از:جی ایم بٹ
دنیا میں مختلف تاریخوں پر یوم اطفال منایا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں یہ دن 14 نومبر کو جوہر لال نہرو کے یوم پیدائش کی مناسبت سے منایا جاتا ہے ۔ نہرو ملک کے پہلے وزیراعظم تھے ۔ انہیں بچوں سے بے حد پیار تھا اور وہ بچوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے۔ بچے انہیں محبت سے چاچا نہرو کہتے تھے اور نہرو ایسے نام سے پکارنا پسند کرتے تھے ۔ انہوں نے خود اپنے یوم پیدائش کو بچوں کے دن کے طور منانے کا اعلان کیا اور ان کی زندگی میں ہی اس دن کو بطور یوم اطفال منانے کی شروعات کی گئی ۔ اس وقت سے اس دن کو بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس دن کو منانے کے مقصد بچوں کے اندر محبت پیدا کرنا اور ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا ہے ۔ انہیں صحیح راستے پر ڈالنا اور مستقبل کا ذمہ دار شہری بنانا ہے ۔ نہرو نے اپنے زمانے میں بچوں کے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے اور انہیں بہتر شہری بنانے میں مدد ملی ۔ ملک میں تعلیم کو فروغ دینے کے لئے کئی منصوبے بنائے گئے ۔ آگے جاکر یہی منصوبے بچوں اور پوری قوم کے لئے ترقی کا باعث بنے ۔ چاچا نہرو کے زمانے میں پلے بڑھے نوجوانوں نے آگے جاکر ملک اور قوم کا نام روشن کیا ۔ ملک آزاد ہونے کے بعد آنے والی نسلوں کے لئے بنیادی تعلیم کے اداروں کے علاوہ ٹیکنالوجی ، میڈیکل سائنس اور منیجمنٹ کے بڑے بڑے انسٹی چیوٹ بنائے گئے ۔ نہرو کے زمانے میں ایسے اداروں کی بنیاد ڈالنے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ملک اس طرح کے ہر شعبے میں کافی ترقی کرچکا ہے ۔ اسی زمانے میں پرائمری تعلیم کو مفت کرنے اور بچوں کی صحت بحال رکھنے کے لئے انہیں مفت دودھ فراہم کرنے کی تجویز رکھی گئی ۔ آج مفت تعلیم کے ساتھ بچوں کو دوپہر کے لئے متوازن کھانا فراہم کیا جاتا ہے ۔ مڈ ڈے میل کی اس اسکیم نے بچوں کی صحت بحال رکھنے اور انہیں اعلیٰ تعلیمی اداروں تک پہنچنے میں بڑی مدد کی ۔ ایسی اسکیموں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان کے نوجوان پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور بڑے بڑے اداروں کی تعمیر و ترقی میں کلیدی رول ادا کررہے ہیں ۔ اس وجہ سے پنڈت نہرو کو آج تک یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ آگے جاکر بھی انہیں یاد کیا جائے گا ۔
ہندوستان کے بچوں نے تعلیم اور تکنالوجی کے میدان میں ترقی ملک کی آزادی کے بعد حاصل کی ۔ اس کے برعکس اس سے پہلے ایک طویل عرصے تک ملک پر مسلمانوں کا مکمل کنٹرول تھا ۔ انگریزوں کے زمانے میں کئی نامور مدرسوں کی بنیاد ڈالی گئی جہاں بڑی تعداد میں طلبہ کا اندراج ہوا ۔ اتنے طویل عرصے سے مدرسوں میں درس و تدریس کا نظام جاری رہنے کے باوجود اس بات پر افسوس کیا جارہاہے کہ ان مدرسوں سے ایک بھی ایسا شخص نہ نکلا جس پر قوم فخر کرسکے ۔ ان مدرسوں میں طلبہ کے ساتھ محبت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ہے ۔ یہاں تعلیم و تعلم کا سارا نظام لاٹھی اور دھونس دبائو پر قائم ہے ۔ بچوں کو بڑی بے دردی سے مارا پیٹا جاتا ہے اور انہیں چوپائیوں سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے ۔ مدرسے ملک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے جہاں طلبہ خام مال کے طور استعمال کئے جاتے ہیں ۔ ان کے ذریعے اور ان ان کے نام پر خوب کمائی کی جاتی ہے ۔ بھیک اور عطیات کے جمع کرنے کا ایک مضبوط اور مستحکم نظام پایا جاتا ہے ۔ بچوں کے نام پر کافی آمدنی مل رہی ہے ۔ اس میں سے مشکل سے ایک دو فیصد رقم بچوں پر خرچ کی جاتی ہے ۔ ان کی صحت کی کوئی فکر نہیں کی جاتی ہے ۔ انہیں تن ڈھانپنے کو معمولی کپڑے فراہم کئے جاتے ہیں ۔ مدرسوں میں طلبہ کے بیٹھنے کے کمروں میں گرمی اور سردی سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں ۔ بلکہ مشکل حالات میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہیں جنت اور دوسری نعمتوں کی لالچ دی جاتی ہیں ۔ اللہ اور رسول کے مہمان کہلانے والے ان بچوں پر جو ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس کی مثال دنیا کی کسی تعلیم گاہ میں نہیں ملتی ہے ۔ اس کے بجائے ایسے مدرسوں میں کام کرنے والے مدرسوں کے لئے آرام کی ہر آسائش موجود ہے ۔ ان کے پاس زرق و برق لباس ہوتے ہیں ۔ انہیں سواری کے لئے شاہی طرز کی گاڑیاں ہوتی ہیں ۔ ان کے اپنے بچوں کے لئے تفریح اور عیش و عشرت کے ہر جائز اور ناجائز طریقے فراہم ہیں ۔ ایسی تمام سہولیات طلبہ کے نام پر حاصل کی گئی رقوم اور سرکاری گرانٹ سے حاصل کی جاتی ہیں ۔ یہ ایک بڑا مافیا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے نام پر چلایا جاتا ہے ۔ یہاں ہر طرح کا لوٹ کھسوٹ دیکھنے کو مل رہاہے ۔ اتنے سال مدرسوں کو قوم کی خیرات پر چلانے کے باوجود ان مدرسوں سے مسلمانوں کا ایک بھی خیر خواہ سامنے نہیں آیا ۔ جس نے بھی ملائوں کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی اس پر کفر اور الحاد کے فتوے لگائے گئے ۔ لوگوں کو ان سے بدظن کرکے اپنے پیچھے چلنے کی ترغیب دی گئی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عقل سلیم رکھنے والے لوگ اس سازش کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ اس وجہ سے قومی سرمایہ ضایع ہورہا ہے اور آنے والی نسل کسی تعمیری کام کی صلاحیت رکھنے سے عاری ہورہی ہے ۔ مدرسے ایک ایسا بوجھ بن گئے ہیں جن سے قوم کا سرمایہ اور حیات انسانی مکمل طور تباہ ہورہی ہے ۔ ہیومن ریسورس کی اس تباہی نے پوری مسلم قوم کو اجاڑ کے رکھ دیا ۔ اس وجہ سے مسلمانوں کے اندر جو پستی ، کم ہمتی اور بے راہ روی پیدا ہورہی ہے وہ آنے والی کئی صدیوں تک اس سے چھوٹنے والی نہیں ہے ۔ کوئی بھی حقیقی خیر خواہ پیدا ہونے والا نہیں ہے ۔ اس چیز کا بہت کم امکان ہے کہ مسلمانوں کے اندر مدرسوں کے ذریعے پیدا کی ہوئی اس بدحالی کے ماحول میں ان کا کوئی رہنما مل جائے گا ۔ بلکہ مسلمان ایسے حالات کے اندر بڑی تیزی سے دین اور دنیا سے دور ہوتے جائیں گے ۔ انہیں دینی علوم کا کوئی ادراک ہوگا اور دنیاوی ترقی کی کوئی راہ سوجھے گی ۔ دین کے نام پر قائم مدرسے دین کے ساتھ ایک بڑا مزاق ہیں ۔ یہاں دین کے سوا سب کچھ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے کوئی دیندار پیدا ہورہا ہے نہ صحیح معنوں میں رہنمائی کرنے والا کوئی لیڈر برآمد ہوا ہے ۔ یاد رکھئے یہاں سے کوئی ولی اللہ پیدا ہوگا نہ بابائے قوم یا رہبر قوم پیدا ہوگا ۔
