تحریر: ظہور احمد ظہور
رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان کے تین عشروں کی الگ الگ خصوصیات بتائی ہیں ۔ پہلے عشرے کو رحمت کا عشرہ کہا ہے ۔ دوسرے عشرے کو مغفرت کا اور آخری دس دنوں کو نار جہنم سے نجات کا عشرہ فرمایا ہے ۔ رواں ماہ رمضان کا پہلا عشرہ گزر چکا ہے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ اس کی رحمتوں کے امیدوار بن گئے ۔ کون سے لوگوں نے ہاتھ پھیلاکر اللہ سے رحمت مانگی اور کتنے لوگ اس رحمت کے حقدار بن گئے ۔ اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ یقینی طور بہت سے روزہ دار ہونگے جنہوں نے رات کو اٹھ کر اللہ سے رحمت مانگی ہوگی ۔ بہت سے لوگ ہونگے جنہوں نے شب بیداری کرکے ، اپنی نیند حرام کرکے ، اپنے نرم بستر چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں دامن پھیلاکر رحمت کی درخواست کی ہوگی ۔ ان میں سے کچھ لوگ ضرور ہونگے جن کی درخواست رد نہیں کی ہوگی ۔ بلکہ ان کے حق میں ان کی درخواست قبول ہوئی ہوگی ۔ ایسے بہت سے لوگ اللہ کی رحمتوں کے حقدار قرار دئے گئے ہونگے ۔ امید ہے کہ باقی لوگوں کو ان کی وساطت سے رحمت کا حصہ ملے گا ۔ دنیا ان ہی لوگوں سے آباد اور شاداب ہے ۔
ماہ رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت کا عشرہ ہے ۔ مغفرت یقینی طور گناہ گاروں کی ہوگی ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر نیک بندہ تلاش کئے بغیر مغفرت کا حقدار ہے ۔ اللہ کے نبی راتوں کو اٹھ کر مغفرت کی دعائیں مانگتے تھے ۔ ہر نماز کے بعد استغفار کرتے اور فرماتے میں اللہ سے سو بار مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ اپنے اہل و عیال سے بار بار کہتے کہ اللہ سے توبہ کرو اور مغفرت مانگو ۔ یہ نہ سوچو کہ نبی کا رشتہ کام آئے گا اور نجات پائیں گے ۔ ان ارشادات کو دیکھ کر ہر کسی کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کی مغفرت تلاش کرے ۔ نماز اور روزے کافی نہیں ہیں ۔ روزہ داری ہر کسی کے لئے مغفرت کا سبب نہیں ہوسکتی ۔ بہت سے روزہ دارایسے ہیں جنہیں بھوک اور پیاس کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا ۔ بہت سے شب بیدار ایسے ہونگے جنہیں بے آرامی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا ۔ ایسے لوگوں نے اپنی نیند ضایع کی اور آرام کو برباد کیا ۔ حاصل کچھ نہیں ہوگا ۔ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے کہ نماز پڑھو ، روزے رکھو اور دعائیں مانگو تو بخش دئے جائو گے ۔ نہیں اس کے ساتھ کچھ لوازمات اور بھی ہیں ۔ قانون کافی نہیں ۔ اس کے بعد رولز بھی ہیں ۔ قاعدے بھی ہیں ۔ اصول وضوابط بھی ہیں ۔ کچھ دوسرے فرائض بھی ہیں ۔ بنیادی احکامات بھی ہیں ۔ آپ کا پاس پروس بھی ہے ۔ ہمسایے بھی ہیں ۔ رشتے دار بھی ہیں ۔ آپ کے ساتھی بھی ہیں ۔ دوست احباب بھی ہیں ۔ مسایے بھی ہیں ۔ انسان اکیلا اور تنہا زندگی گزار نہیں سکتا ہے ۔ انسان سے پہلے ایسی بہت سی مخلوق موجود تھیں ۔ اللی کی عبادت کرنے والے لا تعداد فرشتے تھے ۔ اس کے احکامات ماننے والے سیارے اور ستارے تھے ۔ بہت سے دوسرے حشرات بھی تھے ۔ سمندر تھے ۔ پہاڑ بھی تھے ۔ چاند تارے بھی تھے ۔ دن رات کا چکر جاری تھا ۔ لیکن ان کا آپس میں کوئی تعلق نہ تھا ۔ کوئی رشتہ نہ تھا ۔ کوئی باہم محبت و نفرت موجود نہ تھی ۔ انسان کو پیدا کیا گیا تو ساتھ میں اس کا رشتہ بھی تخلیق کیا گیا ۔ تخلیق آدم کا مرکزی نکت یہی تھا جس سے فرشتے واقف نہ تھے ۔ اللہ نے اس تخلیق پر سوال اٹھانے والوں سے کہاکہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ وہ بہت سی باتوں کو نہیں جانتے تھے ۔ خاص کر باہم تعلق اور رشتے سے نابلد تھے ۔ ان کے درمیان ایسی کوئی چیز موجود نہ تھی ۔ یہاں تک کہ آدم نمودار ہوا ۔ امین پر اتارا گیا ۔ انسانوں کے اندر پایا جانے والا جذبہ انسانیت ، باہم تعلق اور محبت اس کے اللہ سے رشتے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایک انسان کا دوسرے انسانوں کے ساتھ کیسا تعلق ہے اللہ کی رضا اور مغفرت کا ضامن ہے ۔ اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو اس کے بندوں پر رحم نہیں کرتا ۔ یہی جذبہ رحمت باعث مغفرت ہوگا ۔ ایسے لوگوں کے لئے مغفرت نہیں جن کے اندر جذبہ رحمت نہیں ۔ رحیم اور رحمان ہونا اللہ کی اولین صفات ہیں ۔ ان کا عکس جس بندے میں نہیں وہ اللہ کے قرب سے محروم ہے ۔ یہی اوصاف اللہ کے قریب ہونے کی نشانی ہیں ۔ اللہ سے دوری اس کی مغفرت سے دوری کا باعث ہے ۔ اللہ سے نزدیکی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بندوں سے تعلق پیدا کیا جائے ۔ خدا کے بندوں سے نزدیکی بنائی جائے ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں سے قرب پیدا کیا جانا چاہئے ۔ نہیں اتنا ہی کافی نہیں ۔ یہ قرب بلا تفریق ہونا چاہئے ۔ تمام انسان اللہ کی مخلوق ہیں ۔ ان کے درمیان لکیر کھینچنا صحیح نہیں ۔ اللہ کے نبیوں اور پیغمبروں نے ایسا نہیں کیا ۔ اللہ کے نیک بندوں نے کہیں یہ اصول وضع نہیں کیا ۔ یہ ہماری تنگ نظری کی پیداوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ کی رحمتوں اور اس کی مغفرت سے محروم ہیں ۔ ماہ رمضان کے دوران صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنا بتاتا ہے کہ وہ لوگ کیسے زندگی گزارتے ہیں جنہیں پورا دن کھانے کو کچھ نہیں ملتا ۔ جنہیں فاقوں پر فاقے کرنا پڑتے ہیں ۔ جن کا عیال سوتا ہے تو خالی پیٹ سوتا ہے ۔ جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ۔ جن کے پاس اپنے عیال کو دینے کے لئے کچھ نہیں ۔ ایسے لوگ موجود ہوں اور ہمارے دستر خوان لذیذ نعمتوں سے سجے ہوں ۔ ہمیں کسی کے فکر کرنے کے بجائے اپنا پیٹ بھرنے کی فکر ہو ۔ پھر ڈکار مار مار کر اللہ سے مغفرت طلب کریں اور دعویٰ کریں کہ ہم نے روزوں کا حق ادا کیا ۔ م نے تیس کے تیس روزے رکھے ۔ ہم نے مغفرت طلب کرکے اس کی سند حاصل کی ۔ ایسا نہیں ۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ ہے ۔ خالی تیس روزوں سے ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ ماہ رمضان کے اس مغفرت کے عشرے کو اپنے لئے فائدہ مند بنانے کے لئے پہلے خود کو دوسروں کے لئے فائدہ مند بنانا ہوگا ۔ جب ہی اللہ کی مغفرت نصیب ہوگی ۔