جموں میں سیول سوسائٹی کی طرف سے وقف بورڈ ممبران کا ایک اہم اجلاس منعقد کیا گیا ۔ اجلاس میں جموں کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کو مدعو کیا گیا تھا ۔ اس تقریب میں ان ممبران کی عزت افزائی کی گئی جنہیں حال ہی میں حکومت نے بورڈ کے لئے منتخب کیا ۔ یاد رہے کہ حکومت نے وقف بورڈ کے لئے نئے چیرپرسن کے علاوہ کئی ممبران مقرر کئے ہیں ۔ اس طرح سے بورڈ کے لئے مقرر کیا گیا کورٹا مکمل کیا گیا اور بورڈ کو حتمی شکل دی گئی ۔ یاد رہے کہ تین سال پہلے جب مرکزی سرکار نے جموں کشمیر کی اندرونی خود مختاری ختم کرنے کے لئے آئینی دفعات کو منسوخ کیا تو اس کے بعد وقف بورڈ کے لئے نئے اصول وضوابط مقرر کئے گئے ۔ اس طرح سے بورڈ کے لئے مرکزی وقف بورڈ کے طرز پر تنظیم نو کی گئی ۔ امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ اس ذریعے سے بورڈ بہتر کام کرنے کا اہل ہوگا ۔
وقف بورڈ کے نو منتخب چیر پرسن اور ممبران کے اعزاز میں جو تقریب جموں میں منتخب کی گئی اسے جموں کشمیر کے ایل جی منوج سنہا نے بھی خطاب کیا ۔ سنہا نے اپنے خطاب میں ممبران سے عوامی خدمت انجام دینے پر زور دیا ۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وقف بورڈ اسکول ، کالج اور دوسرے تربیتی ادارے چلانے کے لئے اقدامات کرے گا ۔ یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ سرکار وقف بورڈ کو ایک تنگ دائرے سے نکال کر وسیع فیلڈ میں کام کرنے کے لئے لانا چاہتی ہے ۔ پچھلے ستھر سالوں کے دوران وقف بورڈ کوئی خاص کام انجام دینے میں کامیاب نہ رہا ۔ پچھلی سرکاروں نے اس ادارے کو نجی ملکیت سمجھ کر اس کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا ۔ یہ ادارہ آمدنی کے وسیع ذرایع ہونے کے باوجود عوامی خدمت کا کوئی کام انجام نہ دے سکا ۔ ایک زمانے میں عوام یہی سمجھتے رہے کہ ادارے کو زیارت گاہوں کے نام پر ملنے والی آمدنی کا بڑے پیمانے پر لوٹ کیا جارہا ہے ۔ بلکہ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ وقف آمدنی کو ایک مخصوص تنظیم کو مضبوط بنانے کا کام لیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ وقف بورڈ کو زیارت گاہوں کے لئے نقصان دہ سمجھتا تھا ۔ عوام کا یہ طبقہ بورڈ کو عطیات دینے سے گریز کرتا رہا ۔ اس کے باوجود بورڈ کو آمدنی ملتی رہی ۔ لیکن یہ رقم زیارت گاہوں کے لئے خرچ کی گئی نہ عوامی خدمت کا کوئی کام انجام دیا گیا ۔ تاہم کچھ سال پہلے جب اسلامی یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تو عوام کے اندر خوشی محسوس کی گئی ۔ یونیورسٹی نے بہت حد تک عوام کو مطمئن کرنے کا کام انجام دیا ۔ اس دوران وقف بورڈ کے اندر کئی طرح کے اتار و چڑھائو دیکھے گئے ۔ ایک مرحلے پر خدشہ ظاہر کیا گیا کہ یونیورسٹی کسی بھی وقت بند ہوسکتی ہے ۔ تاہم سرکار نے فنڈس فراہم کرکے یونیورسٹی کو زوال پذیر ہونے سے بچایا ۔ اب وقف بورڈ کی تنظیم نو کے بعد اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے کام انجام دئے جائیں ۔ ملک میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جو عوام سے ملنے والی عطیات کو کام میں لاکر بڑے پیمانے پر فلاحی کام انجام دے رہے ہیں ۔ ملک میں سکھوں ، پارسیوں اور اسی طرح دوسری اقلیتوں کے ایسے ادارے موجود ہیں جو ن صرف اپنی کمیونٹی بلکہ کسی بھی حاجت مند طبقے کی کافی مدد کرتے ہیں ۔ گردواروں کو ملنے والی آمدنی سے دن رات لنگر چلائے جانے کے علاوہ کئی ہسپتال ، کالج اور فلاحی ادارے چلائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح دوسرے اقلیتی ادارے اپنی آمدنی کو انسانیت کی خدمت کے لئے خرچ کرتے دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس مسلمان ایسا کوئی کام انجام دینے میں بری طرح سے ناکام رہے ۔ یہاں مولویوں کا ایسا شاطر طبقہ عوام پر سوار ہوچکا ہے جو عوام سے ملنے والے عطیات اور خیرات کو اپنی ذاتی پراپرٹی بنانے پر صرف کررہاہے ۔ انہوں نے اپنے ظاہری حلیے اور عوام کی سادگی کا استحصال کرکے ایسے اثاثے کھڑا کئے ہیں جو ان کی کئی نسلوں کے کام آسکتے ہیں ۔ ان اثاثوں کو واقعی عوام کو تعلیم دینے اور تربیت کرنے پر خرچ کیا جائے تو غریب طبقے کو آگے بڑھانا مشکل نہیں ۔ لیکن بدقسمتی سے آج تک ایسا ممکن نہ ہوا ۔ حد تو یہ ہے کہ سرکار بھی ان اداروں کا احتساب کرنے کی جرات نہیں کرپارہی ہے ۔ اب وقف بورڈ کی تنظیم نو کے بعد اس بات پر زور دیا جارہاہے کہ اس ادارے کو کسی مخصوص طبقے یا سیاسی گروہ کو فائدہ پہنچانے کے بجائے عوام کی خدمت کے لئے استعمال کیا جائے ۔ ایسا ممکن ہوا تو یقینی طور یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی ۔ اس ذریعے سے عوام کے پسماندہ طبقوں کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی ۔ ایل جی نے جس انداز میں یہ پیغام دیا امید کی جارہی ہے کہ اس کو وقف بورڈ کی پالیسی سمجھا جائے گا ۔