ش م احمد سری نگر
7006883587
جناب عمر عبدا للہ صاحب!
السلام علیکم
آپ محترم کو ‘ این سی صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ ‘ انڈیاالائنس کے قائدین اور قانون ساز اسمبلی کے نومنتخبہ ارکان کو الیکشن میں قابل قدر کامیابی پردل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد اور نیک خواہشات کا نذعانہ
ا س دعا کے ساتھ پیش کررہاہوں کہ آپ سب کو جموں کشمیر کی ماند پڑی رونقیں دوبارہ بحال کرنے کی بارگاہ ِ ایزدی سے توفیق ملے۔
نامزد وزیراعلیٰ صاحب:
آپ کو یہ بتانے کی چنداں کوئی ضرورت نہیں کہ الیکشن میں نہ جیت کوئی مستقل چیز ہوتی ہے کہ ہمیشہ کسی فرد یا جماعت کی مقدر بنی رہے ‘ نہ ہار کوئی ناقابلِ تغیر حالت ہوتی ہے کہ اس کا ڈ سا ہو اہر دفعہ فتح و
کامرانی سے لازماً محروم رہے ۔ اس لئے میرے ادنیٰ خیال میں کسی کو اپنی جیت پر اِترانا چاہیے نہ کسی کو اپنی ہار سے نااُمید و مایوس ہونا چاہیے۔ آج تک سیاسی دنیا میں یہی چلن دیکھا گیا کہ کبھی کسی اُمیدوار یا جماعت کا اقبال عروج پر رہتا ہے ‘کبھی کسی کا مقدر زوال وذلت کی زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے۔ عام طور پر سیاسی عروج وزوال کی کہانیاں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ ایسی کہانیاں زیادہ تر حالات وحوادث کی کھیتی میں اُگتی ہیں ‘ ضروری نہیں کہ اس فصل کی کٹائیاں کسی لگے بندھے موسم کی پابند ہوں‘ بسااوقات زمانے کے اُلٹ پھیر اور اتفاقی حادثات کی کرم فرمائی سے بھی ان کا بیچ خود بخود پلاٹ ‘ کرداراور کلائمکس میں ڈھل کر کھڑی سیاسی فصل کی شکل اختیارکرتا ہے ‘ پھر پرانت پرانت کے سیاست دان اپنے مفاد کے لئے پکی فصل کی کٹائی میں لگ جاتے ہیں ‘ وہ رائے عامہ کی سیلزمین شپ میںا پنی مارکیٹنگ کہیں نعرہ بازی کے شور وغوغا سے ‘ کہیں جملہ بازیوں کے ہنر سے ‘ کہیں مکمل خاموشی کے پردوں میں چھپ کر کر تے ہیں۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے جو کبھی منافع بخش ثابت ہوتا ہے اور کبھی نقصان وہ۔ انتخابی سیاست کی کاشت کاری بھی زیادہ تر مسائل اور معالات کی اسی بوائی کٹائی کے چکرسے مشروط ہوتی ہے ۔ میری سمجھ میں آپ کی تازہ شاندار وجاندار کامیابی بھی اگر اسی بوائی کٹائی کے زاویہ ٔ نگاہ سے دیکھی جائے تو شاید یہ کہنا قرین انصاف ہوگا کہ نیشنل کانفرنس سمیت کشمیرکی کم وبیش تمام علاقائی پارٹیوں نے انتخابی وعدوں کے اپنے اپنے باورچی خانے میں دفعہ ۳۷۰ کے فصل سے خیالی پکوان بنانے اور قیاسی دسترخوان بچھانے کا خوب چرچاکیا ‘ پھر صلائے عام دی آیئے ہمارے حق میںووٹ کی پرچی ڈال کر خلائی خوان کا مزا لیجئے۔ سیاسی پکوانوں کےاس غل غپاڑے میںعوام نے صرف این سی کے منشوری عہدنامے پر مکمل اعتماد کیااور یہ توقع قائم کی کہ صرف آپ ان کی کھوئی ہوئی شناخت کی بازیابی کر نے کےاہل ہیں ۔ حالانکہ آپ کے والد گرامی ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پولنگ سے قبل ہی صاف کردیا تھا کہ یہ کام راتوں رات ہونے والانہیں بلکہ ہم سوسال تک ریاست کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے اسی طرح مسلسل کشمکش کرتے رہیں گے جیسے اسے ختم کر نے والوں پچاس ساٹھ برس تک جہد ِمسلسل کی ۔ بالفاظ دیگر یہ معاملہ طویل مدتی سیاسی اور قانونی جدوجہد پر محیط ہے جس کا فوری ثمرہ ملنا بعیدازامکان ہے۔ لوگوں نے اُن کی بات مان لی۔
جناب عالی !
