جہاں زیب بٹ
جمعہ کو سرینگر کے ٹینگہ پورہ بایی پاس پر ایک دلدوز سڑک حادثہ پیش آیا جب ایک تھار گاڑی ٹپر کے ساتھ جاٹکرا یی اور اس کے ساتھ ہی گاڑی الٹ گیی جس کے نتیجے میں موقعہ پر ہی دو کمسن لڑکے جان گنوا بیٹھے جبکہ دو اور شدید طور پر زخمی ہوگیے ۔
مر نے والوں کی شناخت لال بازار کے حماد شوکت وانی اور لیز بل اننت ناگ کے رہنے والے عظیم آصف صوفی کے طور پر ہویی ہے جب کہ دو زخمی لڑکوں میں لال بازار کے عیسیٰ طارق اور بچھ پورہ سرینگر کے ریان شیخ شامل ہیں ۔
جموں کشمیر میں سڑک حادثات کا شمار نہیں ۔آے دن کو یی نہ کویی گھر اجڑتا ہے کسی نہ کسی کی جان چلی جاتی ہے۔ٹریفک حادثات میں تشویش ناک تواتر ہے ۔ایک اندازے کے مطابق یہاں نجی گاڑیوں کی تعداد اسی لاکھ کا ہندسہ پار کرچکی ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ہزاروں ٹریفک حادثات رونما ہو رہے ہیں ۔2024 میں تین ہزار جان لیوا سڑک حادثات واقع ہو یے ہیں ۔ٹریفک حادثات کی کہانی کا بھیانک پہلو یہ ہے کہ اس کے زیادہ تر کردار نابالغ بچے ہیں اور وہی موت سے کھیل رہے ہیں ۔ٹیںنگہ پورہ بایی پاس سانحہ بھی نابالغ بچوں کے ساتھ پیش آیا جو سرکاری رپورٹ کے مطابق ایک ہی سکول کے طلاب تھے ۔ وہ تھا ر گاڑی میں سوار تھے اور موج مستی کے ساتھ ڈراءیونگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو معصوم بچے موقعہ واردات پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ دو ہسپتال میں زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اس حاد ثے کی دو وجوہات بن گییں ۔اول نابالغ بچوں کے ہاتھ میں گاڑی تھی دوم وہ بچگانہ لاپرواہی میں ہوا کی رفتار پر گاڑی چلا رہے تھے۔
ٹینگہ پورہ حادثہ نے جہاں پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا وہیں والدین پر انگشت نمایی ہورہی ہیں اور انکی غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کو اجاگر کیا جارہا ہے۔مجرم وہ باپ وہ ماں ہے جو خود قانونی بندشوں کا احسا س رکھتے ہیں اور نہ بچوں کو آداب فرزندی سکھلانے اور قانون کا رعب اور احترام دل میں ڈالنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔کم عمری اور کم سنی کے مرحلہ پر
بچہ مدہو ش گھوڑے کی مانند ہو تا ہے جس کی ناک میں نکیل ڈالنے کی از حد ضرورت ہو تی ہے زمانہ
بلوغت انتہایی نازک مرحلہ ہے ۔ہارمونز کے اثر تلے ذہنی
تلاطم پید ا ہو تا ہے ۔انا،سرکشی اور جارحانہ عناصر جنم لیتے ہیں اور شخصیت میں نمایاں ہو تے ہیں ۔ہوا میں اڑنے ، اچھے برے خوابوں کے پیچھے بھاگنے اور اپنی قوت یا صلاحیت سے دوسروں کو مرعوب کر نے کی دھن سوار ہو جاتی ہے ۔اس مرحلے پر جب
بچے کے ہاتھ میں اسٹیرنگ آجاتی ہے تو گو یا غرور کی نفسیات کی تسکین کا موقعہ اور میدان اس کو کھلتا نظر آتا ہے۔ وہ بڑا یی کے احساس میں جینے لگتا ہے اور اس کے اظہار کی ایک صورت کے طور پر جارحانہ ڈراءیونگ کے مزے لیتا ہے۔ اسے نہ صبر کا مفہوم معلوم ہو تا ہے نہ زندگی کی پرواہ اور نہ زندگی کے خاردار ریگستان میں احتیاط و عاجزی کی اہمیت کا الف ب معلوم ہو تا ہے۔ ۔یہی وجہ کہ اس مر حلے پر بچہ والدین کا غلام ہو نا چاہیے ۔والدین بھی اتنے بلند نگاہ اور مثالی کردار کے حامل ہوں کہ بچہ ان سے آداب زندگی سیکھ کر افراط وتفریط کی راہوں کی نزر ہو نے سے بچ سکے ۔
۔ بچوں کو جس چیز نے برباد کردیا اورجس سے ان کا مزاج بگڑ گیا وہ حد سے ذیادہ لارڈ پیا ر ہے ۔ بچوں کی تربیت کے لیے والدین کی محبت ،نرمی اور شایستگی کی جتنی ضرورت ہے اسی قدر شخصیت سازی کے لیے روک ٹوک اور توازن اور ترازو قایم رکھنا از حد ضروری ہے۔بچوں کی شخصیت سازی میں جو پیچیدگیاں پیدا ہو گییں اور عادات واطوار میں جو بگاڑ دیکھنے کو مل رہا ہے اس کے اولین ذمہ دار والدین ہیں جو نابالغ بچوں کے ہاتھو ں اغوا ہو گیے اور سیل فون ،سکو ٹر اور گاڑی تک شاہانہ مزاج کی حامل کسی بھی خواہش کو رد کرنے کی جرت نہیں کرتے ہیں۔وہ اخلاقی تعلیم مر گیی ہےجس میں بچوں کو حکم تھاکہ ماں باپ کو اف تک نہ کہو،ان کو نہ جھڑ کو ،ان کے ساتھ نرمی اختیار کرو ان کے سامنے بازو جھکا کر رکھو ۔عملا اس کے الٹے مکلف والدین ہو گیے ہیں جو بچوں کے آگے عاجز ہیں بے بس ہیں اف نہیں کرسکتے اور ان کی شاہانہ ڈیمانڈ کا نا نہیں کر سکتے۔
نابالغ بچوں کی ڈراءیونگ قانوناً جرم ہے لایق سز ا ہے لیکن یہ وبا قابو کرے تو کون ؟ والدین نے بچوں کے آگے غیر مشروط سرینڈر کیا ہے ۔اساتذہ مایوس ہیں اور ٹریفک پولیس بہانہ سازی کر تا ہے یا فرایض سے پہلو تہی ۔لیکن مسلہ اتنا گھمبیر ہے کہ اس کو نظر انداذ نہیں کیا جاسکتا ۔مسلے سے جڑے تین فریقین والدین ،اساتذہ اور ٹریفک پولیس کو فرض شناسی سے پہلو تہی کا رویہ ترک کرنا ہو گااور نابالغ بچوں کے ہاتھ سے اسٹیر نگ واپس لینے کے لیے انقلابی قدم اٹھا نا ہو گا تاکہ بن کھلے پھول مرجھا نے سے بچ سکیں۔
