تحریر:ش ،م ،احمد
سری نگر میں سی آئی ڈی ہیڈ کوارٹر کےاحاطے میں لوگوں کی سہولت کے لئے ایک شکایتی سیل کا قیام لایا جاناواقعی عوام دوست تاریخی
ا قدام‘ حوصلہ افزا پہل اورخوش آئند پیش رفت ہے۔ ایک معتدبہ تعداد میں لوگ مختلف زمروں میں پولیس کلیرنس کے حصول کے لئے مدتِ دراز سے اپنا اپنا دُکھڑا لئے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں‘ انہیں مشکلات اور عدم رسائی کا سامنا ہے اورسالہا سال سے ہوا میں معلق لٹکےہوئے ہیں۔ ان وجوہ کے پیش نظر سی آئی ڈی صدر دفتر سری نگر کی اس مستحن پہل کاری سے نہ صرف پولیس اور عوام کے مابین خوش گوارتال میل میں مزید وسعت پیدا ہوگی بلکہ پاسپورٹ کی اجرائی ‘ نوکری کے لئے چال چلن کی شرطیہ سند ‘ تجارت یا کئی دیگر مقاصد
کے لئے درخواست دہندہ گان کو جولازمی پولیس کلیرنس درکار ہوتی ہے‘ توقع کی جاتی ہے کہ شکایتی سیل قائم ہونے سے اُس صبر آزما اورپیچ در پیچ مرحلے کو طے کرنےمیں آسانیاں ہوں گی ‘ شفافیت بھی آئے گی اور متعلقہ شہریوں کی شکایات کا اَز رُوئے قانون جلدازجلد ازالہ ہو گا ۔ ۲۹؍ اکتوبر کو مذکورہ شکایتی سیل کا باضابطہ افتتاح ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل پولیس سی آئی ڈی‘ جناب نتیش کمار(آئی پی ایس) نے سنیئر افسران اور میڈیا کی موجودگی میں کیا۔ انہوں نے برسر موقع میڈیا سے اپنی گفتگو میں کہاکہ شکایتی سیل لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کے آدیش پر قائم کیا جارہاہے ۔اس سے متعلقہ لوگوں کو عرصے سے پارسپورٹ ویری فکیشن اور دیگر سی آئی ڈی خدمات سے متعلق اپنی شکایات وغیرہ خفیہ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے پیش کرنے کا زریںموقع ملےگا ۔نیز اس حوالےسے پبلک ڈیلیوری سسٹم میں مزید فعالیت وشفافیت آئے گی ۔ شروع شرو ع میں یہ سیل ہفتے میں ایک بار شکایت کنندہ گان کی شنوائی کرے گا لیکن آگے اس کا دورانیہ دودن کیا جارہاہے۔ معلوم ہوا ہےکہ آنے والے دنوں میں ایسا ہی ایک اور سیل جموں میں بھی قائم کیا جارہاہے۔
سابق ڈی جی پولیس ایس ایس سوائن نے محکمہ پولیس میں اپنی سربراہی کے اَواخر میں پولیس دربار کا جواچھا اور کارآمد نظام رائج کیا تھا‘ وہ متاثرہ لوگوں کی سنوائی کر نے کے تعلق سے بہت ہی مفید ثابت ہوا۔ توقع کی جاتی ہے کہ خفیہ پولیس کا قائم کردہ شکایتی سیل بھی اسی پیمانےپر اَنتھک کام کرے گا ‘ تمام لوگوں کی توقعات پر پورا اُترے گا‘ خاص کر اُن شکایت کنند ہ گان کو قانون کی فراہم کردہ راحت کا سامان بہم پہنچا یا جائےگا جن کی فائیلیں سی آئی ڈی دفاتر کی الماریوں میں کافی دیر سے شنوائی کی منتظر ہیں ۔ بہر صورت اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ زیر التوا کیسز کے نپٹارے کی کارروائی میں سرعت لائی جائے گی اور عملی طور شکایتی سیل متعلقین کے لئے جھلستی گرمی میں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہو گا۔
