حالیہ اسمبلی انتخابات میں این سی سب سے بڑی پارٹی کے طور ابھر کر سامنے آئی ہے اور حکومت بنانے کی تیاریاں کررہی ہے ۔انڈیا بلاک کے ساتھ مل کر اس نے 90 نشستوں پر مشتمل اسمبلی میں 49 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ۔ اس طرح سے اتحاد کو حکومت بنانے کے لئے ضرورت سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی ہیں ۔ ادھر وزیراعظم نے این سی کی اس کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مبارکباد پیش کی ہے ۔ اشارہ دیا گیا کہ مرکز نئی حکومت بنانے کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور عوامی رائے کا احترام کرے گی ۔ کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کمزور ہوگی اور اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہونگے ۔ وزارت داخلہ نے انتخابات سے پہلے ہی بلکہ انتخابی عمل کے دوران بھی یوٹی کے لئے بننے والی حکومت کے اختیارات محدود کئے ۔ اس طرح سے نئی سرکار کے پرکاٹ کر اس کی پرواز حد میں رہنے کے کئی اقدامات کئے ۔ تاہم بہت سے امور میں حکومت خود مختار ہوگی اور عوام کو راحت پہنچانے کے لئے اقدامات کر سکتی ہے ۔ یہ طے ہے کہ حکومت بنانے میں این سی کا کلیدی رول ہوگا اور نئی حکومت اسی پارٹی کے اشاروں پر کام کرے گی ۔ این سی نے الیکشن سے پہلے ایک مدلل انتخابی منشور سامنے لایا ۔ اس منشور کو تیار کرنے میں کئی سینئر لیڈروں نے دن رات کام کیا ۔ بلکہ پارٹی کارکنوں اور عوامی حلقوں سے رائے طلب کرکے یہ منشور تیار کیا گیا ۔ بعد میں منشور پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے منظر عام پر لایا ۔ منشور کو بڑے پیمانے پر تشہیر دی گئی ۔ یہاں تک کہ مرکزی سرکار کے کئی اہم عہدیداروں نے این سی منشور پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ۔ یہاں تک کہ وزیراعظم نے اسے جھوٹ پر مبنی الیکشن پروپگنڈا قرار دیا ۔ منشور میں کئی ایسے وعدے کئے گئے جو عوام کے لئے بہت ہی دلچسپ اور دلکش ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے کشمیر کے لوگوں نے تمام ان پارٹیوں کو مسترد کیا جو الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور این سی کے ایجنڈا پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اپنا ووٹ اسی پارٹی کے حق میں استعمال کیا ۔
این سی نے اپنے انتخابی منشور میں جو وعدے کئے ہیں ان میں بیشتر ایسے وعدے ہیں جو مرکزی سرکار کے تعاون کے بغیر پورے نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔ تاہم منشور میں ایسے کئی چھوٹے بڑے وعدے ضرور ہیں جن کو یوٹی سطح پر طے کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ ایسے وعدے زیادہ تر غریب عوام کے کہنے پر منشور میں دہرائے گئے ہیں اور ان کا برا فائدہ پسماندہ طبقوں کو مل سکتا ہے ۔ لیکن یہ جب ہی ممکن ہے کہ ان وعدوں کو حکومت بنانے کے بعد یاد کیا جائے ۔ ایسے وعدوں میں غریب لوگوں کے لئے مفت گیس اور بجلی کے دو سو یونٹ شامل ہیں ۔ این سی کی طرف سے منشور میں دعویٰ کیا گیا کہ عوام کو کسی تفریق کے بغیر بجلی کے دو سو یانٹ ب فراہم کئے جائیں گے ۔ بہ ظاہر یہ کوئی بڑا وعدہ نہیں ہے جس کو حاتم طے کے اقدام کے طور لمبے عرصے کے لئے یاد کیا جائے گا ۔ تاہم اس وعدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ یاد رہے کہ یوٹی انتظامیہ نے کچھ عرصے قبل کشمیر میں سمارٹ میٹر نصب کرنے کا اعلان کیا ۔ اس اقدام کا مقصد مبینہ طور بجلی کی چوری وک روکنا ہے ۔ اس دوران بجلی کی فراہمی اور بجلی فیس کی ادائیگی میں یکسانیت لاتے ہوئے اس کے لئے پہلے سے مقررہ اسکیل کو ختم کیا گیا ۔ پہلے غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزارنے والے گاہکوں کے سے ان کی مالی طاقت کے مطابق بجلی فیس وصول کیا جاتی تھی ۔ لیکن یہ نظام بدل کر تمام گاہکوں سے یکسان فیس وصول کرنے کی نئی اسکیل بنادی گئی ۔ بجلی فیس میںاس طرح کی یکسانیت نے غریبوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ یقین جانئے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ فیس آسانی سے اداکرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے اتنی بھاری فیس ادا کرنا ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ تنخواہ دار طبقہ کسی نہ کسی طرح سے فیس ادا تو کرتا ہے ۔ تاہم مزدور طبقے کے لئے بجلی فیس کی ادائیگی ایک بڑی مصیبت بن گئی ہے ۔ نئی سرکار کے لئے ضروری ہے کہ بجلی فیس کے حوالے سے غریب کو راحت فراہم کی جائے ۔ بجلی فیس میں یکسانیت لانے سے کوئی خاص مسئلہ حل نہیں ہوا ہے ۔ یہ ہر گز کوئی معقول قدم نہیں ہے ۔ غریب عوام نے اس اقدام کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی ۔ تاہم ان کی آواز پر کسی نے کان نہیں دھرا ۔ لوگوں کے اس طبقے کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا رہاہے ۔ ان کی آواز اور ان کی ضروریات پورا کرنے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ اب این سی نے ان کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں بجلی کے دو سو یونٹ مفت فراہم کرنے کی بات کی ہے ۔ ایسا کیا گای تو غریب عوام واقعی طور بڑی راحت محسوس کریں گے ۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ مرکزی سرکار سے مدد حاصل کی جائے ۔ یہ این سی کا قصور ہے کہ اس نے بہت پہلے یہاں کے کئی بجلی پروجکٹ مرکزی سرکار کو سونپ دئے ۔ اس وجہ سے کشمیر میں بجلی کا بڑا بحران پایا جاتا ہے ۔ اب ضرورت ہے کہ اس حوالے سے قدم اٹھاکر غریب عوام کو راحت پہنچائی جائے ۔ بصورت دیگر یہی کہا جائے گا کہ عوام نے ایک بار پھر این سی کے انتخابی منشور پر بھروسہ کرکے بڑی غلطی کی ۔
