حالہ ایک رپورٹ کے مطابق جموں کشمیر میں 10 لاکھ افراد مرد خواتین منشیات جیسی بری لت سے متاثر ہوگے ہیں نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے نیشنل ڈرگ ڈیپنڈنس ٹریٹمنٹ سینٹر کے ذریعے حال ہی میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق جموں و کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 10 لاکھ ہے۔ یہ اس کی کُل ایک کروڑ 36 لاکھ آبادی کا سات اعشاریہ 35 فی صد ہے۔
جموں و کشمیر کی علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن جسٹس (ر) حسنین مسعودی کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارتِ انصاف و تفویضِ اختیارات نے منگل کو نئی دہلی میں لوک سبھا میں بتایا تھا کہ علاقے میں ایک لاکھ آٹھ ہزار مرد اور سات ہزار خواتین بھنگ کااستعمال کرتی ہیں جب کہ پانچ لاکھ 34 مرد اور آٹھ ہزار خواتین افیون اور ایک لاکھ 60 ہزار مرد اور آٹھ ہزار خواتین مختلف اقسام کی نشہ آور اشیا کے استعمال کے عادی بن گئے ہیں۔ سروے ایک لاکھ 27 ہزار مردوں اور سات ہزار خواتین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ دم کش ادویات لیتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد کوکین اور اعصابی نظام کو متحرک کرنے والی ایمفٹامین قسم کی ادویات اور ہیلو سینوجنز کی کیمیائی مُرکبات استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ حکومت ہند کی طرف سے سال 2021 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار میں کہا گیا تھا کہ کھپت کے سروے کے مطابق علاقے میں چھ لاکھ افراد منشیات سے متعلق مسائل سے متاثر ہیں ۔ اس سرکاری رپورٹ کے مطابق منشیات کا استعمال کرنے والوں میں 90 فی صد 17سے 33 برس کی عمر کے افراد تھے۔ حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ منشیات کے استعمال کے خطرے نے جموں و کشمیر کے طول و عرض کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
اس بات کا جموں کشمیر کی عوام خود ہی اندازہ لگا سکتی ہے کہ کتنی عوام اس بری لت سے دوچار ہوگئی ہے یہ حیرت انگیز بات ہے کہ اتنی بڑی عوام منشیات کی بد مرض کی شکار ہوگئی ہے صداے افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ جموں اور کشمیر کی ریاست جس کو اولیاء رشیوں ولیوں بزرگان دین کی۔ ریاست کہا جاتا تھا وہ ریاست اب جس کو منشیات کی جھاڑ سمجھا جاتا ہے بدقسمتی ہے کہ جموں کشمیر کی اکثر و بیشتر نوجوان پڑھائی کو چھوڑ کر دین اسلام کو چھوڑ کر اس بری لت کے پیچھے پڑ گئے ہیں جو کہ ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے جس کے باعث ہزاروں کی تعداد میں جانے ضائع ہو چکی ہیں کشمیر کے ہر ایک علاقہ سے دن گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی خبریں ہر روز ہی سنائی جاتی ہیں کے فلاں مقام پر فلاں شخص منشیات لے کر گرفتار کیے یا کئی جگہوں پر نشے کی حالت میں ہو کر قتل کیا ہے اس طرح کی خبریں آج کل کشمیر میں زیادہ تر آرہی ہیں جیسے کرونا وائرس وبا گزشتہ سالوں میں پھیل گئی تھی ویسے ہی یہ مرض بھی پھیل چکی ہے جس کا علاج کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ممکن ہی نہیں کشمیر کی نوجوان نسل اس مرض میں پوری طرح سے متاثرہ ہو چکے ہیں نوجوان نشے کی حالت میں ہو کر اپنے ہی عزیز و اقارب کو قتل کر دیتے ہیں اور ان کو زندگی بھر کی جینے کی خوشیوں سے ہمیشہ کے لئے محروم کا دیتے ہیں اس طرح کے کئی واقعات ہو چکے ہیں ابھی پوری کشمیر بڈگام کے واقعے کی دکھ جی رہی تھی تو حال ہی میں مغربی شہر سوپور میں بدھ کو بیٹے کے ہاتھوں ماں کے قتل کے ایک واقعے کے بعد غم کا ماحول پھیل گیا ہے ۔ تاہم پولیس نے ملزم کو گرفتار تو کرلیا لیکن اس کی بزرگ ماں کی جان تو چل گئی چند ہفتے قبل اسی طرح کا ایک واقعہ بھی پیش آیا تھا جہاں ضلع اننت ناگ میں ایک نوجوان نے اپنی والدہ اور دیگر تین افراد کے سروں پر لاٹھی سے وار کرکے انہیں ہلاک کر دیاتھا۔ دونوں نوجوانوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جرم کا ارتکاب کرتے اؐس وقت وہ نشے کی حالت میں تھے۔
