جنت بینظیر کہلانے والی وادی کشمیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جرائم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ جرم چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو جرم آخر جرم ہی ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں آئے روز یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں جگہ بیٹے نے باپ کو مار ڈالا یا بیٹے نے ماں کو مار ڈالا۔ بھائی نے بھائی کا قتل کرڈالا یا دیور نے بھابی کو ابدی نیند سلا دیا۔ اس کے علاہ وادی کشمیر سے ہی دیگر دل دہلانے اور گھناؤنے جرائم کی خبریں آئے دن ہمیں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں ان خبروں کو سنکر یا پڑھکر انسان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔ایک دورمیں اسطرح کی خبریں دنیا کے دیگر ممالک سے موصول ہوا کرتی تھیں لیکن زمانہ تیز رفتاری سے بدلتا گیا اب یہ دردناک۔ دل دہلانے اور گھناؤنی خبریں ہمیں اس جنت بینظیر کہلانے والی وادی کشمیر سے آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جس وادی کو صوفیوں۔اولیاؤوں اور ریشیوں کی سرزمین کہتے ہیں۔ دراصل زمانہ بدلا نہیں انسان اور اس کا زہن بدل گیا ہے۔ اگر انسان اور اس کا زہن بدلا نہیں ہوتا تو ایک درندہ صفت شیطانی زہن رکھنے والا انسانی شکل میں حیوان ایک جوان سال لڑکی کو قتل کرکے اس کی لاش کو بے دردی کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کرتا۔ایک جنگلی جانور نما بیٹا اپنی اس ماں کو ابدی نیند نہیں سلاتا جس ماں نے اسے نوماہ اپنی کوکھ میں رکھ کر ہر طرح کی سختی کو برداشت کرکے اسے جنم دیکر اور ہر طرح کی پرورش کرکے بڑا کیا اس امید کے ساتھ کہ کل میرا بیٹا میرا سہارا بنے گا لیکن دنیا سے بےخبر بیچاری اس ماں کو کیا معلوم کہ یہی بیٹا کل اس کا قاتل ثابت ہوگا۔حدیث نبوی ﷺ ہے کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے لیکن یہی بیٹا اس جنت کوکس طرح جہنم میں بدل دیتا ہے یہ اب یہاں کی روز کی کہانی بن گئی ہے۔ ان جرائم کو انجام دینے والے درندوں کی اکثر یہی کہانی ہوتی ہےکہ ان درندی کو منشیات کی لت لگ چکی تھی۔ وادی کشمیر جسے جنت بینظیر بھی کہا جاتا ہے منشیات فروشوں کی آماجگاہ بن چکی ہے یہاں کا نوجوان منشیات کی اس لت میں بری طرح سے پھنستا جارہا ہے۔ جس نوجوان کو منشیات کی لت لگ چکی ہے اس نوجوان کو چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں ہےاور نا ہی ماں باپ۔ بھائی بہن یا بھابی کے عزت کی کوئی پرواہ ہے۔اگرچہ جموں و کشمیر پولیس ان منشیات فروشوں پر اپنا شکنجہ مضبوط کرتا جارہا ہے اور آئے دن جموں و کشمیر کے کسی نہ کسی علاقے سے ان بے ضمیر منشیات فروشوں کو پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیتے ہیں حتیٰ کہ ان منشیات فروشوں میں خواتین بھی شامل ہیں تاہم ہمارے سماج میں کئی ایسے لالچی اور خود غرض عنصر بھی موجود ہیں جو چہروں سے بالکل معصوم دکھتے ہیں ان بے ضمیر منشیات فروشوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔پولیس کے پاس کوئی جادوئی علم تو ہے نہیں کہ وہ ان بے ضمیر منشیات فروشوں کو اس جادوئی علم سے قابو کرسکیں البتہ عوام کا فرض بنتا ہےکہ وہ از خود ان عنصر کی نشاندہی کریں جو ہمارے سماج کو کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اور ان کے بارے میں پولیس کو آگاہ کریں۔ جب تک نہ ہم اس منشیات کی بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پولیس کو اپنا تعاون فراہم نہیں کریں گے تب تک ہمارے نوجوان منشیات کا شکار ہوتے رہیں گے اور گھناؤنے جرائم پیش آتے رہیں گے۔حالیہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران (NDDTC) National Drug Dependence Treatment Center نے ایک سوال کے جواب میں انکشاف کیا کہ جموں و کشمیر میں ایک میلین افراد نشے کے عادی بن چکے ہیں جو ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے؟کیا ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ہمارے محلے۔ ہمارے گاؤں یا ہمارے آس پڑوس میں کون سے نوجوانوں نشے کے عادی بن چکے ہیں؟ کیا ہمارا فرض نہیں بنتا ہےکہ ہم اپنے محلے۔ اپنے گاؤں یا اپنے آس پڑوس میں نظر رکھیں؟ ہاں یہ بات بھی صحیح ہے کہ جب ہم اپنے آس پڑوس کے نشے کے عادی نوجوانوں کے بارے میں ان کے والدین سے شکایت کرتے ہیں تو کچھ ایسے بھی جاہل والدین ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو سدھارنے اور نصیحت کرنے کے بجائے شکایت کندہ گان پر ہی ٹوٹ پڑتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نشے کے عادی ان کے بچے بلا کسی خوف و ڈر منشیات کا کھلے عام استعمال کرتے ہیں جو پورے سماج کے لئے نقصان دہ چیز ہے۔ منشیات فروشوں کے خلاف جس محنت اور لگن سے جموں و کشمیر پولیس دن رات کام کررہی ہے اس کام کے لئے جموں و کشمیر پولیس واقعی قابل تعریف ہے۔اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے وادی میں جتنے بھی چھوٹے بڑے جرائم کے معاملے پیش آئے اور ان جرائم کو انجام دینے والے افراد کو جموں کشمیر پولیس نے بالکل کم وقت میں طشت از بام کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔میری ذاتی سوچ یہ ہےکہ وادی میں منشیات کے پھیلاؤ کی سب سے بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کی طرف وقت پر توجہ نہ دینا۔ ان کی ہر فرمائش کو پورا کرنا۔ضرورت سے ذیادہ لاڑ پیارکرنا اور ضرورت سے ذیادہ جیب خرچہ دینا یہاں تک کہ موبائل فون کے غلط استعمال سے بھی بچہ بگڑ نے کا اندیشہ رہتا ہے۔اس بات کا مشاہدہ آپ لوگوں نے بھی کیا ہوگا کہ آجکل کے نوجوانوں میں قوت برداشت کا فقدان ہے چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں رہی ان میں۔شرم و حیا اور اپنے سے بڑوں کی عزت کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔بچے کی پہلی تربیت گاہ اس کا گھر ہوتا ہے اور اس گھر میں جس تربیت سے بچے کو پال پوس کر بڑا کیا جائے گا وہی تربیت بڑا ہوکر بچے کے کام آئے گی۔ اگر تربیت صحیح ہوگی تو بچہ اپنےلئے۔ اپنے والدین۔اپنے خاندان اور دوسروں کے لئے باعث راحت ثابت ہوگا اور اگر غلط تربیت میں پرورش ہوئی ہوگی تو یہی بچہ پورے سماج کے لئے باعث زحمت ثابت ہوگا اور یہی بچے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی غلط کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ منشیات کی لت جیسی لعنت بھی ان ہی جیسے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لےلیتی ہے۔ وقت کی اہم ضرورت ہےکہ والدین اپنے بچوں کی پرورش اسطرح کریں کہ کل یہ بچے جوان ہوکر دوسروں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں۔ اس کے علاوہ مسجد کمیٹیاں۔ محلہ کمیٹیاں اور دیگر لوگ رضاکارانہ طور پر منشیات کے خلاف کام کریں اور جنت بینظیر وادی کشمیر کو منشیات سے صاف و پاک رکھنے میں جموں و کشمیر پولیس کی مدد کریں اور ساتھ ہی ساتھ آئمہ مساجد کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ منشیات کے خلاف وعظ و تبلیغ کریں تب جاکے ہم جنت کہلانے والی اس وادی سے جرائم کے بازار کو کسی حد تک بند کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ انشاءاللہ۔