تحریر:غازی پرے
کشمیر میں عام طور پر ہلاکتوں قتل غارت خون خرابے کا سلسلہ گرچہ 1990ء سے ہی چلا آرہا ہے .تاہم اب نئے سرے سے عام شہروں کی بہیمانہ ہلاکتیں چاروں اطراف سے ہونی شروع ہوچکی ہیں۔
آئے روز کہیں نہ کہیں کشمیر کے اندر عسکری کارروائیوں میں سویلین مارے جارہے ہیں. کشمیر کے لوگوں نے بہت ساری لعشیں اپنے کندھوں پر اٹھائی ہیں اور اب تھک چکے ہیں، صبر کا پیمانہ آب لبریز ہوچکا ہے۔
اس لئے اب یہ خون کی ہولی بند ہونی چاہیے. گاہے کسی کو مخبری کا لیبل لگا کر مارا جاتا ہے گاہے کسی کو سیاسی لیبل لگا کر موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے. عسکریت پسندوں و سیکورٹی فورسز دونوں دھڑوں نے جیسے کشمیریوں کو مارنے کی لائسنز حاصل کی ہوئی ہے. بلا خوف و خطر کشمیری جوانوں کو دن دہاڑے قتل کرنا نہ تو جہاد ہوسکتا ہے نہ قتال فی سبیل اللہ اور نہ ہی یہ آزادی کے لیے کوئی ذریعہ ہوسکتا ہے بلکہ الٹا اس سے کشمیر کاذ کو روز بہ روز نقصان ہی پہنچ رہا ہے
حالیہ دنوں میں بڈگام کے اندر کئی ایسے واقعات ہوئے جس میں spo اور اسکے بھائی کو ہلاک کیا گیا.
اسی طرح دیگر جگہوں پر بھی ایسی ہی وارداتیں ہورہی ہیں. کشمیر کی بڑھتی بے روزگاری کے سبب اب یہاں جموں کشمیر پولیس میں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بطور spo کام کررہے ہیں اور بطور کانسٹیبل بھی ہزاروں نوجوان کام کررہے ہیں جب کہ دیگر محکموں میں بھی کشمیری نوجوان سروس کرتے ہیں .اور ان کو آئے روز نشانہ بنانا عسکریت پسندوں کی سب سے بڑی غلطی اور ناکامی کی علامت ہے کیونکہ دونوں جانب سے کشمیری مسلمان مررہے ہیں اس مخاصمت و آپسی رسہ کشی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا.
افسوس اس بات کا ہے کہ مزاحمتی قائدین نے بھی آج تک اس مسئلے پر سوال نہیں اٹھائے. جس کی وجہ سے قتل غارت کا بازار آج تک گرم رہا.
ہم اس پار بیٹھے سیدصلاح الدین سے بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ آیا کشمیر کے برسر روزگار یعنی in service جوانوں کو نشانہ بنانا اگر جہاد ہے تو پھر انکے بیٹے بھی جموں کشمیر سرکارمیں سروس کرتے تھےبھلے ہی وہ سول محکموں میں تھے لیکن گورمنٹ سے تنخواہ لے رہے تھے. اسی طرح گیلانی صاحب کے بیٹے شبیر شاہ صاحب کی بیوی اور نعیم خان صاحب کی بیوی گورمنٹ نوکریاں کررہے ہیں.
اب اگر غریب کا بیٹا ایس پی او کی نوکری کرر ہا ہے اپنی روزی روٹی کے لئے تو انکو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے. اور اگر یہ غلط ہے تو اعلی عسکری و سیاسی قیادت اس پر خاموش تماشائی کیوں بنی ہے ؟ یہ لوگ آواز کیوں نہیں اٹھاتے.
اس وقت جو عسکری لہر کشمیر میں ہےیہ نونہال چھوٹے کم عمر نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی ہے. جنہیں کشمیر کی تاریخی سیاسی وتحریکی اعتبار سے کوئی معلومات ہی نہیں ہے . وہ کشمیر کی تحریک کی ناکامیوں اور دیگر اسباب سے ناآشنا ہیں. اور یہی لہر سب سے زیادہ نقصان دہ و خطر ناک ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ انکے اندر قیادت کا فقدان ہے
اس لئے سماج کے تمام ذی حس و دور اندیش لوگوں کو کشمیر میں آئے روز نوجوانوں کی ہلاکتوں پر حق کی آواز بلند کرنی چاہیے اور امن و آشتی کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنی چاہیے.
