جہاں زیب بٹ
شاندار جیت درج کر نے کے ساتھ ہی نامزد وزیراعلی عمر عبداللہ کا لب و لہجہ نرم پڑگیا ہے اور وہ الیکشن مہم کے برعکس اب باجپا سر کار کے ساتھ مفاہمت کی وکالت کرر ہے ہیں ۔الیکشن جیتنا ان کے لیے سیاسی موت وحیات کا مسلہ تھا ۔انتخابی معرکہ سر
ہو نے کے بعد انھوں نے حسب تو قع حقیقت کا سامنا کرناشروع کیا ہے اور وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ نیی سرکار کو مرکزی سر کار کے ساتھ کویی تنازعہ روا نہیں رکھنا چاہیے۔ بلکہ اسے دلی کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے پر توجہ مبذول کر لینی چاہیے ۔مبصرین کی متفقہ راے ہے کہ یوٹی کی جمہوری حکومت کمزور ہو گی ۔ وہ مرکز سے پنگا مول لینے کی متحمل نہیں
ہو سکتی ۔ لہذاخیر سگالی کا مظاہرہ ہی بہتر ہے البتہ عمر عبداللہ کا مسلہ ہے کہ انھوں نے بڑے وعدوں سے بھاری منڈیٹ حاصل کیا ۔ان وعدوں پر وہ کتنا اتریں گے وہ تو الگ بحث ہے لیکن تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ تنازعہ کی صورت پیدانہ ہو نے دینے کا دعویٰ کر نا آسان نہیں ہے ۔کیوں کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے این سی اور باجپا کے نفش راہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ عمر عبداللہ نے اعلان کیا ہے کہ نیی حکومت کے پہلے ہی کابینہ اجلاس میں ریاستی درجہ بحال لکر نے کی سفارش کی جایے گی ۔اس طرح کے دیگر انتخابی وعدوں پر جیسے جیسے عمل درآمد کی کو شش ہوگی تو ضرور این سی حکومت کی سوچ کا دھارا مرکز کی سوچ کے مخالف سمت بہنے کا اشارہ ملے گا اور ازخود کشمکش کو مواد ملے گا۔اس پس منظر میں ا نجینیر رشید نے تجویز دی تھی کہ ریاستی درجہ کی بحالی سے پہلے حکومت بنانے سے ہی انکار کیا جایے لیکن عمر عبداللہ نے اس کو بھاجپا کی چال کہہ کر ٹھکرادیا۔بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ممکن ہے مفاہمت کے لیے کچھ لو کچھ دو اصول ثمر بار ثابت ہو ۔ان کی دلیل یہ ہے کہ تازہ عوامی منڈیٹ علاقایی تقسیم کا مظہر ہے۔جموں کی نمایندگی ضروری ہے۔چنانچہ یہ حلقے ہر خطہ اور ہر سیاسی حلقہ کی نمایندگی پر مبنی کل جماعتی حکومت کی تشکیل کا فارمولہ تجویز کررہے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس قدم سے سیاسی استحکام کی شاہراہ کھل سکتی ہے اور جایز مطالبات منوانے کی جدوجہد بھی آسان ہو گی۔
