تحریر:اسد مرزا
گزشتہ پندرہ دنوں اور خاص طور سے پچھلے ہفتے نئی دہلی میں سفارتی سرگرمیوں میں ہلچل دیکھی گئی، وزرائے خارجہ اور سلامتی کے مشیروں کی کافی بڑی تعداد ہندوستانی قیادت کو روس-یوکرین جنگ پر اپنا موقف تبدیل کرنے اور روس کے خلاف مغربی اتحاد کی حمایت کرنے پر راضی کرنے کے لیے آئے ہندوستان تشریف لائے تھے۔
پندرہ روز قبل امریکی رہنماؤں کی طرف سے ہندوستانی موقف کی سخت مذمت اور الزام تراشی بھی دیکھنے میں آئی جسکا ہندوستان نے سفارتی طور پر مناسب انداز میں جواب دیا۔ اقتصادیات پر امریکی نائب NSA، دلیپ سنگھ کی ہندوستان آمد سے قبل، امریکی کامرس سکریٹری جینا ریمنڈو نے بدھ 30 مارچ کو ملکوں پر زور دیا کہ وہ تاریخ کی دائیں جانب یعنی صحیح سمت کھڑے ہوں، نہ کہ صدر پوٹن کی جنگ کے لیے فنڈ، ایندھن اور امداد مہیا کرائیں۔
امریکہ کی طرف سے دلیپ سنگھ نے مرکزی وزیر تجارت پیوش گوئل اور خارجہ سکریٹری ہرش شرنگلا کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں مبینہ طور پر ”ہندوستان کو ماسکو کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے بارے میں خبردار کیا” اور یہ واضح کیا کہ اگر ہندوستان روس کے ساتھ کاروبار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ثانوی پابندیوں کے جال میں پھنسنے کا خطرہ بھی اٹھا سکتا ہے۔
جمعرات 31 مارچ کو، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی آمد سے چند گھنٹے قبل، سنگھ نے ہندوستان میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ روس سے ہندوستان کی درآمدات خاص طور پر توانائی کی مصنوعات میں اضافہ دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔ انہوں نے مبینہ طور پر یہ بھی خبردار کیا کہ ہندوستان سمیت ممالک کے لیے ”نتائج” ہوں گے۔
بھارتی حکومت نے ان ریمارکس اور عوامی دھمکیوں کو کافی غیر سفارتی قرار دیا۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے سابق مندوب سید اکبر الدین نے ٹویٹ کیا کہ ’’یہ سفارت کاری کی زبان نہیں ہے… یہ جبر کی زبان ہے… کوئی اس نوجوان کو بتائے کہ تعزیری یکطرفہ اقتصادی اقدامات روایتی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں…‘‘
مزید، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے برطانوی خارجہ سکریٹری لز ٹرس کے ساتھ ایک پینل مباحثے میں نشاندہی کی، کہ روسی تیل کی درآمدات ہندوستان کی توانائی کا ایک چھوٹا حصہ ہیں، جب کہ خودبرطانیہ نے فروری اور مارچ کے درمیان روسی تیل اور گیس کی اپنی خریداری میں بہت اضافہ کیا تھا یعنی کہ ماسکو کے یوکرین میں اپنی افواج بھیجنے سے پہلے۔
لاوروف کا دورۂ ہندوستان
اس طرح ایک اچھی طرح سے تیار کردہ بیانیے اور جواب میں ہندوستانی حکومت برطانیہ اور امریکہ دونوں کو ان کی جگہ دکھانے میں کامیاب رہی دراصل یہ دونوں ممالک مارچ کے آخری ایام میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے نئی دہلی کے دورے پر زیادہ فکر مند تھے۔
اس دورے کو دہلی نے جو اہمیت دی ہے اس کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ہندوستان کا دورہ کرنے والے تمام غیر ملکی معززین میں سے صرف لاوروف ہی وزیر اعظم مودی سے مل پائے تھے۔
اپنی طرف سے لاوروف نے واضح طور پر اپنا پیغام پیش کیا کہ وہ بین الاقوامی تعلقات کو مستحکم کرنے اور ”بین الاقوامی معاملات میں برابری” کو یقینی بنانے کے لیے روس-ہندوستان-چین سہ فریقی میکانزم کو فعال طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس رشتے کو ہماری ‘ٹروائیکا’ – RIC (روس، ہندوستان، چین) کے طور پر بھی بیان کیا۔
مسٹر لاوروف چین سے ہندوستان پہنچے تھے۔ ان کے چینی دورے سے حاصل ہونے والے سفر کا خلاصہ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ چینی رہنماؤں سے ان کی بات چیت کا محور عالمی طور پر کثیر قطبی رجحانات کو قائم کرنے اور اس میں تیزی لانے کی کوشش کرنا تھا۔اس کے علاوہ امریکہ کی یک قطبی بالادستی پر دوسرے ملکوں میں روزانہ سوال اٹھا رہے ہیں کیونکہ اس نے عالمی نظام کو از سر نو تشکیل دینے کے لیے بہت سی نئی تجاویز پیش کی ہیں جو کہ زیادہ تر ممالک کو قبول نہیں ہیں۔ چین اور روس کا ماننا ہے کہ ان کے قریبی تعاون کے ذریعے اس نئے کثیر قطبی عالمی نظام کی بنیاد کو مستحکم کیا جاسکتا ہے۔