قواعد وضوابط کے تحت کسی شہری کو جب پولیس کلیرنس کی سند مطلوب کی ضرورت پڑتی ہے تو یہ سی آئی ڈی کی جانب سے اس کے حق میںمثبت رپورٹ سے مشروط ہوتی ہے ۔اس شرط کو پورا کر نے کے ضمن میں عام آدمیوں کی بات ہی نہیں کئی باربڑے بڑوں کو بھی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ غالباً یہ پولیس کلیرنس کی عدم دستیابی ہی کا کیا دھرا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ مفتی محمدسعید کی اہلیۂ محترمہ اور اُن کی نواسی التجا مفتی کو پاسپورٹ کی اجرائی کے لئے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا‘تب جاکر عدالتی حکم نامے کے مطابق اُنہیں سفری دستاویز جاری کی گئیں۔ اس وقت بہت سارے کشمیریوں کے حق میں پولیس کلیرنس کی عدم اجرائی کےسبب ان کے واسطے مسائل ومشکلات بالفعل سوہانِ رُوح بنے ہوئے ہیں ‘ مثلاً کسی کی نوکری کھٹائی میں پڑی ہوئی ہے ‘ کسی کے دیارِ غیر کا سفر موخر ہورہاہے‘ کوئی حج اور عمرہ جیسے مذہبی فریضےکی ادائیگی سے قاصر ہے ‘ کوئی علاج ومعالجے اور دیگرسماجی ضروریات کے سا منے بے دست وپا ہے وغیرہ وغیرہ۔
کسی بھی ایسے خطۂ مخاصمت میں جہاں زیر زمین مسلح کارروائیوں کا اندھیرا چھاجائے‘ وہاں ایک بار نظم و نسق کا پہیہ پٹری سے اُتر ے تو نراج کا دور دورہ شروع ہو تا ہے۔نوے کے پس منظر میں کشمیر کا ایسی ہی دُرگت سے پالاپڑا ۔اس سے یہاں کی ہر چیز تلپٹ ہوئی ‘ ہر شئے شک کے حصار میں آگئی ‘ ہر سچ جھوٹ اور ہر جھوٹ سچ کا لباس پہنے نمودار ہونے لگا ۔ تاریخ کا یہ المیہ سنہ نوے کی ظلمتوں کے ساتھ کشمیر کے حصے میںآیا تو طوفان ِ بدتمیزی کی ہمہ گیرمار شروع ہوئی کہ ایک جانب کشمیر کا ہر پیر وجواں سیکورٹی نظام کی نگاہ میںیک قلم مشتبہ قرارپایا ‘ اُس کا چال چلن‘ نشست وبرخواست اور اُٹھک بیٹھک مشکوک الحال سمجھا گیا۔ دوسری جانب نان اسٹیٹ ایکٹروں کا بے قابو بندوق انہی لوگوں کو ناکردہ گناہوں کی کڑی سزائیں دیتا رہا ۔اس بےلگام اسلحہ نے دلوں میں اپنے خوف کا پہرہ بٹھا نےاور اپنا سکہ چلانے کی نیت سےسرعام انسانیت کی تذلیل کر نے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بندوق والے جب کسی بےبس شخص کےسر مخبری کا الزام دھر تے یا اُسے کسی ہند نواز سیاسی جماعت کا لیڈر اور کارکن جتلاتے تو اس کا جینا محال ہوجاتا‘ اُس کا قافیہ ٔ حیات تنگ کر نے میں یہ کسی بھی حد کو پھلانگ جاتے ۔ ہرسُو ایک عجیب وغریب مخمصہ برپاتھا کہ لوگوں کے لئے بقول غالبؔ ع
نہ بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
