ڈاکٹر جی ایم بٹ
جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے لئے ہوئے الیکشن 2024 کا باب بند ہوچکا ہے ۔ ووٹ شماری کے بعد جیتنے والے امیدواروں کا اعلان منگل کو کیا گیا ۔ انڈیا بلاک نمایاں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے کی طرف برھ رہا ہے ۔ ان انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدار ہونے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا ۔ ہارنے والے امیدواروں نے اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے لوگوں کی رائے کا احترام کرنے کا اعلان کیا۔ اس طرح سے ایک ہموار جمہوری عمل کی تائید کرتے ہوئے خوش آئند ماحول بنانے میں مدد فراہم کی گئی ۔ انتخابات کے دوران اور بعد میں جہاں مختلف اداروں کی طرف سے انتخابی جائزے پیش کئے گئے اور Exit Poll بھی سامنے آئے وہاں روزنامہ چٹان کے 27 نومبر کے جمعہ ایڈیشن میں کولگام کے حوالے سے ایک مضمون شایع ہوا ۔ مضمون بہ ظاہر کولگام حلقے کا اجمالی جائزہ تھا ۔ لیکن اصل میں جمعہ کی مناسبت سے مضمون میں وہاں موجود مذہبی حلقوں کا الیکشن میں رول بتایا گیا تھا ۔ یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ کولگام میں کئی افراد نے اس مضمون کو سنجیدگی سے پڑھا اور اس میں کئی طرح کی خامیوں کی نشاندہی کی ۔ یہ دیکھ کر بڑی حیرانی ہوئی کہ مضمون کے حوالے سے بات کرنے والے کئی نوجوان نہ صرف مذہبی باریکیوں سے واقف ہیں بلکہ صحافتی نزاکتوں اور اس کی موشگافیوں سے ہم سے زیادہ باخبر ہیں ۔ یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ وہ صحافت کے بجائے ایسی جگہوں پر کام کررہے ہیں جہاں ان کی یہ صلاحیتیں دب کر رہ گئی ہیں ۔ اس وجہ سے وہ اپنی صلاحیتوں کا مظا ہرہ کرنے سے قاصر ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسے نوجوان مذہب پر بہت زیادہ ایمان اور عمل رکھنے کے باوجود تنگ نظر ہیں نہ بد تمیز ۔ بلکہ یہ نوجوان شائستہ انداز میں اپنی بات پیش کرنے کا بہتر سلیقہ رکھتے ہیں ۔ مضمون سے پہلے ایسے نوجوانوں کے ساتھ تعارف نہ ہونا اور ان کا چٹان فیکلٹی سے دور ہونا ہماری بدقسمتی ہے ۔ مضمون کے حوالے سے سب سے پہلی رائے میر یاور نامی کسی نوجوان نے پیش کی ۔ انہوں نے اپنے ای میل میں قادیانیوں کے حوالے سے دی گئی انفارمیشن کو غلط بتایا اور اصل حقایق سے آگاہ کیا ۔ جس پر جہاں میر یاور کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ کیا گیا وہاں ان کے اعتقاد کے حوالے سے بھی ضمنی تبصرہ آیا ۔ اس کے باوجود میر یاور نے کسی بات کا برا نہیں منایا اور اعداد و شمار سے یہ ماننے پر مجبور کیا کہ ان کی بات صحیح ہے اور ہماری غلط ۔ کولگام کے جن دیہات کو زیر بحث مضمون میں قادیانیوں کا گڑھ بتایا گیا وہاں اصل میں بہت کم یا سرے سے کوئی قادیانی نہیں ۔ بلکہ دوسرے دیہات میں ان کی تعداد نسبتاََ زیادہ ہے ۔ میر یاور نے اسی حوالے سے بات کی اوراپنی بات درست ثابت کی ۔ اس دوران دوسرے فاضل دوستوں نے بھی سرزنش کی کہ الیکشن میں مذہبی حلقوں کی تاریگامی کے ساتھ وابستگی کو Generalise کرنا مناسب نہیں ۔ بلکہ ایسے حلقوں نے دوسری پارٹیوں کے حق میں بھی اپنا ووٹ استعمال کیا ۔ اس حقیقت کو تسلیم نہ کیا جائے اور اپنی بات پر اڑے رہنا صحافتی بد دیانتی ہے ۔ اس وجہ سے غلطی فوری طور مانی گئی ۔ تاہم بریلوی حلقے سے خود کو وابستہ کہلانے والے کسی شخص نے ایسے حلقوں کی روایتی جہالت سے کام لیتے ہوئے اس بات پر سخت غصے کا اظہار کیا کہ تاریگامی کو ووٹ دینا اعتقاد کے زمرے میں کیوں لایا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہے جس کو کسی کے اعتقاد سے جوڑنا غیر قانونی ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کی بات صحیح ہو لیکن ان کا جو انداز بیان تھا وہ اس بات کا مظہر ہے کہ انہیں دین میں اعتقاد کے اصل معنی کا علم ہے نہ جمہوری عمل میں ووٹ کی اہمیت سے باخبر ہے ۔ آپ کے پاس ووٹ دینے کے لئے جب کئی امیدوار موجود ہوں تو سب کے حوالے سے یہ بات مشترک ہے کہ ان کا جمہوریت پر یقین ہے اور اس طرح سے اپنی اعتباریت ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ عوام ایسے امیدواروں میں سے کسی کو محض اس کے ایک یا دو پہلووں کو بہتر جان کر ووٹ نہیں دیتے ہیں ۔ بلکہ ایسے شخص کے حق میں اپنی رائے دیتے ہیں جس کے کام کاج اور نظریہ و منشور سے ان کا اتفاق ہو ۔ جب آپ کسی امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیتے ہیں تو آپ یقینی طور اس کی فکر ، اس کے نظریے اور اس کے انتخابی منشور کو تسلیم کرتے ہیں ۔ ووٹنگ مشین کا بٹن دباتے وقت آپ اپنے منتخبہ امیدوار کی دیانت ، اس کی صلاحیت اور اس کے نظریے کو تسلیم کرکے اس پر مہر ثبت کرتے ہیں ۔ اس دوران آپ دوسرے لوگوں کو اپنے پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کریں تو انہیں اپنے امیدوار کے جسم کی ساخت ، قد و قامت اور وزن یابول چال کے حوالے سے بہتر نہیں گردانتے ۔ بلکہ اس کی صلاحیتوں اور اس کے نظریات کے گن گاتے ہیں ۔ اس طرح سے آپ اپنے امیدوار پر اعتماد اور اعتقاد کا اظہار کرتے ہیں ۔ بات واضح ہے کہ کسی جماعتی کو ووٹ دے کر آپ اس کی فکر اور کسی سوشلسٹ کو ووٹ دے کر آپ اس کے نظریے کو صحیح اور حق بجانب مانتے ہیں ۔ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے واقعاتی صورتحال یہی ہے ۔ کشمیر انتخابات کو اسلام یاکفر سے جوڑنا یقینی طور صحیح نہیں ۔ تاہم میدان میں آنے والے امیدوار الیکشن جیتنے کے لئے جو کارڈ استعمال کرتے ہیں ان میں مذہب ترپ کا پتہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس دوران یوسف تاریگامی ایسا نہیں کرتے ۔ کیونکہ وہ جس پارٹی سے منسلک ہیں وہ سرے سے مذہب کو قبول نہیں کرتی ۔ اس لحاظ سے جو لوگ انہیں وو ٹ دیتے ہیں مذہب سے ماورا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ۔ البتہ خود کو ابن تیمیہ کے پرستار ، شاہ ولی اللہ کے شاگرد اور شیخ العالم کے معتقد گرداننے والے تاریگامی سے اکٹھے ہوکر اپنا ووٹ ڈالیں تو اس طرف نظر اٹھانا یا اظہار رائے کرنا ہرگز جرم نہیں ہے ۔ یادرہے ہر Exit Poll صحیح نہیں ہوتا نہ ہر Opinion قابل گرفت ۔
