تحریر:سہیل بشیر
لوگوں کے آپسی تعلقات اس بنیاد پر قائم ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے یا گمان رکھتے ہیں۔جو گمان ایک انسان کو دوسرے انسان کے متعلق ہوگا، ویسا ہی رویہ وہ اس کے ساتھ اختیار کرے گا، چونکہ دین اسلام چاہتا ہے بندوں کا آپسی تعلق خیر خواہی پرمبنی ہو، وہ ایک دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوں لہذا اہل ایمان کو کچھ چیزوں سے روکا گیا ہے، ان میں ایک اہم چیز بہت زیادہ گمان ہے۔قرآن حکیم میں ہے ” بہت زیادہ گمان سے بچو ” (الحجرات)لفظ ظن عربی میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں آتا ہے۔ قرآن حکیم انسان کو بدگمانی ہی سے نہیں کثرت گمان سے روکتا ہے کیونکہ کثرت گمان بدگمانی ہی کی طرف لے جاتا ہے. چنانچہ رب العزت نے ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بخشی ہے تو انسان کے دل میں گمان کا پیدا ہونا ظاہر ہے ،اسی گمان ہی کی بدولت ایک انسان سائنس کے میدان میں ترقی کرسکتا ہے، نئی نئی دریافتیں کرسکتا ہے،البتہ اگر گمان کی ڈائریکشن منفی ہو تو اس کے کافی منفی اثرات مترتب ہوتے ہیں۔اسلام چاہتا ہے کہ انسان دوسروں کے متعلق حسن ظن سے کام لے وہ ہر طرح کے گمان سے نہیں روکتا وہ اس گمان سے روکتا ہے جس کا تعلق اخلاقیات سے ہے، یعنی اس چیز سے منع کیا گیا ہے انسان کسی کی زندگی میں اس کی نجی زندگی یا پرائیویسی کو اپنے منفی گمان کا نشانہ بنائے ۔یہاں کسی کی نیت (intention) پر حملہ نہیں ہوتا ۔ایک بار ایک جنگ میں حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کسی آدمی نے مرتے وقت کلمہ پڑھا اس کے باوجود آپ نے اس کو قتل کیا، معاملہ جب نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچا تو آپ نے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کیا اس نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر ڈالا؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،اس نے ایسا صرف اسلحہ کے ڈر سے کہا تھا” آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا “تم نے اس کا سینہ چیر لیا ہوتا کہ تم جان لیتے کہ اس نے کلمہ اسلام دل سے کہا یا نہیں” حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ یہ جملہ بار بار دہراتے رہے اور میں سوچ رہا تھا کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا اور یہ غلطی مجھ سے صادر نہ ہوئی ہوتی ۔(مسلم)یہ ہے دین اسلام کا مزاج ،اسی مزاج کی بدولت لوگ آپس میں جڑتے ہیں ، لیکن ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اگر کوئی ہمارے ساتھ آنا چاہتا ہے ہم اس کی نیت پر شک کرتے ہیں۔ اس سوچ سے ہمارے اندر داعیانہ مزاج سے زیادہ منفی مزاج پیدا ہوا ہے۔اسلامی معاشرہ’ کانسپیریسی تھیوری‘ کا روادارنہیں۔دور عثمانیؓ میں لوگ سازش کرتے رہے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ان کے خلاف کارروائی اس وجہ سے نہیں کی کہ سازش ظاہر نہ تھی ۔اسلام میں ایک انسان کے جان، مال اور عزت کی کافی حرمت ہے، لہذا بدگمانی سے اس حرمت میں کمی نہ آئے اس کے لیے یہ حکم دیا گیا۔ روایت میں آتا ہے کہ “نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کعبہ کرتے ہوئے فرمایا تو کتنا پاک گھر ہے ؟ تو کیسی بڑی حرمت والا ہے؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ مومن کی حرمت اس کے مال اور اس کی جان کی حرمت اور اس کے ساتھ نیک گمان کرنے کی حرمت اللہ تعالی کے نزدیک تیری حرمت سے بہت بڑی ہے۔ (ابن ماجہ) “. اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان گمان ہی نہ کرے۔کبھی کبھی گمان کرنا ضروری بن جاتا ہے۔