والی سچوئشن بنی رہی ۔ اندھیر نگری کے اس گورکھ دھندے میںپھنس کر لگ بھگ تمام کشمیریوں کے کس بل نکل گئے مگر اب جہلم سے کافی پانی بہہ چکاہے۔ یہاں اب کوئی باؤلا بھی نہیں ملے گا جو خونخواری اور مارا ماری کی خوں آشامیاں چاہتا ہو۔ یہاں کے طول وعرض میں بندوق کےبل پر قائم منہ زور حالات کی گردش کب کی رُک چکی ہے‘ عام لوگوں کے ذہنوںکا سمت ِسفر یکسربدل چکاہے‘ خیالات ونظریات کا قبلہ دُرست ہوچکا ہے‘ کھلی آنکھوں کےخواب اور زمینی حقیقتوں کے درمیان حائل جذباتیت کی دیوار ڈَھ چکی ہے ‘دوست اور دشمن جانچنے‘ جھوٹ اور سچائی کو پرکھنے ‘ اپنے نفع و نقصان کا تعین
کر نے کی کسوٹی کشمیر کے ہر عاقل وبالغ انسان کے ہاتھ اب میسر ہوچکی ہے ۔ اس ضمن میں حالیہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں لوگوں کی بے محابہ شرکت ہوا کے رُخ کا صاف پتہ دیتی ہے ۔ یہی ٹھوس چیز اس وقت حقیقت ِ حال کی آئینہ دار اور نوشتۂ دیوار ہے۔ کشمیریوں نے ان ہردو انتخابات میں انتہا پسندی کی جگہ جمہوریت کے آپشن کو بڑھ چڑھ کر اپنایا اور آئین وقانون کے دائرے میں ایک نئی شروعات کرنے کا بھرپور عزم دکھلایا۔ ا س بابت کشمیری لوگوں کو ہر لحاظ سے دادِ تحسین ملنی چاہیے کہ انہوں نےالیکشن میں جوق درجوق شرکت کر کے جمہوریت کی وساطت سے قومی دھارے میں شامل ہونے کی فخریہ مثال سے پوری دنیا کو اپنی امن پسندی کا گواہ بنا لیا ۔ اُنہیں جمہوریت کی آواز پر لبیک کہنے کا ثمرہ اب یہ ہونا چاہیے کہ سیاسی اور انتظامی سطحوں پر لوگوں کے ساتھ نرم خوئی برت لی جائے ‘ اُنہیں بھرپورا حساس دلایاجائے کہ وہ ایک ملکی خانوادے اور قومی کنبے کے باعزت افراد ہیں‘ اُن کو نئی دلی سے اپنائیت کے تمغہ جات ملنے چاہیے ‘ اُن کے چھوٹے بڑے مسائل کی راہ میں ایسی تازہ دم پالیسیاں اختیار کی جا نی چاہیں کہ کشمیر یوں کو لگے کہ اُن کا بھی کوئی والی وارث ہے‘ کوئی ہے جو اُن کے جینون شکوے شکایات
سننے کے لئے تیار ہے‘ کسی کے دل میں اُن کا دکھ درد بانٹنے کا جذبہ موجزن ہے۔ غرض اُن کے تمام چھوٹے بڑے مسئلے مسائل حل ہونے چاہیے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور انتظامیہ کی مشنری ا ور امن وقانون نافذ کر نے والے اداروں کو عام لوگوں کے بارے میں نوے کی پیدا کردہ منفی رائے اورغلط شبیہ تبدیل کر نے کی اشد
ضرورت ہے۔ ماضی میں یہاں کےلوگوں سے خواہ مخواہ بدگمان ہونے ‘ موقع بے موقع اُن پر شک وشبہ کرنے‘ اُن کی جائز شکایات اور حقیقی مسائل ومشکلات سے آنکھ موندھ لینے کا کوئی جواز تھا یا نہ تھا‘ وہ بحث طلب معاملہ ہے ‘ مگر فی الوقت نئے حالات میں ان چیزوں کو اپنانا کسی طور بھی مثبت سوچ کاغماز نہیں کہلاسکتا ۔ آج کےبدلے
