حکومت بنانے کے بعد یہ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی اہم دہلی یاتراسمجھی جات ہے ۔ اس سے پہلے انہوں نے دہلی جاکر وزیرداخلہ اور وزیردفاع کے علاوہ وزیراعظم سے ملاقات کی ۔ اس موقعے پر انہوں نے اس ریزولیشن کی کاپی وزیر اعظم کے حوالے کی جو اسٹیٹ ہڈ کی بحالی کے لئے کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میںپاس کیا اور بعد میں ایل جی نے اس پر دستخط کئے ۔ وزیراعلیٰ نے مبینہ طور وزیراعظم کو ان کا وعدہ یاد دلایا جو کشمیر یوٹی کو واپس ریاست کا درجہ دینے کے حواالے سے کیا گیا ہے ۔ مرکزی سرکار کے علاوہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں اس بات پر زور دیا کہ اسمبلی کے لئے انتخابات کرانے کے علاوہ جموں کشمیر کو باضابطہ ریاستی درجہ دیا جائے ۔اس حوالے سے کئی مراحل سے گزرنے کے بعد انتخابی سرگرمیاں اکتوبر میں مکمل ہوئیں اور نئی سرکار تشکیل پائی ۔ اسمبلی میں بھر پور اکثریت ہونے کی بنیاد پر این سی نے عمر عبداللہ کو وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا ۔ وزیراعلیٰ بننے کے بعد عمر عبداللہ نے اعلان کیا کہ ان کی کوشش ہوگی مرکزی سرکار کے ساتھ قریبی تعلقات بناکر کام کو آگے بڑھایا جائے ۔انہوں نے اپنے پہلے ہی بیان میں وزیراعظم کی تعریف کی اور انہیں اعلیٰ درجے کا سیاست دان قرار دیا ۔ کئی حلقوں نے ان کے اس بیان اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ۔ ایسے حلقوں کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کو اسٹیٹ ہڈ حاصل ہونے سے پہلے اس طرح دہلی نہیں جانا چاہئے تھا ۔ انٹلی جنس ایجنسی را کے سابق سربراہ اور کشمیر معاملات کے ماہراے ایس دُلت کے مطابق دہلی آکر وزیرداخلہ اور وزیر اعظم کو قیمتی تحائف دے کر عمر عبداللہ نے غلطی کی ۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح سے عمر عبداللہ نے خود کو ایک کمزور حکومتی سربراہ ظاہر کرتے ہوئے معاملات بگاڑ دئے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمر کے بجائے ان کا والد فاروق عبداللہ وزیراعلیٰ ہوتا تو دہلی پہنچنے میں اتنی جلد بازی نہ دکھاتا ۔ ایسی آرا اپنی جگہ تاہم دوسرے کئی حلقوں کا خیال ہے کہ جموں کشمیر سرکار کو ہر صورت میں مرکزی حکومت سے مضبوط رشتے بنانے کی ضرورت ہے ۔ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وزیراعظم کے علاوہ وزیرداخلہ کے ساتھ رشتوں کو بحال رکھا جائے ۔ یہی ایک صورت ہے کہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کے کام انجام دئے جاسکیں ۔ اس دوران وزیراعلیٰ نے دہلی جاکر پہلے ملک کے نائب صدر جگدیپ دنکھراور بعد میں صدر ریاست دروپدی مرمو کے ساتھ ملاقات کی ۔ ایک حساس علاقے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے کے سربراہ کے لئے ضروری ہے کہ ایسی طاقتور شخصیات کے ساتھ روابط رکھے جائیں ۔ صرف اسی لئے نہیں کہ دہلی میں اپنے لئے مضبوط سہارے تلاش کئے جائیں بلکہ کسی قسم کے شکوک و شبہات کو دور رکھنے کے لئے ایسا ضروری ہے کہ انہیں اپنی پالیسی سے باخبر رکھا جائے ۔
دو دہائیاں پہلے شیخ خاندان کو دہلی میں جو سرپرستی حاصل تھی وہ اب نہیں پائی جاتی ہے ۔ ایسے خاندان جن کے ساتھ مرحوم شیخ صاحب اور فاروق صاحب کے بندھن تھے وہ سب لوگ اب سیاسی منظر نامے سے غائب ہوچکے ہیں ۔ کانگریس میں کئی ایسے چوٹی کے رہنما تھے جن میں شیخ خاندان کے ساتھ بے لوث ہمدردی پائی جاتی تھی ۔ بلکہ کئی ایسے خاندانوں کے ساتھ ان کی رشتہ داری بھی تھی ۔ بی جے پی کے اقتدار پر حاوی ہونے کے بعد ایسے تمام خاندان اور لیڈر جو مشکل وقت میں فاروق عبداللہ یا عمر عبداللہ کے کام آسکتے تھے اب دہلی میں موجود نہیں ہیں ۔ دونوں باپ بیٹے کے بی جے پی کے کئی لیڈروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پارٹی کی قیادت واجپائی اور اس کے قریب رہنے والے آزاد خیال لوگوں کے ہاتھ میں تھی ۔ وہ لوگ بھی موجودہ مرکزی حکومت نے دیوار کے پیچھے کردئے ہیں ۔ اس طرح کی صورتحال کے اندر عمر عبداللہ کے لئے ضروری ہے کہ نئے سرپرست تلاش کئے جائیں ۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے بعد عمر عبداللہ نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں اور دہلی کے چکر لگانے شروع کئے ۔ یہ بہت ہی اہم سرگرمیاں قرار دی جارہی ہیں ۔ عمر عبداللہ اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے حکومت سنبھالنے کے بعد کشمیر میں راتوں رات ملی ٹنسی کے کچھ واقعات پیش آئے ۔ پہلے کشمیر سے باہر کے کئی مزدوروں پر گولیاں چلاکر انہیں ہلاک کیا گیا ۔ بعد میں فوج نے انکائونٹر میں اہم کمانڈروں کو مار گرایا ۔ اس طرح سے ایک طویل وقفے کے بعد اس طرح کے چونکا دینے والے واقعات پیش آئے ۔ ایسے واقعات نئی سرکار کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہیں ۔ یقینی طور ان واقعات کے ساتھ عمر عبداللہ یا ان کی سرکار کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔تاہم ایسے واقعات خوش آئند بھی نہیں ہیں ۔ یقینی طور یہ کٹھن مرحلہ گزر جائے گا ۔ امید کی جارہی ہے کہ بہت جلد جموں کشمیر کا ریاستی درجہ پھر سے بحال ہوجائے گا ۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی اہم اقدامات بھی کئے جائیں گے ۔ تاہم سیکورٹی کے حوالے سے مرکز کی نگہداشت برابر موجود رہے گی ۔ امن و امان کا معاملہ مرکز کے ہاتھوں میں ہے ۔ اس وجہ سے ان کی نظر برقرار رہے گی ۔اس کے علاوہ اپنے کسی طرح کے وسائل سے محروم ہونے کی وجہ سے جموں کشمیر سرکار کو مرکز کے ساتھ رشتہ بنائے رکھنا ضروری ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس کا بھرپور ادراک رکھتی ہے اور کئی حلقوں کی مخالفت کے باوجود اس حوالے سے کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ بہتر نتائج سامنے آنے کی قوی امید ہے ۔
