفرِ کردار تک پہنچے۔ جیوتی سنگھ کی زندگی پر تین فلمیں بنیں۔ جب تک اس کے والد نے اجازت نہ دی تب تک میڈیا نے جیوتی سنگھ کا اصلی نام نہ لکھا اور ”نربھایا“ ( نڈر) ، ”امانت“ ، ”دامنی“ (روشنی) اور ”India’s Braveheart“ کے علامتی نام استعمال کیے۔ اب کلکتہ والے واقعہ پر بھی پورا بھارت سراپا احتجاج بنا ہوا ہے لیکن اس واقعہ میں درندگی کا شکار ہونے والی زیرِ تربیت ڈاکٹر کا نہ صرف اصلی نام بلکہ اس کی تصویر بھی موبائل فونز اور سوشل میڈیا کے چوراہے پر لٹکا دی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے 2015ء میں کیے گئے ایک سروے میں پتا چلا کہ بھارت میں 75 فیصد ڈاکٹروں کو کسی نہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق 2022ء میں ریپ کے کل 31,516 واقعات ریکارڈ کیے گئے جو اوسطاً 86 کیسز یومیہ بنتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سخت تر سزاؤں کے باوجود، بھارت میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتیوں کے واقعات میں کمی نہیں آ سکی اور وہ اب بھی باہر نکلتے ہوئے خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔ صرف ایک ڈاکٹر ممیتا نہیں بلکہ ہر عورت اپنے ذہنی سکون اور جسمانی سلامتی کے رسک پہ گھر سے باہر قدم رکھتی ہے، گھر سے باہر کی کیا مثال دوں کہ گھر کے اندر چھوٹی بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ الگنی پہ لٹکے کپڑوں سے عورت تراشنے والو تم لوگ جس آیت، حدیث کا مرضی سہارا لو لیکن اس کردار اور ذہنیت کے ساتھ اب کوئی تمہیں مجازی سمجھ کے ہی سہی خدا نہیں کہنے والا۔
ہر وصف میرا سیرتِ حیواں کی طرح ہے
وہ شکل میری آج بھی انساں کی طرح ہے
حیراں میرے کردار پے ہیں آج دریندے
غالب ہے ہوس آج جو شیطاں کی طرح ہے