ہوئے کشمیر کے سیاسی مزاج کا پتہ اس بات سے بخوبی چلایا جا سکتا ہے کہ میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق سے لے کر عام کشمیری تک بیک زبان تازہ دہشت گردانہ حملوں کی ببانگ ِ دہل مذمت کر چکاہے ۔ کوئی فردواحد بھی اس بارے میں کسی گومگو کا شکار نہ ہوا‘ تمام طبقاتِ فکر نے یکساں لب ولہجہ میں اُن نامعلوم درندوں کی کڑی نکتہ چینی کی جنہوں نےروزی روٹی کمانے والے غریب بہاری مزدورں کو اپنی حیوانی
سوچ کی بھینٹ چڑھا کر اُن پر گولیاں برسائیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ کشمیر یوں کے رگ وپےَ میں انسانیت کا درد بھرا ہوا ہے ‘ وہ فطرتاً آدمیت کےپرستار ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ کسی ایک انسان کی جان لینا گویاپوری نسل ِانسانی کا قتل وخون ہے۔ یہ اسی زندگی بخش جذبے کا برملا اظہار ہے کہ اہل ِکشمیر نے شوپیان ‘ گگن گیر ‘ ترال ‘ بوٹہ پتھری گلمرگ میں ہوئے دہشت گرادنہ حملوں میں ملوث نامعلوم بندوق برداروں کو انسان دشمن قرار دیا ۔ آج کی تاریخ میں یہاں کے لوگ دل سے بے قابو بندوق کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں ‘ و ہ من سے چاہتے ہیں کہ گن کلچرسے انہیں گلوخلاصی ملے ۔ اس کا ثبوت وہ انتخابات میں شرکت کر کے پہلے ہی دے چکے ہیں ۔اس ساری کدوکاوش کا ماحصل یہ ہو نا چاہیے کہ انتظامیہ زیادہ سے زیادہ عوامی مسائل کے تئیں مثبت سوچ اور ہمدردانہ اپروچ اپنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کرے ۔اس طرزِ عمل سے ارضِ کشمیر میں امن وآشتی کی پروائیاں ہمیشہ بلا روک ٹوک چلتی رہیں گی ۔ مختصراًزمینی حا لات کےاس خوش کن تناظر میں سی آئی ڈی کا شکایتی سیل اس بات کی طرف ایک اہم ا شارہ مانا جاسکتا ہے کہ دائمی امن وترقی کی چاہت اہل ِکشمیر کا مقدر بن چکی ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ حالیہ اسمبلی الیکشن سے قبل بھی اورانتخابی مہم کے دوران بھی کشمیرکی سیاسی قیادت رائے عامہ کے احترام میں کئی بار مطالبہ دہراتی رہی کہ سی آئی ڈی ویری فکیشن کی زیر التوا فائلوں اور پاسپورٹوں کی اجرائی اور معطلی وغیرہ مدعوں کی جانب فوری توجہ دی جانی چاہیے ۔لیڈرانِ کرام نے اس بابت اربابِ اقتدار واختیار کو نرمی ‘ لچک اور ہمدردانہ روش ا پنانے کی پُرزور وکالت کی ۔ بعضوں نے ا س سلگتے موضوع پر اپنے پُر مغز بیانات بھی جاری کئے ‘ عوام کو وعدے دئےکہ ان نازک معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر اُٹھایا جائےگا تاکہ متاثرہ طبقۂ عوام کو راحت مل سکے۔ لوگ سیاسی قیادت کی طرف بھی اُمید کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس حوالے سے بدستوراپنا سیاسی اثرورسوخ استعمال کر نے میں کسی بخل سے کام نہ لیں گے۔