چینی حکومت نے یکم اپریل کو روس یوکرین تنازعہ کو بھڑکانے کے الزام میں امریکہ پر تنقید کی اور اسے نیٹو کی توسیع کا ذمہ دار ٹھہرایا۔وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہاکہ امریکہ نے کسی بھی ملک کی جارحیت سے خود کو اور اپنے اتحادیوں کو بچانے کے لیے نیٹو کے ارکان کی تعداد 16 سے بڑھا کر 30کر دی ہے جو کہ کافی تشویشناک ہے۔
ژاؤ نے مزید کہا کہ چین پابندیوں کے ذریعے مسائل کے حل کو ناپسند کرتا ہے، اور وہ یکطرفہ پابندیوں اور طویل دائرہ اختیار کا بھی مخالف ہے جن کی بین الاقوامی قوانین میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔
بھارت کی طرف سے، بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یکم اپریل کو نئی دہلی میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے ساتھ ملاقات کے بعد کہا کہ بھارت ہمیشہ چین کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کے واضح حوالے سے، سفارتکاری کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے کے حق میں رہا ہے اور روس یوکرین جنگ کے حوالے سے بھی اس کا یہی موقف ہے۔ جے شنکر نے مزید کہا کہ عصری عالمی نظم اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قوانین اور ملکوں کی خودمختاری اور علاقائی سا لمیت کے احترام پر مبنی ہیں۔اور اس سے کسی بھی طریقے کی چھیڑ چھاڑ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اپنی طرف سے لاوروف نے ہندوستان کے اصولی موقف کی تعریف کی اور یہاں تک کہہ دیاکہ ہندوستان کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری بحران کے حل کے لیے ثالث کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
بھارتی خارجہ پالیسی کی ’اصلاحی تبدیلی‘
اگر ہم مسٹر لاوروف کے چین اور ہندوستان میں میں دیے گئے بیانات اور چینی حکومت کے بیانات کو باریکی سے دیکھیں تو پائیں گے کہ چین میں لاوروف کی طرف سے ایک نئی کثیر قطبی دنیا کی شکل اختیار کرنے کے حوالے سے اور ہندوستان کا بین الاقوامی برادری پر اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے،یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ واقعی عالمی نقشہ دوبارہ تیار ہونے والا ہے، اور بہت جلد ہم اس کے گواہ بن سکتے ہیں۔ یک قطبی یا دو قطبی دنیا کی نہیں بلکہ کثیر قطبی دنیا کی تشکیل نو اب ایک حقیقت نظر آرہی ہے۔ جب یہ نظم کوئی نئی شکل اختیار کرلے گا تو جس انداز میں عالمی مسائل کو حل کیا جاتا ہے وہ مکمل طور پر بدل جائے گا۔ڈرامائی طور پر اس کے علاوہ عالمی سیاسی کھیل پر امریکی کنٹرول میں کمی بھی واقع ہوگی۔
دراصل ہندوستان کے متوازن اور اصولی موقف نے اس کی خارجہ پالیسی کی عالمی پختگی کو ظاہر کردیا ہے، جو کہ اس وقت موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ’اصلاحی تبدیلی‘ کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے، جس کے معنی ہیں کہ اب ہندوستان ان پرانے اصولوں پر نہیں چلے گا جن پر وہ چلتا آیا تھا۔ بلکہ اب وہ اپنی خارجہ پالیسی، حقائق، موجودہ صورتِ حال اور اپنی ضروریات کے مطابق طے کرے گااور کسی بھی ملک کی بیجا دخل اندازی کو برداشت نہیں کرے گا۔یعنی کہ اب وہ بین الاقوامی سفارتی میدان میں ایک نیا کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہ سب کچھ PM مودی کی قیادت میں اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی نگرانی میں ہندوستانی خارجہ پالیسی ٹیم نے پیش کیا ہے۔ اس نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا ہے کہ ہندوستان اب امریکی بالادستی سے مرعوب ہونے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی پالیسیوں کو وقت کی ضرورت کے مطابق اپنا راستہ خود طے کرے گا۔ یہ اس ”اصلاحی تبدیلی” کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، جو ہندوستانی حکومت اپنی خارجہ پالیسی میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔ ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)