تحریر:صارم اقبال
مسلمانوں کی تاریخ میں ہندوستان میں فن موسیقی کا پہلا باب جہاں فن موسیقی نے ترقی کی بلندیوں کو چھوا وہ چودہ اور پندرہویں صدیاں تھیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ بادشاہوں سے پہلے مشایخ صوفیہ نے پہلے محفل سماع کا آغاز کیا اور حال و قال کی مجالسوں میں سماع کو جاری و ساری رکھا اور ساتھ ہی صوفی حضرات نے بڑی خوش اسلوبی سے محفل سماع کی محفلوں کو رواج دے کر اس پاکیزہ اور دل کش اسلوب کو زندہ جاوید رکھا۔محفل سماع کو صوفیہ حضرات نے رقص روح کا نام دے کر ترقی کی بلندیوں کی طرف لے لیا۔ اگرچہ ہند میں صوفیانہ سماع کے بارے میں ذیادہ تر معلومات حاصل نہیں تاہم یہ بات اس حوالے سے بیان کی جاتی ہے کہ جب ہند کی سرزمیں میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چستیؒ تشریف آور ہوئے تو آپؒ نے بھانپ لیا کہ یہاں کی آبادی میں ہندی موسیقی کا کافی چلن تھا تو آپ ؒ نے نو مسلموں کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لئے نماز مغرب یا عشاء کے بعد حمد و ثناء و نعت و مناقب کی ترغیب دی جس نے بعد میں قوالی یا سماع کی شکل اختیار کی۔چونکہ حضرت خواجہؒ کے سلسلہ چستیہ کے کافی مرید ہندوستان کے گوشوں میں پھیل گئے جس سے قوالی ملک کے ہر کونے میں متعارف ہوئی۔اگرچہ کہیں کہیں یہ فن جواز میں رہا تو کہیں اس فن کی مخالفت ہوئی جس حقیقت کو اجاگر کرنے کے لئے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نے فرمایا کہ۔۔نہ ایں کار می کنم،نہ انکار می کنم۔۔۔اپنی اپنی طبعیت کا مسلئہ بنتا رہا۔ مگر یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ بادشاہوں کے درباروں میں پہلے پہل فن موسیقی کو کافی زیادہ اہمیت دے کر۔ اگرچہ یہ فن آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا رومانیت کے رنگوں کے ساتھ بھی اپنے چاہنے والوں کا ساتھ دیتا رہا۔۔۔لیکن فن موسیقی کو اہل تصوف وتصوف سے وابستہ بادشاہوں و امراء نے عارفانہ کلام تک پہنچا کراس فن و فنکاروں کو کافی حد تک حوصلہ افزائی کی۔۔مسلمان حکمرانوں نے ہندی موسیقی کو فارسی زبان کی شاعری کے ذریعے تازہ دم کرایا اور باضابطہ فن موسیقی کو گائکوں کے ذریعے اپنے دربار کی زینت سے آراستہ کیا۔
مغلیہ سلطنت کا شہنشاہ اکبر موسیقی کا دلدادہ تھا آپ کے عہد میں فن موسیقی میں غیر ملکی اثرات یا تبدیلیاں اثر انداز ہوئیں ۔ اگر چہ بعض تبدیلیاں مسلم اصولوں کو مد نظر رکھ کر نظر انداز کی گئی تھیں تا اہم اکبر فن موسیقی اور فنکاروں کا قدر دان رہا۔اکبر کے عہد سلطنت میں سوامی ہری داس اور تان سین (تر لوچن داس) جیسا درخشاں ستارہ موجود تھا۔ تان سین ہندوستان کی موسیقی کا ایسا ستارا گردانا جاتا ہے جس کے متعلق اکبر کہتے تھے کہ ،۔۔۔ دنیا میں کیا ایسا کوئی ہوگا جو تان سین جیسا گا سکے۔تان سین نے کئی راگ ایجاد کئے جن میں درباری،میاں کی توڑی،میاں کا سارنگ اور میاں کی ملہار مشہور ہیں۔ مزید میاں محمد خاں اور نتھن خاں نے بول تان کا اضافہ کر کے اسے مزید نکھارا۔ اس کے علاہ اکبر شاہی میں مشہور گویے راجا مان سنگھ موسیقی کا مربی تھا۔اکبر شاہی میں موسیقی کو کافی حد تک تبدیلیوں کے ساتھ ہی ساتھ مخلف آلہ موسیقی وجود میں آگئے ۔ اس طرح شہنشاہ جہانگیر،شاہجہاں کے درباروں میں فن موسیقی کو اہمیت دے کر فن کو طرح طرح سے نکھارا۔اس کے بعد یہ سلسلہ اورنگ زیب کے عہد میں موسیقی کو پابندی لگا دی گئی۔شاہان اودھ کے عہد میں واجد علی شاہ صادق علی خاں کے ذریعے ٹھمری اور داد میں موسیقی کو کافی ترقی ہوئی ۔ محمد شاہ رنگیلا کے عہد میں بادشاہوں کے اوصاف کو بیان کرنے کا ایک نیا خیال متعارف ہوا جو مغلیہ سلطنت میں مشہور صنف بنی۔سلطان علاو الدین،جلالدین خلجی،سید قطب الدین مبارک شاہ، غیاث الدین تغلق کے دربا کے مشہور معروف ہستی امیر خسرو سے کون واقف نہیں آپ نہ صرف راگی تھے بلکہ ایک نامور شاعر و مدبر سیاست دان کے ساتھ بہادر سپاہی بھی تھے۔امیر خسرو کو قوالی کا موجد قرار دیا جاتا ہے۔امیر خسرو کے قوالی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک روز بیجاپور کے ایک مشہور گویا گوپال نائک بادشاہ علاو الدین کے دربار میں حاضر ہوا اور وہاں بادشاہ کے مقرر کردہ گویوں سے سبقت لے گیا۔ اسی دوران امیر خسرو نے گوپال نائیک کی سبقت کو مد نظر رکھ کر اپنے منفرد انداز میں ترانہ اور قوالی میں باندہ کر سنایا جس سے گوپال کے ہمراہ بادشاہ بھی حیران ہوا اور دربار میں قوالی کا فن مشہور ہوگیا اور قوالی کی شروعات ہونے لگی۔اس طرح سے قوالی ہند کی مشہور فن کی شروعات ہوئی۔امیر خسرو کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ واحد محقق اور اختراع کار تھے جس نے اہل ہنود کی موسیقی کا پرانا ڈھانچہ تبدیل کر کے وہ نظام موسیقی رائج کیا جو آج ہمارے سامنے موجود ہے۔آپ نے رائج الوقت موسیقی کی بنیاد ایرانی طرز نظام موسیقی کے مطابق رکھی۔مسلمان صوفیاء کرام و قوال کے ذریعے یہ نظام موسیقی ملک کے ہر ایک کونے میں پہنچ گئی۔ امیر خسرو ؒنے اپنے مرشد کریم حضرت نظام الدین اولیائؒ کے دربار میں لگ بھگ چالیس سال گزار کر دہلی کے گلی کوچوں میں ایسی شاعری بیان کر کے اسے ساز میں ملا کر بیان کیا جو آٹھ سو سال گزرنے کے باوجود بھی فن موسیقی و شعرو شاعری کی صنف میں ممتاز مقام حاصل کر چکی ۔ہندوستان میں فارسی غزل کی ابتداء بھی امیر خسرو کی مرہون منت بتائی جاتی ہے۔اس طرح سے صوفیاء کرام کے سلسلہ چستیہ سے وابستہ صوفیاء عظام میں قوالی ایک مقبول فن کی طرح گائی جانے لگی۔
