تحریر:جہاں زیب بٹ
ریاست جموں و کشمیر کی آءینی حثیت تبدیل ہو نے اور اسکو خصوصی پوزیشن کے ساتھ ساتھ ریاستی درجہ سے بھی محروم کرنے کی پارلیمنٹ کی ناقابل فراموش کاروائی کے بعد کشمیر کی سیاسی فضا میں جب سکوت پیدا ہوا ،جب سیاسی لاتعلقی عافیت افروز بن گیی ، جب علاحدگی پسندوں کا نام و پتہ کٹ گیا جب مین سٹریم پارٹیوں نے جم کر قلا بازیاں کیں جب گپکار الاءنس بنا،جب سود سمیت خصوصی پوزیشن واپس لانے کا دعویٰ ہونے لگا۔ جب گپکار الاءنس نے احتجاجا پنچایتی الیکشن نہیں لڑا جب عمر اور محبوبہ نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ یوٹی میں الیکشن نہیں لڑیں گے تو عوامی سطح پر عجیب وغریب خاموشی کے درمیان تین لیڈر الطاف بخار ی ۔سجاد لون اور غلام نبی آزاد حقیقت کا سامنا اور سچ بولنے کےنام پر میدان میں آیے اور اعتماد کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں جٹ گیے۔یہ حضرات تین الگ الگ جماعتوں سے وابستہ ہیں مگر دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد ان میں نظریاتی ہم آہنگی نظر آ یی ۔ تینوں اشخاص کے بارے لو گو ں کا ماننا رہا کہ وہ دلی اور بھاجپا کے قریب ہیں ۔لہذا بدلے حالات میں کچھ حلقوں نے انھیں “امید کی کرن” قرار دیا۔
سجا د لون نے 2014 الیکشن سے پہلے ہی پرایم منسٹر مودی سے مساوات بنایی تھی اور وہ پی ڈی پی بھاجپا کولیشن میں بھاجپا کی مدد سے ہی منسٹر بنے ۔غلام نبی آذاد کانگریس سے ناطہ تو ڈ کر علاقای سیاست میں آیے تو ان کو بھی بھا جپا حمایت یافتہ قرار دیا گیا راجیہ سبھا نشست سے سبکدوشی کے وقت پرایم منسٹر مودی اور آذاد نے باہم جو پیار اور مسکراہٹیں بانٹ دیں اور اسکے فوراً بعد جب آذاد نے پارٹی بنایی تو مقامی طور پر اس واقعہ پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں شروع ہوءییں جن کا لب لباب یہ تھا کہ آذاد اور مودی کشمیر معاملے میں تقریبا ایک ہی پیج پر ہیں ۔رہا الطاف بخار ی تو انھوں نے دفعہ 370 کے خا تمے کے بعد ہی “اپنی پارٹی” کے نام سے الگ سیاسی جماعت بنائی اور میدان میں آکر سچ کی سیاست کرنے کا دعویٰ کیا ۔انھوں نے پرایم منسٹر مودی اور ہوم منسٹر امت شاہ کے پاس آنا جانا شروع کیا اور حالات کی تمازت میں کشمیریوں کو راحت پہنچانے کا بیڑا اٹھا یا ۔وہ اپنی طرف سے جی توڑ کوشش میں رہے کہ کشمیریوں کی کچھ وکالت کا حق ادا کریں ۔ان کے مسایل کا کچھ ازالہ کریں وہ اس مشن پر بھی کام کرتے رہے کہ این سی پی ڈی پی کا سیاسی متبادل پیدا ہو۔ اس غرض کے لیے انھوں نے ممنوعہ جماعت اسلامی وغیرہ کو مین سٹریم میں واپس لانے کا مورچہ بھی سنبھالا ۔ان کا نشانہ دونوں این سی اور پی ڈی پی رہے ۔مگر ان رو جماعتوں نے پلٹ وار کر کر کے یہ بات مشہور کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کہ “اپنی پارٹی”