یاد کیجئے ستمبر۲۰۱۴کی اُن ڈراؤنے ایام کو جب کشمیر کے طول وعرض میں تباہ کن سیلاب آیا ہواتھا۔یہ سیلا ب واقعی ہم سب پر نامہربان قدرت کی قہر مانی تھی۔اس نے جہاں وادیٔ کشمیر پر نحوست کا بینڈ بجادیا‘ وہی حالات وحوادث کی تاک میں بیٹھی پی ڈی پی کو کشمیر کی سیلاب زدہ کھیتی میں اپنی سیاسی کاشت کاری کا بھر پور حوصلہ دیا ۔ تاریخ کا یہ بھیانک سیلاب ان دنوںاہل ِ کشمیر کے رواں رواںپر بھاری پڑ رہاتھا مگر اپوزیشن پی ڈی پی نے موقع موسم اوردستور دیکھ کر آپ جناب کی’’ عدم موجودگی‘‘ پر واویلا کرکے رائے عامہ اپنے حق میں کر نے کا بیڑہ اُٹھایا تاکہ کشمیری عوام میںا پنی ہم نوائی کا گراف بڑھا سکے اور نیشنل کانفرنس کی مقبولیت پر بھٹہ لگائے ۔ ا س کا تیر نشانے پر لگا۔ دس سال پرانی اس سیاسی کہانی کا حوالہ دینے کا مقصد یہ بتاناہے کہ کبھی کبھی اَن دیکھے حالات اور اچانک حادثات وہ کام کر جاتے ہیں جن کے لئے سالوں تک پھیلے بڑے بڑے منظم منصوبے بھی نہیں بے نتیجہ رہتے ہیں۔ اُن دنوں اُدھرآپ کی وزارت ِاعلیٰ کی مدت قریب الاختتام تھی ‘ اِ دھر لگ بھگ سوسال بعدکشمیر کےکوہ دمن ایک تباہ کن سیلاب میں ڈوبا ہواتھا ‘ جہلم سمیت تمام ندی نالوں اور جھیلوں میں بدترین سیلاب امڈآ یا تھا ِ‘ انسان غرقاب ہورہے تھے‘ بستیاں اُجڑ رہی تھیں ‘گھر گر رہے تھے‘ لوگ خوردو نوش کی اشیا سے محروم ہورہے تھے۔ ایسے ہنگامی حالات میں لوگ امداد باہمی کے تحت اپنوں اور غیروں کی جانیں بچانے میں رضاکارانہ طور میدان ِ عمل میں کودے ہوئے تھے مگر سرکاری ڈزاسٹر منیجمنٹ کا سارا نظام درہم برہم ہوچکا تھا ‘ ریاستی انتظامیہ بھی بوجوہ حالات کے سامنے بے دست وپا ہوکر رہ گئی تھی ‘ اس کے کل پُرزے مفلوج ہوکر نظروں سے اوجھل تھے‘ نتیجہ یہ کہ حکومتی سطح پر بچاؤ کارروائیوں میں عدم فعالیت کا تاثر تقویت پاگیا اور وزیراعلیٰ ہونے کے ناطے اس کا ٹھیکرا آپ کے سر پھوڑا گیا۔ چونکہ اتفاق سے یہ الیکشن کا سال تھا اورanti – incumbancy کے علاوہ گھمبیر سیلابی صورت حال میں نیشنل کانفرنس کی سیاسی شبیہ داغ دار کر نے میں پی ڈی پی نے اپنی معاندانہ کاوشیں جاری رکھیں۔ آپ بھی اس تلخ حقیقت سے غافل نہ تھے۔ کشمیر میں سیلاب کی وسیع ترین تباہ کاریوں کے پس منظر میں آپ نے اسمبلی انتخابات کو بجا طور کچھ ماہ کی تاخیر سے کرنے کا معقول موقف اپنا یا تاکہ حکومت کی توجہ عوامی راحت رسانی کے ٹھوس اقدامات پر مرکوز رہیں اور آگے سیلاب متاثرہ لوگ مسائل اور غموں کا بوجھ ہلکا کر کے آرام سے پولنگ میں شریک وسہیم ہوں مگر دلی میں آپ کے اس موقف کی پذیرائی نہ ہوئی۔ آپ کی حریف پی ڈی پی لوہے کو گرم دیکھ کر اپنا ہتھوڑا مارنے کے فراق میں تھی ‘ وہ اس بات کی وکالت کرنے لگی کہ الیکشن کسی قیمت پر موخر نہ کئے جائیں ۔ اس نے سیلابی ریلوںکی نذر ہوئے لوگوں کے جذباتی نفسیاتی اور معاشی دھچکوں کو درکنار کر کے الیکشن وقت پر کا راگ الاپنا جاری رکھا۔ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن نے ریاستی اسمبلی الیکشن کا اعلان کیا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ جموں کشمیر اسمبلی میں آپ کی نشستیں کم ہوئیں ‘ پی ڈی پی کا پلڑہ بھاری ہوا‘ جموں میں بھاجپا کو پچیس سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ آپ کی پارٹی نے رزلٹ آنے کے بعد کوئی دیر کئے بغیر عوامی جذبات کے احترام میں مفتی محمد سعید کو اپنی حمایت کی غیر مشروط پیش کش کی تاکہ بی جے پی کو ریاستی حکومت کا حصہ بنےسے باز رکھا جاسکے‘ بلکہ حکومت سے باہر رہ کر حمایت کی آفر کو بھی پی ڈی پی نے شان ِ بے نیازی سے ٹھکرایا۔ پھر ریاست میں کیا کیا ہو ا‘ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ آخر ش بی جے پی نےمحبوبہ مفتی صاحبہ کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ‘ ریاست میں گورنر راج نافذ کیا گیا‘ چلتے چلتے ۵؍اگست ۲۰۱۹ کی صبح کو دفعہ ۳۷۰ کی تنسیخ کا پارلیمنٹ میں ایک تاریخ ساز فیصلہ لیا گیا ۔ آگے کی کہانی کے آپ کے ساتھ ساری ساتھ دنیاعینی گواہ ہے ۔
آج آپ کے انتخابی اتحاد کو کشمیر نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور کسی حد تک جموں کے لوگوں نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ آپ کو جو بھاری عوامی منڈیٹ ملا ہے‘ اسے آپ کارگاہِ قدرت کی جانب سےایک بلیغ اشارہ سمجھیں کہ پھر ایک بار آپ آزمائش کے پُل ِصراط پر لاکھڑے کئے گئے ہیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ آپ جموں کشمیر کی نیا پار لگاتے ہیں یا صرف اقتدار کے مزے لوٹ کر وہی پٹ کتھا لکھ ڈالتے ہیں جو آج تک یہاں کے اکثر حکمرانوں نے لکھ لکھ کر اپنی عمریں تخت وتاج کے عیش کدے میں گزاریں اور عوام کے دکھ درد بانٹنے یا اُن کے چھوٹے بڑے مسائل حل کر نے سےاعراض کیا۔ میری ذاتی رائے میں آپ چونکہ دس سال تک کرسی سے باہر رہ کر زمانے کا بہت سارا سردگرم دیکھ چکے ہیں‘ اس لئے امید ہے آپ عوام کے زخموں اور جذبات کا پاس ولحاظ کرکے ان کے اعتماد کی کشتی کو کبھی ڈگمگا نے نہیں دیں گے ‘ آپ اُن کی معصوم توقعات پرپورا اُترنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ‘ بلکہ مجھے کہنے دیجئے کہ تاریخ کی نگاہوںکو اس بدنصیب سرزمین کی رہبری اور رفاقت کے لئے جس قدر آور رہنما دیکھنے کی حسرت ہے‘وہ آپ اپنی بے تکان محنتوں اور مثالی سیاست دانی سے دیکھنا نصیب کریں گے۔
جناب والا!
