انسانوں اور حیوانوں کے علاوہ اب باغات کا سارا دارومدار ادویات پر ہوکر رہ گیا ہے ۔ اس حوالے سے لوگوں کے ساتھ جو فراڈ کیا جاتا ہے وہ اب کوئی راز نہیں رہا ہے ۔ یہ ایسا کاروبار بن کر رہ گیا ہے جس میں قدم قدم پر دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے ۔ ڈاکٹرپچھلی کئی دہائیوں سے لوگوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں کو بے کار بناکر مریضوں کو پرائیویٹ کلنکوں میں علاج معالجے کے لئے آنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ سرکار کی طرف سے ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ اس کے باوجود ڈاکٹر کھلے عام نجی ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کررہے ہیں ۔ اس وجہ سے عام لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر اس معاملے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ۔ اس ذریعے سے انہیں جس قدر منافع مل رہا ہے اس کو چھوڑنے کے لئے وہ کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہیں ۔ مریضوں سے فیس اور دوسرے واجبات حاصل کرنے کے علاوہ انہیں دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے جو عطیات دئے جاتے ہیں ان کی مالیت لاکھوں روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ اس سے دور رہنا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ انتظامیہ جس کسی ہسپتال پر اچانک چھاپہ ڈالتی ہے وہاں کئی کئی ڈاکٹر غیر حاضر پائے جاتے ہیں ۔ ان کے خلاف علامتی کاروائی کی جاتی ہے جس وجہ سے ڈاکٹر اپنی روش چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔ یہی حال ویٹرنری ڈاکٹروں کا ہے ۔ باغوں میں استعمال کئے جانے والے ادویات کے نام پر جو فراڈ عوام کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اس نے کسانوں کو بہت حد تک مایوس کردیا ہے ۔ اب یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ جتنے اخراجات باغوں کے لئے ادویات خریدنے پر آتے ہیں آمدنی اس سے بہت کم ملتی ہے ۔ اس وجہ سے یہ مکمل طور گھاٹے کا سودا بن کر رہ گیا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان معاملات پر بہت جلد روک لگانے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ عوام اس وجہ سے سخت حیران و پریشان ہیں ۔
ادویات کو لے کر دھوکہ دہی کا طریقہ سب سے پہلے ڈاکٹروں نے شروع کیا ۔ مسیحا کہلانے والا یہ طبقہ اب مکمل طور قصائیوں کی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ ایک تو علاج کے نام پر مریضوں کے ساتھ گھوٹالے کئے جاتے ہیں ۔ ایسے امراض میں ملوث ہونے کا اظہار کیا جاتا ہے جس کا کہیں وجود نہیں ہوتا ۔ بعد میں ایسی ادویات خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے جن میں سے اکثر جعلی اور نقلی ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر کو ان ادویات کے لکھنے پر کافی کمیشن ملتا ہے ۔ نئے ماڈل کی گاڑیاں ، دوسرے شہروں اور ملکوں کی سیر اور جدید قسم کاگھریلو سامان کمپنیوں کی طرف سے عطیے میں مل جاتا ہے ۔ اس دوران مریضوں کو مخصوص دکانوں سے ادویات خریدنے کے علاوہ مقرر کردہ ایجنٹوں سے ٹیسٹ کروانے کے لئے بھیجا جاتا ہے ۔ ان تمام معاملات میں ڈاکٹر باضابطہ خرید و فروخت کرکے اپنے لئے مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ جس ٹیسٹ کی سرے سے ضرورت نہیں ہوتی وہ ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں ۔ ایسا اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس میں ڈاکٹر کا باضابطہ حصہ مشخص ہوتا ہے ۔ یہ ایسا وسیع کاروبار ہے جس نے بینکوں کے لین دین کو بھی پس پشت ڈالا ہے ۔ تازہ پیش رفت یہ ہے کہ باغات میں استعمال ہونے والے ادویات نے ایک وسیع مافیا کی صورت اختیار کی ہے ۔ باغات کو محفوظ بنانے کے لئے ہر کس و ناکس کی طرف سے مشورے دئے جاتے ہیں اور اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہر ہفتے دو ہفتے باغوں میں ادویات کا چھڑکائو کیا جائے ۔ جب ادویات کے چھڑکائو پر اس طرح سے زور دیا جاتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ ادویات کا بڑے پیمانے پر پھیلائوہورہاہے ۔ یہ ایک ایسا کاروبار ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتا ۔ہر بستی اور چوراہے پر باغوں کے ادویات فروخت ہوتے ہیں ۔ ان ادویات کے اصلی یا نقلی ہونے کا کوئی پیمانہ نہیں ۔ ایک طرف زور دیا جاتا ہے کہ ادویات کا کم سے کم استعمال کیا جائے ۔ جراثیم کش ادویات کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ماحول کے ساتھ ساتھ زمین کی پرت پر اس کے برے اثرات پڑتے ہیں ۔ دوسری طرف ہارٹیکلچر ماہرین ایک ایسا شیڈول لے کر سامنے آرہے ہیں جس کے اطلاق سے ادویات کا پھیلائو بڑھ گیا ہے ۔ بارش سے پہلے اور بارش کے بعد ادویات کے چھڑکائو پر زور دیا جاتا ہے ۔ گرمیوں کے بڑھنے کے ساتھ ادویات کی مقدار برھانے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ اب کس کے مشورے پر عمل کیا جائے بے چارے کسان پریشان ہیں ۔ درختوں اور فصل کے بچائو کے لئے ادویات کا استعمال ضروری بن گیا ہے ۔ اس وجہ سے جعلی اور فضول ادویات کی کھپت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور ماہرین نے انسانی زندگی کو وبال بناکے رکھ دیا ہے ۔ انسانی حیات کی قدر کم ہوگئی ہے اور انسانی جان کو کاروبار بنادیا گیا ہے ۔ انسان ، حیوان اور فصلیں سب کچھ ادویات کی بنیاد پر زندہ ہیں ۔ اس کی آڑ میں ایسا کھیل کھیلا جاتا ہے جو شیطان کو بھی شرمندہ کررہاہے ۔