بھاجپا کی بی ٹیم ہے۔بخار ی کے پاس یہ وزن دار دلیل ضرور تھی کہ دونوں این سی اور پی ڈی پی ماضی بعید اور ماضی قریب میں خود بھاجپا کی اتحادی رہیں لہذا انھیں کسی اور کو مطعون کرنے کا کون سا اخلاقی جواز ہے۔اول نام لگ گیا تھا دوم حالیہ پارلیمانی الیکشن میں جب اپنی پارٹی اور بھاجپا گل مل گیے تو یہ تازہ واقعہ تھا اور اس کے مقابلے میں ماضی کے این سی بھاجپا اور پی ڈی پی بھاجپا اتحاد یا د نہ رہے۔چنانچہ بخار ی کی پارٹی کو شدید دھچکا لگا اور یہ اب شدید داخلی انتشار سے گزر رہی ہے۔ اسی طر ح آذاد کا مستقبل مخدوش ہے اور اس کا ریوڑ بکھر رہا ہے۔
کل تک آذاد ، بخار ی اور سجا د چیف منسٹری کی دوڑ میں شامل بلکہ آگے تھے ۔خیال کیا جارہا تھا ان کے سر پر دلی نے ہاتھ رکھا ہوا ہے اور ان کو اپنی قابلیت بروءے کار لانے اور سیاسی کانسچو نسی کو وسیع کرنے کی کھلی چھوٹ دی گیی ہے حتی کہ اس معا ملے میں کچھ قول و قرار بھی ہو یے ہیں لیکن پارلیمانی الیکشن میں ان کی مایوس کن کارکردگی سے اگر چہ وہ یکسر نظر انداز تو نہیں ہو سکتے لیکن فی الحال کے طور پر ان کا سیاسی بھاؤ کم ہو گیا ہے اور چیف منسٹری د وڈ میں ان کے شامل رہنے کی بات پر خدشات پیدا ہو گیے ہیں۔بارہمولہ الیکشن نتیجہ سے تجزیہ نگاروں نے یہی اخذ کیا کہ الیکشن میں نیی طاقتوں اور نءیے چہروں کےابھر نےکا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔پارلیمانی الیکشن میں سجاد ،ازاد اور بخار ی نے جو نتیجہ دیکھا اس میں ان کی بہت سی خو ش فہمیوں کا جواب ہے ۔اسی بناء پر وہ چپ ہو گیے ۔ان کے ارد گرد جو قد آور لیڈر اور جی حضو ر
کر نے والے تھے وہ راستہ اور نال بدل رہے ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ ان میں سے کوءی ان کی براءی تونہیں کر تا مگر ان کا لب و لہجہ یہ بتایے بناء نہیں رہتا کہ وہ الیکشن ناکامی کو بھا جپا سے نتھی ہو نے کا نتیجہ گردانتے ہیں اور اب سیاسی طور ذندہ رہنے کے لیے دوسرے خیموں کا رخ کر رہے ہیں۔بخاری ،سجاد اور آزاد سے اختلاف کا حق کسی سے چھینا نہیں جاسکتا ہے ۔وہ بشر ہیں غلطیاں کرسکتے ہیں ۔ لیکن وہ قابلیت اور اچھے صفات کے مالک ہیں ۔وہ کشمیریوں کی مو ثر آواز بن سکتے ہیں ۔بول چال اور دلیل سے اپنی با ت منوا سکتے ہیں۔لیکن اج وہ اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں باہر سے ان کی ناز برداری ہونے کی ذیادہ امید نہیں ہے ۔چیف منسٹری کی دوڑ میں ان کا اب بھی ہو نا تو دور کی بات آج ان کی سیاسی بقا مو ضو ع بحث ہے۔الیکشن سر پر کھڑا ہے۔ان کے ہم پیالہ و ہم نوالہ دوسرے خیموں میں بھاگ رہے ہیں ۔لہذا تینوں حضرات پر مشکل وقت آپڑا ہے۔ان کی بصیرت اور دانشمندی کا امتحان ہے۔ ان کی سیاسی بقا کا فیصلہ اسمبلی چناؤ ہی کر سکیں کے ۔