ماہرِ نفسیات ڈاکٹر عبد الوحید خان کا کہنا ہے کہ منشیات کےاستعمال اور جرائم کا آپس میں گہراتعلق ہے۔ ان کے بقول نشہ آور اشیا کے استعمال سے اعصابی نظام بری طرح متاثر ہوجاتا ہے جس کے نتیجے میں نشہ کرنے والے کی دماغی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے اور وہ صحیح اور غلط میں فرق نہیں کرپاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ نشے کے عادی لوگ منشیات اور دیگر نشہ آور اشیا خریدنے کےلیے پیسے حاصل کرنے کی خاطر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور یوں اس سے معاشرے کو نقصان پہنچتے ہیں
منشیات یا ڈرگس ایک ایسا موذی مرض اور عفریت ہے، جس نے لاتعداد خاندانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کر دی ہیں۔ منشیات کے کاروبار و مرض میں مبتلا ہونا نہ صرف انسان کی اپنی ذات اور اس کی زندگی، بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کرنے کے مترادف ہوگا۔ منشیات کے عادی افراد کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی، معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، جرائم و زنا خوری میں اضافہ ہوجاتا ہے، سڑک حادثہ، قتل و غارتگری، غیر طبعی اموات کی شرحیں اپنی اونچائیوں کو چھونے لگتی ہیں۔ شاید انہیں وجوہات کی بنا پر منشیات کو لعنت بھی کہا جاتا رہا ہے۔
دنیا بھر کے ممالک میں منشیات کے استعمال پر پابندی کے قوانین بظاہر موجود ہیں، اس کے استعمال کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تہذیب کی تاریخ۔ انسان نے اس کا استعمال کب شروع کیا اور سب سے پہلے کس نے منشیات کا استعمال کیا اس بارے میں صحیح اندازہ لگانا تو انتہائی مشکل ہے۔ تمام بڑے عالمی مذاہب نے منشیات کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کے باوجود اس لعنت نے جس تیز رفتاری کے ساتھ قدم جمائے ہیں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی جڑیں گہرائیوں تک پھیل گئی ہیں۔ منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ اس بڑھتی تعداد کے کئی اہم وجوہات ہو سکتے ہیں جس میں اس کی کاشت کا ہونا اول الذکر ہے۔ اسی طرح اس غلاظت کا بڑھتا کاروبار، بآسانی دستیابی، تشدد کی لہر، سماجی اثر، بے روزگاری و دیگر گوناگوں مسائل سے پیدا شدہ صورتحال، قومی شاہراہ پر اکثر و بیشتر ڈھابوں کی بھرمار، راتوں رات امیر بننے کا خواب جیسے دیگر اسباب پائے جاتے ہیں۔ اس طرح منشیات کی کثرت اور اس کے مسلسل بڑھنے کے نتیجے میں پوری نوجوان نسل کا مستقبل یقیناً بْرباد ہوتا جا رہا ہے اور صورتِ حال بہت تشویشناک ہے سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ نوجوان جو کسی بھی قوم کی ریڈھ کی ہڈی تصور کئے جاتے ہیں وہ سب سے زیادہ منشیات سے متاثر ہیں۔ منشیات کی لت نے کالج اور یونیورسٹیز کے طلبا و طالبات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس بری مرض کا علاج ایک ہی ہو سکتا ہے کہ ہم سب کا فرض بنتا ہے اس میں آگے آہ کر اس کے خلاف لڑہنں ہماری مذہبی تنظیمیں آئمہ حضرات ہر معاشرے کے ذمہداران اور ہر عام شہری اس میں آگیا کر پولیس کا پورا پورا ساتھ دیں تاکہ معاشرے کی نئی نسل اس بد مرض کا شکار نہ ہو سکے اللہ تعالی ہم سب کو اس مرض سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین