تحریر:ڈاکٹر ایم اعجاز علی
تاریخ ہند میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کی زبان سے ’پسماندہ مسلم‘‘ لفظ سنی گئی ہے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں پر اس لفظ کا کیا اثر ہو رہا ہوگا کہنا مشکل ہے۔ لیکن سماج کو اقبالیہ نظر سے دیکھنے والے ذی شعورافراد پر اس کا مثبت اثر ضرور پڑ رہا ہوگا اور وہ ضرور غور کر رہے ہوں گے کہ وزیر اعظم ہند کے اس رُخ کا فائدہ سماج کو کیسے پہنچایا جائے۔ پہلی نظر میں تو بقیہ لوگ یہی سمجھیں گے کہ اس میں کوئی سازش یعنی ’شر‘ پوشیدہ ہے۔ اگر یہ شر ہے تو پھر اسے مزید شر میں ڈھکیلنے سے بہتر ہے کہ اس سے خیر نکالا جائے کیونکہ ہر شر کے پیچھے ایک خیر چھپا ہوتا ہے اور حدیث ہے کہ شر سے خیر نکالنے میں مومنوں کی کامیابی ہے ورنہ شر تو ہر زمانے میں تھا، ہے اور رہے گا۔
آج جب مودی سرکار نے پسماندہ مسلم کارڈ، مسلم سماج کی طرف پھینکا تو حکمت کا تقاضہ یہی ہے کہ پسماندہ مسلم طبقات کے ایک اور سب سے اہم مسئلہ کا کارڈ ان کے سامنے رکھیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس وقت ملک کا جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں پسماندہ ہی کیوں، عام مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ تحفظ کا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد پر جب سے ٹکرائو کی سیاست ملک میں چلنی شروع ہوئی ہے، تب سے ہی اقلیتوں کے درمیان جان و مال کے تحفظ کا مسئلہ سب سے سنگین رہا ہے۔ کل تک دنگے فساد کا بول بالا تھا اور آج کل ماب لنچنگ کا مسئلہ ٹاپ پر ہے۔ نہ جانے آنے والے دنوں میں دہشت پیدا کرنے کے لئے کون سا حربہ استعمال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ووٹ کی سیاست بھی ’ووٹ لو، تحفظ دو‘ کے فارمولے پر جو سیاسی پارٹی چمپئن لگی اسے آنکھ موند کر ووٹ دینے کا کام اس سماج نے کیا ہے۔ ایسا ہی ہمیشہ سے ہوا ہے اور واجب بھی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ سیکولر کہلانے والی سیاسی جماعتوں نے ہمیں کافی تحفظ دینے کا کام کیا لیکن قانونی تحفظ دینے کا کبھی راستہ ہی نہیں نکالا۔ پھر وہ نکالتے ہی کیوں ہماری طرف سے تو کبھی قانونی تحفظ کی مانگ بھی نہیں کی گئی۔ دلتوں کو، ایس سی، ایس ٹی ایکٹ کے ذریعہ جان و مال کے تحفظ کا جو قانونی راستہ نکلا وہ قانون 1989 (یعنی چالیس سال بعد) میں وجود میں آیا کیونکہ دلت سماج نے اس کے لئے مانگ کی تھی، ورنہ ڈاکٹر بھیم رائو امبیڈکر صاحب نے دلتوں کو ریزرویشن تو 1950 میں دلایا تھا تاکہ دلتوں کی تعلیمی، اقتصادی اور سماجی حیثیت کو ملک کے مین اسٹریم میں لایا جاسکے اور تحفظ کا ٹھیکہ تو کانگریس نے خود لے لیا تھا جیسا کہ مسلمانوں کا بھی لئے ہوئے تھا۔ لیکن ریزرویشن کی سہولیات اٹھانے میں دلت سماج کو بہت دشواریاں ہوا کرتی تھیں۔ محلے سے لے کر محلوں تک اور سڑک سے لے کر سکریٹریٹ تک انہیں گالی گلوج و دیگر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سامنت وادی سماج یہ نہیں چاہتا تھا کہ ریزرویشن ملنے کے بعد بھی وہ ملک و سماج کے مین اسٹریم میں نہ آسکے۔ آزادی کے بعد سے جمہوری نظام میں کانگریس کے ’کمائی تحفظ‘ کے سہارے بہت دنوں تک وہ چلے لیکن طبقاتی کشمکش کے تشدد سے بچ نہیں پائے تو قانونی تحفظ کی مانگ شروع کی۔ آئین نافذ ہونے کے تقریباً چالیس سال بعد 1989 میں راجیو گاندھی کی سرکار نے ان کے لئے الگ سے انسداد تشدد ایکٹ بنایا جیسے ایس سی؍ایس ٹی ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کے بننے کے بعد انہیں ہر سطح پر تشدد سے راحت ملی اور وہ ترقی کے راستے پر تیزی سے چلنے لگے۔ یہ قانون تو اتنا اثردار ثابت ہوا کہ دلت اور آدیواسی اب کسی بھی حالت میں اسے کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ تین سال قبل جب سپریم کورٹ نے اس ایکٹ میں کچھ تبدیلی لائی تو پورے ملک کو دلتوں نے ہلا کر اتنا رکھ دیا کہ مرکزی سرکار کو دخل دے کر تبدیلی کو واپس کرانا پڑا۔ یہ قانون اسی طرح سے بنا ہے جس طرح سے عورتوں کے لئے Anti Dawry Act بنا تاکہ انہیں جہیز کے تشدد سے بچایا جاسکے۔ بھلے یہ اس سماج کی عورتوں کے تحفظ کے لئے بنایا گیا ہے جہاں جہیز مذہبی طور پر جائز ہے۔ یہ دونوں ایکٹ ہندوئوں کے لئے ہی بنایا گیا تھا لیکن جہاں تک اینٹی ڈوری ایکٹ کا سوال ہے تو اس میں مسلمان بھی پھنس جاتے ہیں جبکہ اسلام میں جہیز کو مذہبی طور پر جائز نہیں مانا گیا ہے لیکن اس کے برعکس انسداد تشدد ایکٹ (Prevention of attraction act) کو ہندو سماج کے چنندہ پسماندہ طبقات کو ہی شامل کر اس کے دائرے کو محدود رکھا گیا ہے اور کہہ دیا گیا کہ یہ صرف ہندو، سکھ اور بودھ، دلتوں اور آدیواسیوں کے لئے ہی طے ہے، کمزور طبقات کے مسلمانوں کے لئے نہیں۔
ہم یہ بالکل نہیں مانتے کہ بھارت میں نفرت کے بازار کی کہانی کوئی 8-9 برسوں کی ہی دین ہے بلکہ یہ سلسلہ تو 100-150 سالوں سے چلا آرہا ہے اور نہ جانے شکل بدل بدل کر کب تک آتا رہے گا لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ وجہ جو بھی ہو لیکن ہر دور میں نفرت کے ماحول کا شکار پسماندہ در پسماندہ سماج ہی ہوتا رہا ہے، چاہے وہ جس مذہب کا ماننے والا ہو۔ کیونکہ یہ حصہ Underprinviledge او ر Unprotected ہوتا ہے۔ چھوٹا ہی سہی لیکن سماج کا وہ حصہ جو Priviledged اور Protected ہوتا ہے اس کے ساتھ تحفظ کا مسئلہ اتنا بڑا نہیں ہوتا ہے۔ دنگے فساد اور ماب لنچنگ کے معاملہ کو ہی دیکھئے تو پتہ چل جائے کہ سماج کا کون سا حصہ اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ اگر انسداد تشدد ایکٹ میں دلتوں اور آدی واسیوں کے ساتھ پسماندہ مسلمانوںکو بھی شامل کرلیا گیا ہوتا تو نفرت کے اس شدید ماحول میں بھی اُن کا بچائو ہو پاتا۔ یہ کام ممکن ہے کیونکہ ہے کہ کیونکہ الگ سے قانون بنانے کی بات بھی نہیں ہو رہی ہے اور سرکار کو اس کے لئے الگ سے بجٹ بنانے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ساتھ ہی عام بھارتیوں کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہوگا۔ سیاسی پارٹیوں کو بھی اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں پسماندہ مسلمانوں کو شامل کرنے کے بعد ملک کامن پالیٹکس کا دھار کمزور ہوگا اور سماج کا رُخ کمونل سے کامن سیاست کی طرف مڑنے لگا جو بھارت کو وشوگرو بنانے کے لئے ضروری ہے۔
مودی سرکار کو بھی ووٹ کی سیاست کے لئے اس سے بڑا کوئی کارڈ نہیں مل سکتا ہے۔ جس دن اقلیتی سماج کو یہ خبر ملے گی کہ وزیر اعظم ہند نے دنگے فساد، ماب لنچنگ یا دیگر تشدد کے خلاف پسماندہ مسلمانوں کے لئے قانونی تحفظ کا انتظام کر دیا ہے اسی دن اُسے یہ احساس ہوگا کہ جس وزیر اعظم ہند کو انہوں نے پہلے ہی دن سے اپنا نہیں سمجھا اسی نے ان کے تحفظ کے لئے باضابطہ قانون کا انتظام کر دیا ہے۔ وزیر اعظم ہند نے ماب لنچنگ کے خلاف کئی بار سخت بیانی بھی کی ہے اور انہیں ان حادثات پر افسوس بھی ہوتا ہوگا لیکن مسلمانوں کے ڈیلروں نے انہیں کبھی سراہا تک نہیں بلکہ صرف کوسنے کا ہی کام کیا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ وزیر اعظم ہند کو اپنے ہی پسماندہ مسلم کارڈ کو کامیاب کرنے کے لئے انہیں صرف ایک ہی کام کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پسماندہ برادریوں کو خاص کر وہ جو دلتوں کے مساوی ہیں انہیں ایس سی؍ ایس ٹی ایکٹ میں شامل کر دینا چاہئے تاکہ پورے ملک میں ایک مثبت پیغام جائے اور مسلمانوں کی بڑی آبادی وزیر اعظم ہند کی طرف مانوس ہو۔ اس میں انہیں کسی مسلم شخصیت کو سامنے لانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ووٹ کی سیاست میں عوام چاہئے خواص نہیں۔ یہ وہ کارڈ ہے جس پر عمل کرنے کے لئے سرکار کو کسی آئینی ادارے کی طرف دیکھنے کی کبھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ سرکار کے پاور کے دائرے میں آتا ہے لیکن اس کا مسلم سماج پر وزیر اعظم ہند کے تئیں وہ اثر ہوگا جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی سوچا نہیں ہوگا۔