الیکشن کمیشن کی طرف سے جموں کشمیر کے لئے انتخابی شیڈول کا اعلان کرتے ہی پورے خطے میں سیاسی حلقوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں ۔ بلکہ دہلی میں بھی اس وجہ سے اتھل پتھل پائی جاتی ہے ۔ بی جے پی نے اپنے تمام لیڈروں کو مشورے کے لئے دہلی طلب کیا ہے ۔ کانگریس نے فوری طور پردیش کانگریس کے لئے نئے صدر کا اعلان کیا جس سے پارٹی ہیڈکواٹر پر جشن کا سماں دیکھا گیا ۔ اس دوران کئی سیاسی لیڈروںنے دوسری پارٹیوں سے ناطہ توڑ کر کانگریس میں واپس شمولیت اختیار کی ۔ جبکہ کئی رہنمائوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔ کئی دوسرے کارکن این اور عوامی اتحاد پارٹی کا رخ کررہے ہیں ۔ سب سے چونکا دینے والی خبر اس وقت سامنے آئی جب سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ گردش کرنے لگا کہ کانگریس سے علاحدہ ہوئے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزادگھر واپسی کا پروگرام بنارہے ہیں ۔ یاد رہے کہ آزاد نے درجن بھر بڑے لیڈروں کے ہمراہ کانگریس سے استعفیٰ دے کر اپنی علاقائی پارٹی تشکیل دی ۔ تاہم انہیں اس وقت مایوسی ہوئی جب حالیہ پارلیمانی انتخابات میں لوگوں نے ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ دینے سے انکار کیا ۔ اس طرح سے ایک بار پھر جموں کشمیر میں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کا ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی میں شامل ہونے کا سلسلہ جاری ہے ۔
ہر بڑے الیکشن سے پہلے سیاسی حلقوں میں اتھل پتھل کا شروع ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ خاص طو سے ر اس موقعے پر پارٹیاں بدلنے کا رجحان شروع ہوجاتا ہے ۔ آنے والے اسمبلی انتخابات کے حوالے سے بھی اس طرح کا سلسلہ جاری ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سیاسی لیڈر کل تک جس پارٹی کو عوام دشمن ہونے کا الزام لگارہے تھے آج اسی پارٹی میں شامل ہورہے ہیں ۔ عوامی رجحان کو دیکھتے ہی لوگ ان پارٹیوں میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کامیابی کے زیادہ امکانات نظر آتے ہیں ۔ حالانکہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران کشمیر میں عوام نے روایتی سیاسی جماعتوں کو ووٹ دینے سے احتراز کرتے ہوئے سیاسی پنڈتوں کو حیران کرکے رکھ دیا ۔ صحیح ہے کہ یہاں این سی نے دو اہم نشستوں پر کامیابی حاصل کی ۔ تاہم شمالی کشمیر میں پارٹی شکست فاش سے دوچار ہوگئی ۔ اس صورتحال کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا کہ این سی دوسری جماعتوں پر سبقت حاصل کرے گی دور اندیشی کا فیصلہ نہیں ہے ۔ لوگوں کا فیصلہ کچھ بھی ہو تاہم اس بات کی حمایت نہیں کی جاسکتی کہ سیاسی لیڈر ہر موڑ پر یو ٹرن لے کر اپنے حلقے بدل دیں ۔ اس طرح کی گندی سیاست سے پورا سیاسی نظام ہی آلودہ ہوجاتا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی ان بھگوڑوں کا استقبال کرنے کے لئے ہمیشہ ہی تیار ہوتی ہیں ۔ پہلے اس طرح کی اچھل کود انتخابات جیتنے کے بعد بھی نظر آتی تھی ۔ اسمبلی ممبر اپنی پارٹی کو چھوڑ کر حکومت بنانے والی پارٹیوں میں شامل ہوتے تھے ۔ بلکہ کسی حکومت کو گرانے اور نئی حکومت بنانے کے لئے بھی اس طریقے کو اختیار کیا جاتا تھا ۔ بعد میں اس طرح کی دل بدلی کے خلاف قانون بنایا گیا اور ایسے ممبران کی رکنیت ختم ہونے کا اعلان کیا گیا ۔ اب ایسا خال خال ہی ہوتا ہے ۔ تاہم الیکشن سے پہلے گرگٹ کی طرح لوگ اپنا رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔ اس سے پورا سیاسی منظر نامہ ہی داغ دار بن جاتا ہے ۔ لوگ اس طرح کی دل بدلی کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے خلاف کوئی قانون یا ضابطہ اخلاق نہیں پایا جاتا ہے ۔ الیکشن سے پہلے ایک پارٹی سے نکل کر دوسری پارٹی میں شامل ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ قانون سازی ہو یا نہ ہو تاہم الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے سوچ بچار کرنا چاہئے ۔ کوڈ آف کنڈکٹ میں جہاں کئی بہتر اصول وضوابط پائے جاتے ہیں وہاں اس طرح کی دل بدلی کے لئے پابندی یا کم از کم ٹائم فریم شامل کرنے کی ضرورت ہے ۔ امید ہے کہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھایا جائے ۔ عوام اس کی بڑے پیمانے پر حمایت کریں گے ۔ کوڈ آف کنڈکٹ میں انتظامی امور کے حوالے سے کئی طرح کی پابندیاں پائی جاتی ہیں ۔ ملازمتوں کی بھرتی اور سرکاری اہلکاروں کی تبدیلیوں پر مکمل پابندی پائی جاتی ہے ۔ اس سے پہلے اکثر عبوری انتظامیہ پسند کے آفیسر لاکر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی تھی ۔ بعد میں اسے ایک ناپسندیدہ عمل قرار دے کر ایسے اقدامات پر مکمل پابندی لگادی گئی ۔ اسے انتخابات کو معتبر بنانے کی کوشش کی گئی ۔ بلکہ اس کی بڑے پیمانے پر حمایت کی جاتی ہے ۔ اسی طرز کا ایک اصول بنانے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات سے کچھ عرصہ قبل سیاسی دل بدلی پر روک لگائی جاسکے ۔ الیکشن کمیشن ایسا قدم اٹھائے تو اس سے انتخابی عمل کو مزید صاف وشفاف بنانے میں مدد ملے گی ۔ انتظامی اہلکار اتنا انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوتے جتنا دل بدلی سے الیکشن آلودہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ بڑا گندہ کام ہے کہ سیاسی لیڈر انتخابی شیڈول سامنے آنے کے بعد بھی اپنی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے ہیں ۔ جو کارکن ایسے اہم مرحلے پر اپنی وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں وہ عوام کے مفادات میں مخلص نہیں ہوسکتے ہیں ۔ اس طرح کی سرگرمیوں پر روک لگانے کی اشد ضرورت ہے ۔