یہ ایک کھلاراز ہے کہ اسمبلی انتخابات میں آپ نے کانگریس سے مل کر جو متاثرکن کارکردگی دکھائی ‘ اُ س کا توڑ کم ازکم کشمیر کی حدود میں بی جے پی‘ پی ڈی پی‘ اپنی پارٹی‘ پیپلز پارٹی‘ آزاد پروگریسیوڈیموکریٹک پارٹی‘ عوامی اتحاد پارٹی‘ جماعت اسلامی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں‘ ووٹ کٹوا آزادکنڈیٹوں کی فوج وغیرہم مل کر بھی نہ کرسکے‘ کیونکہ عوام کی ناقابلِ شکست قوت آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ یاد رکھئے جن لوگوں نے این سی کو اس بار اپنے اعتماد اور یقین کے قابل سمجھا ‘اُن میں آپ کی پارٹی کے جان نثارورکر اور دیرینہ ووٹر ہی شامل نہیں بلکہ وہ خاموش اکثریت بھی آپ کی ہم نوائی میں پیش پیش رہی جو کشمیر میں زور زبردستی کے کلچر‘ سیاسی گھٹن‘ بے روزگاری ‘ مہنگائی‘ کساد بازاری‘ رشوت ستانی‘ بدنظمی ‘ منشیات کی بدترین وبا‘ عوام کو مسلک اور دوسرے تقسیمی خانوں میں بانٹ کر اُنہیںآپس میں بلاوجہ لڑانے کی سازشوں کا خاتمہ چاہتی ہے‘ جو یہاں کی جواں نسل سے مزاریں اور جیلیں آباد کر نے کے بجائے نئے کشمیر میں اسکولوں ‘ کالجوں کے علاوہ خالی پڑی سر کاری ونیم سرکاری ملازمتوں پر بھرتیاں کروانےاور کاروباری ترقی کے نئے امکانات تلاشنے میں آپ سے بھر پور سیاسی و اینڈمنسٹریٹوقیادت کے خواست گوار ہے ۔ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ پُر آشوب حالات نے آپ پر یہ بھاری ذمہ داری بھی عائد کی ہوئی ہے کہ جو لوگ کسی ہلکی سی غلطی‘ لغزش یا معمولی سطح کے نقصِ جرم میں جیلیں کاٹ رہے ہیں ‘ انہیں از راہ ِ انسانیت جیل کی کال کوٹھریوں سے چھٹکارادلائیں ‘ جن کی پولیس ویری فکیشن فائیلیں متعلقہ دفاتر میں سالوں سے دُھول چاٹ رہی ہیں ‘ ان پرجلد کارروائی کا بندوبست کرائیں ‘ جن کے پاسپورٹ معطل یا منسوخ کئے گئے ہیں ‘ اُن کے کیسوں پر ہمدردانہ نظرثانی کروایا جائے ۔ان سارے معاملوں میں ایسی تازہ دم اور امن پرورانہ پالیسی اختیار کی جائے کہ کسی شہری کی زندگی خواہ مخواہ اجیرن نہ ہو کر رہے ۔ آپ کی انتخابی جیت کی وزیراعظم مودی جی نے بھی بہت سراہنا کی ہے ۔ اُمید کی جانی چاہیے اس میں بین السطور یہ پیغام چھپاہے کہ جموں کشمیر کے وسیع تر مفا دمیں مرکز کی طرف سے نرمی‘ معاملہ فہمی اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے گا ۔ لوگ دل سے چاہتے ہیں کہ یہاں دلی سےمحاذ آرائی کے بجائے دوطرفہ دوستانہ افہام وتفہیم کو تقویت ملے جیسے ہمسایہ ملکوں کے تئیں بھی سرد مہری کی پگھلنے لگی ہے ۔
بہر صورت سٹیٹ ہُڈ کی بحالی آپ کی اولین سیاسی ترجیح ہونی چاہیے۔ ا س سلسلے میں آپ کو بی جے پی جموں کی صورت میں اپوزیشن کے مضبوط قلعے کو بھی بہ دلائل قائل کر نا ہوگا کہ کشمیر کے دل کو دلی سے ملانے کے مودی فلسفے کو عملانے کے ضمن میں یہ کام بہترین موقع فراہم کرتا ہے ۔ یہ کام جتنا جلدی ہو اتنا ہی جموں کشمیر کے عوام کے لئے بہتر ہے ۔ اس کے علاوہ دربار مو کے نظام کو پھر سے رائج کر واکے جموں کے عوامی اور کاروباری حلقوں کے تئیں آپ کو حساس ہونا وقت کی اذان ہے ۔ میرا یہ مکتوب اور کئی باتیں قلم بند کر نے کا متقاضی ہے مگر طوالت آڑے آرہی ہے ۔ البتہ یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ جس طرح آپ نے اپنی ٹوپی کا واسطہ گاندربل میں اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر تے ہوئے دے کر لوگوں سے اپیل کی کہ اس کی حفاطت کریں ‘ اورلوگوںنے آپ کی مبارک ٹوپی کی جگہ آپ کو تاجداری کا شرف بخشا۔ اب آپ کو بھی اپنے ووٹروں اور عوام کے تمام طبقات کی ٹوپیوں اور سرچادروں کی تعظیم کر تے ہوئے آنے والے پانچ سال میں جموں کشمیر کو امن و آشتی کا گہوارہ ‘ تعمیروترقی کا مرکز اور بقائے باہم کی کامیاب تجربہ گاہ بنانے میں رات دن کام کر کے شیر کشمیر ثانی ہونے کا سکہ دلوں میں بٹھانا ہو گا۔