مولانا سید ابوالاعلی مودودی اپنی تفسیر’ تفہیم القرآن‘ میں لکھتے ہیں”مطلقاً گمان کرنے سے نہیں روکا گیا ہے بلکہ بہت زیادہ گمان سے کام لینے اور ہر طرح کے گمان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس حکم کو سمجھنے کے لیے ہمیں تجزیہ کر کے دیکھنا چاہیے کہ گمان کی کتنی قسمیں ہیں اور ہر ایک کی اخلاقی حیثیت کیا ہے : ایک قسم کا گمان وہ ہے جو اخلاق کی نگاہ میں نہایت پسندیدہ اور دین کی نظر میں مطلوب اور محمود ہے ، مثلاً اللہ اور اس کے رسول ﷺاور اہل ایمان سے نیک گمان اور ان لوگوں کے ساتھ حسن ِظن جن سے آدمی کا میل جول ہو اور جن کے متعلق بد گمانی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔ دوسری قسم کا گمان وہ ہے جس سے کام لینے کے سوا عملی زندگی میں کوئی چارہ نہیں ہے۔ مثلاً عدالت میں اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا کہ جو شہادتیں حاکم عدالت کے سامنے پیش ہوں ان کو جانچ کر وہ غالب گمان کی بنا پر فیصلہ کرے ، کیونکہ معاملہ کی حقیقت کا براہ راست علم اس کو نہیں ہو سکتا ، اور شہادتوں کی بنیاد پر جو رائے قائم ہوتی ہے وہ زیادہ تر یقین پر نہیں بلکہ ظنِ غالب پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بکثرت معاملات میں ، جہاں کوئی نہ کوئی فیصلہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور حقیقت کا علم حاصل ہونا ممکن نہیں ہوتا ، انسان کے لیے گمان کی بنیاد پر ایک رائے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ گمان کی ایک تیسری قسم وہ ہے جو اگرچہ ہے تو بد گمانی ، مگر جائز نوعیت کی ہے اور اس کا شمار گناہ میں نہیں ہو سکتا۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کی سیرت و کردار میں یا اس کے معاملات اور طور طریقوں میں ایسی واضح علامات پائی جاتی ہوں جن کی بنا پر وہ حسن ظن کا مستحق نہ ہو اور اس سے بد گمانی کرنے کے لیے معقول وجوہ موجود ہوں ایسی حالت میں شریعت کا مطالبہ یہ ہرگز نہیں ہے کہ آدمی سادہ لوحی برت کر ضرور اس سے حسن ظن ہی رکھے۔ لیکن اس جائز بد گمانی کی آخری حد یہ ہے کہ اس کے امکانی شر سے بچنے کے لیے بس احتیاط سے کام لینے پر اکتفا کیا جائے۔ ”
اسلام لوگوں کے اندر مثبت مزاج پیدا کرتا ہے۔جس قوم اور گھر میں بدگمانی عام ہو جائے وہاں شر اور فساد ہی پیدا ہوگا۔وہاں تعمیر کے بجاے تخریب ہی ہوگی، وہاں آپسی تعلقات میں خیر خواہی نہیں ہوگی وہاں آپسی تعلقات خراب ہی ہونگے۔ ایسے میں دلوں میں میل ہی آئے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ” مجھے میرے ساتھیوں میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی بات نہ پہنچاے، اس لیے کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں تم لوگوں میں آوں تو میرا دل تم لوگوں کے بارے میں صاف ہو “. یہ مومن کا رویہ ہونا چاہیے لیکن آج ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دوسروں کے بارے میں بدگمان کرتے رہتے ہیں، حد تو یہ ہے کہ دین دار طبقہ میں بھی ایسا رویہ ہمیں ملتا ہے۔بدگمانی سے اس وجہ سے بھی روکا گیا ہے کیونکہ اس میں خطا کا امکان ہے انسان اندازے لگاتا ہے جو جھوٹ بھی ہو سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے”دوسروں کے متعلق بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی کرنا سب سے جھوٹی بات ہے (بخاری و مسلم)، اسی طرح بدگمانی کی وجہ سے فرد نفسیاتی مریض بن جاتا ہے اور ایسا فرد سماج کے لیے تباہ کن ہے۔بدگمانی کا علاج یہ ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے بارے میں یہ گمان رکھے کہ سب انسان اچھے ہیں،البتہ سب سے غلطی ہو سکتی ہے۔ساتھ ہی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ رب العزت نے لوگوں کے مختلف مزاج بنائے کچھ کے نرم تو کچھ کے گرم، اسلام لانے کے بعد بھی کچھ صحابہ کرام تیز مزاج تھے تو کچھ نرم مزاج، یہ باتیں جب ذہن میں ہوں تو بندے کا رویہ دوسروں کے متعلق خیر خواہی پر قائم ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انسان کی فطرت میں خیر ہے۔تقوی اور تزکیہ کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو، دل کی صفائی کے لیے بندے کو مسلسل کوشش کرنی چاہیے۔اگر انسان دل کی صفائی کرتا رہے گا تو بدگمانی کے گناہ عظیم سے چھٹکارا ممکن ہے۔