جہاں زیب بٹ
خدارا یوم اطفال منانے کی رسم پوری نہ کی جایے بلکہ اس سوال کاجواب چاہیے کہ کیا بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق مل رہا ہے ؟کیا غربت اور افلاس کے مارے بچوں کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر سکھا یا جارہا ہے؟ کیا بچہ مزدوری کی بدعت کا قلع قمع کرنے پر سٹیٹ توجہ دے رہی ہے؟ اورسب سے اہم ترین سوال یہ ہے کیا بچوں کو محفوظ اور محبت سے لبریز ماحول فراہم کرنے کے لیے اساتذہ اور والدین کی نیندیں حرام ہو رہی ہیں جو بچوں کی شخصیت سازی کے لیے شرط اول ہے۔
بچے ملک اور انسانی سماج کا اہم ترین ریسورس ہیں۔یہ کچا مواد ہے جس کو انسانی قالب میں ڈالنے کی سخت ترین کام والدین اور اساتذہ کے کندھوں پر ہے۔ ماہرین تعلیم نے بچوں کی تعلیم وتربیت کا ایک سنہری ضابطہ تجویز کیا ہے جس کے مطابق پہلے سات سال کے دوران والدین کو بچوں کا غلام رہنا چاہیے ۔اس مرحلہ پر بچے کو شفقت اور پیار و محبت کے تحایف ملنے چاہیے جو اس کے اندر چھپے نیک جذبات کو فروغ دینے میں مدد دیتی ہے۔سات سے سولہ سال تک بچے کو والدین کا غلام ہو نا چاہیے۔والدین نے دنیا دیکھی ہو تی ہے۔انھیں ذندگی کے کھٹے میٹھے کا تجربہ حاصل ہو تا ہے۔وہ کھرے کھو ٹے کی تمیز کے قابل ہو تے ہیں۔ لہذا اس مرحلے پر دوراندیش والدین اور اساتذہ کی صورت میں بچوں کو رول ماڈل ملتے ہیں جو صحیح اور غلط راستے کی نشاندہی کر تے ہیں اور بچے کو صحیح راستے پر گامزن ہو نے کی تحریک دیتے ہیں۔ پھر سولہ سال سے آگے کا مرحلہ ہے جس میں والدین اور بچوں کو دوست بن کر رہنا چاہیے تاکہ وہ باہم علم و تجربہ بانٹ بانٹ کر زندگی کی کشتی کو کامیابی کے ساتھ کھینچنے میں ایک دوسرے کے معاون و مدد گار بن سکیں۔
یہ والدین اور اساتذہ پر منحصر ہے کہ وہ بچوں کی صورت میں دستیاب نادر ریسورس کارآمد بناتے ہیں یا اسے ضایع کرتے ہیں۔والدین کی گود اولین تربیت گاہ ہے ۔وہی بچوں کو بگاڑنے یا بنانے کے اولین ذمہ دار ہیں۔یہ دیکھنا ان کا فرض ہے کہ ان کی نگرانی میں بچوں کے ہاتھ میں کیا کچھ ہے۔ان کو بچوں کی تعلیم وتربیت کا شفاف اور واضح خاکہ ہو نا چاہیے۔اس ضمن میں ان کو دنیا کی برگزیدہ ہستیوں کی باءیو گرافیوں کا ٹھیک ٹھیک مطالعہ ہو نا چاہیے ۔ان کو پتہ ہو نا چاہیے کہ وہ زمانہ تھا جب بچے کے ہاتھ میں گیند ایی تو وہ دنیا ے کرکٹ کا بھگوان ٹنڈولکر بن گیا ۔جب ایک بچی کے ہاتھ میں آلہ موسیقی آگیا تو وہ دنیاے سنگیت کی ملکہ لتا منگیشکر بن گیی ۔جب بچے کے ہاتھ دانایی اور درد دل آگیا تو وہ نیلسن منڈیلا بن گیا ۔جب بچے کے ہاتھ میں قلم آگیا تو وہ دنیاے صحافت کا ستارہ خشونت سنگھ بن گیا ۔جب اسی بچے کے ہاتھ میں ٹیلیسکوپ ایی تو وہ گلیلیو بن گیا ۔ان مثالوں کو بیان کرتے جایے اور دل پر ہاتھ رکھ کر غور کیجیے کہ آپ کے اورمیرے بچے کے ہاتھ میں کیا ہے ایپل فون, سیل فون جس نے عادات و اطوار کو اس قدر بگاڑ دیا ہے کہ انسانی گوشت پوست کی صورت میں ایک سکرین شعار حیوان نظر آتا ہے۔ننھے ننھے بچوں کا حال واحوال یہ ہے کہ موبایل ہاتھ سے چھو ٹتا نہیں اور سکرین کےشیداییوں کو ر یلز ، فحش مواد اور آن لاین جوا بازی کی پیاس کبھی بجھتی نہیں ہے ۔اس سکرین شعار عادت نے بچوں کی نفسیات ،کردار اور برتاؤ کو مجروح کردیا ہے۔چڑچڑاپن،شرارت،غصہ ,پریشانی ، بے قراری ،تنہا پسندی اور بے ادبی کے جو ر زیل خصا یل بچوں کی ذندگی میں سرایت کرتے جارہے ہیں اس کے لیے بڑی حد تک سکرین عادت ذمہ دار ہے ۔ہر بچے کے ہاتھ میں موبایل تھمادیا گیا ہو اور سکرین پیار و کشش انتہایی حدوں کو چھورہی ہو تو یوم اطفال منانے سے ارسطو ،افلاطون ،سقراط ابراہیم لنکن ،گاندھی،اپو کلام آزاد اور شمیم احمد شمیم پر مشتمل بہترین انسانی نرسری کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے۔
