جہاں زیب بٹ
31اکتوبر کو یو ٹی فاؤنڈیشن دن کے اوپر حکومت کے دو اعلیٰ ترین عہدیدار وں کے درمیان نا اتفاقی محسوس کی گیی جسے جموں کشمیر کی اچھی گورننس کے حوالے سے اچھا شگون قرار نہیں دیا جا سکتا ۔جب سے پانچ سال پہلے جموں کشمیر یو ٹی بنی ایل جی انتظامیہ جوش و خروش سے یو ٹی دن منانے پر کاربند ہے ۔اس دن کی مناسبت سے متعدد سرکاری تقریبات کا اہتمام کیا جا تا ہے اور تعمیر وترقی اور قیام امن کے ضمن میں حاصل کی گیی کامیابیوں کو اجاگر کیا جا تا ہے جس سے جموں کشمیر کو یو ٹی بنا نے کا فیصلہ کلہم طور پر غلط نہ ہو نے کا تاثر ملتا ہے۔لیکن اب کی بار عمر عبداللہ کی سربراہی والی حکومت اور طارق حمید قرہ سے لیکر محبوبہ مفتی اور سجاد لون تک تمام اہم کشمیر ی لیڈروں نے یوٹی دن کی مناسبت سے ایل جی منوج سنہا کی سرپرستی اور احکامات کے تحت سرینگر میں منعقدہ بڑی تقریب کا اعلانیہ با یکاٹ کیا جس سے ان اندیشوں کو تقویت مل گیی کہ جموں کشمیر انتظامیہ دو متوازی خطوط پر گامزن ہو سکتی ہے ۔
این سی لیڑر تنویر صادق نے اعلانیہ کہا کہ ان کی جماعت یو ٹی سٹیٹس کو نہیں مانتی اور خوشی پر مبنی تقریبات میں حصہ نہیں لے سکتی۔کانگریس کے مقامی چیف طارق حمید قرہ نے عبداللہ حکومت کے مؤقف کی تائید کر تے ہو یے کہا کہ کویی بھی حساس شخص جو یو ٹی اور ریاست کا فرق سمجھتا ہو یو ٹی دن منا نے پر مایل نہیں ہو سکتا ۔سابق خاتون وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی وکالت کی۔کل ملاکر کشمیری البنیاد لیڑروں میں سے کسی نے بھی یو ٹی دن منا نے سے اتفاق نہیں کیا ۔جموں میں سیاسی کانسچونسی رکھنے والے نایب وزیراعلی سریندر چو دھری نے بھی یو ٹی دن تقریبات کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ ان کی جماعت کو یو ٹی فیصلے ہی نا منظور ہے۔
ادھر ایل جی منوج سنہا نے عوامی نمایندگوں کی عدم شمولیت سے کویی دباؤ محسوس کیے بغیر سرینگر میں یو ٹی دن تقریب کو زینت بخشی ۔انھوں نے اس دن کو منانے کا دفاع کر تے ہو یے بات صحیح کہی کہ کویی مانے نہ مانے لیکن اس سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی ہےکہ جموں کشمیر فی الحال کے طور پر یو ٹی درجہ ہی رکھتی ہے ۔انھوں نے یو ٹی فاؤنڈیشن ڈے کا بایکاٹ کرنے پر عبداللہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہو یے کہا کہ ایک طرف اس کے ممبران اسمبلی نے آئین کا حلف اٹھا یا مگر دوسری طرف وہ یو ٹی دن سے الگ رہے جو ان کے دوغلے کردار کا عکاس ہے۔ایل جی سنہا کی دلیل وزن دار ہے کہ فی الحال جموں کشمیر کی آءینی پوزیشن یو ٹی ہے ۔لہذا یہ دن منا نا غلط نہیں ہے ۔جب ریاستی درجہ واپس آیگا تو تب وہ دن بھی منا یا جایگا ۔مطلب دونوں صورتوں میں آءینی وفاداری کا اظہار کر نا مقصود ہے ۔ایل جی کی دلیل کا وزن اپنی جگہ لیکن مبصرین کا ماننا ہے کہ عمر عبداللہ اپنی سیاسی کا نسچونسی کو کشا کشا سالم حالت میں واپس حاصل کر چکے ہیں ۔لہذا وہ محتاط انداز میں چلیں گے اور پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے کہ کہیں حمایتی بنیاد ہل نہ جا یے ۔وہ سیاسی کا نسچونسی کی خواہشات سے انحراف کے ممکنہ نتایج سے خائف ہیں اور ان کی اس مجبوری سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مبصرین کے مطابق یو ٹی دن کے حوالے سےعبداللہ حکومت کے مؤقف کو مقامی جذبات کے تناظر میں دیکھا جا یے تو وہ خطا کار نہیں ٹھہر سکتے اور نہ اس سے یہ دلیل نکالی جاسکتی ہے کہ عمر عبداللہ ایل جی سے ٹکراؤ کے موڈ میں ہیں ۔