مسلمان جب موسیقی کا لفظ سنتے ہیں تو ان کے ذہن میں رقص و سرور ناچ نغمے وغیروہ جیسے خیالات آتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل بھی نظر آتا ہے۔ موسیقی ایسا ورثہ ہے جس مختلف زمانوں کے عہد بادشاہت،لوگوں کے رہن سہن،رسم و رواج،ان کے دکھ درد کی داستانوں نے مختلف فن کاروں نے آلات موسیقی کو ساتھ لے کر اپنی کافی محنت سے عکاسی کی ہے۔ موسیقی کو بعض لوگ دیوی دیوتاوئں کی طرف منسوب کر کے طرح طرح کے خیالات کا اظہار کرتی ہے اور انسانی ذہن نے اس فن کو باضابطہ طور شکل دے کر فن کو انسانی جذبات احساسات کی ترجمانی کرنے کا ایک بہترین ذریعہ بیان کیا ہے۔ چونکہ صوفیاء کرام نے محفل سماع کو جاری و ساری رکھ کر عوام کو اسلام کی روح سے اسی موسیقی کے غیر ادبی زبان سے روشناس کرایا جن کے وہ پہلے سے ہی دلدادہ تھے۔ فلسفی نقطہ سے دیکھا جائے توصوفی شعرا نے موسیقی کو ایک قسم کا ابلاغی ذریعہ بنایا اور تمام مذہبی فرقہ کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرا کے ان کے دلوں میں توحید کی شمع روشن کی۔خانقاہوں،میلوں، مزاروں پر شعرا حضرات کے کلام گائے جانے لگے اور ایسے گلو کار وجود میں آئے جو صدیاں گزرنے کے با وجود بھی لوگوں کی نظروں میں معزز و مقبول ہو گئے۔
چونکہ سماع کے بارے میں صوفیوں اور علماء دین کے مابین ہمیشہ سے تناز عہ رہا ہے ایک طرف صوفیوں کی ایک جماعت محفل سماع کو لازم جز اور ایک طبقہ جن کی تعداد کافی کم بتائی جاتی ہیں سماع یا موسیقی کو عدم جواز کا قائل ہے۔عام طور پر ذیادہ تر صوفی حضرات محفل سماع کی محفیلوں کو منعقد کرانے کے حق میں تھے۔ اکثر صوفی حضرات اور علماء اسلام کی بات کریں تو دونوں طبقوں کے مابین اس سماع کے بارے میں زبانی جنگ اب بھی بدستور جاری ہے۔برصغیر میں حضرت داتا علی ہجویری ؒ کی کتاب کشف المعجوب جو کہ اہل تصوف کے نزدیک سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے میں سماع کے بارے میں اس کی حمایت و مخالفت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔حالانکہ اس سے پہلے متکلم اسلام حضرت امام غزالی نے بھی سماع کے بارے میں کافی بہت کچھ لکھا ہے۔امام غزالیؒ نے سماع پر با ضابطہ ایک باب آداب سماع پر بیان کیا ہے۔ اہل تصوف چونکہ کافی تعداد میں سماع کے قائل ہیں ان کے نزدیک سماع کی بنیادی شرط یہ ہے کہ طالب کا سچے مجاہدے کے ساتھ نفس کو فنا کرنا اور پھر صحیح مشاہدے کے ساتھ دل کو زندہ کرنا ہے۔ اگرچہ طالب صحیح معنوں میں نے نہ خود کو فنا کیا اور نہ اپنے نفس کی پہچان کرنے میں پہل کی اس کا سارا سماع،سارا ٹھاٹھ باٹھ بناوٹی ہے۔اس لئے تمام صوفیاء عظام کے نزدیک بناوٹی تصوف مزاج رکھنے والے لوگوں کے لئے رقص و سماع کی محفلیں حرام قرار قرار دی گئی۔اہل تصوف کے نزدیک مجلس سماع اس کو کہتے ہیں جب کہ اہل صفا حظوظ نفسیانی سے مجرد اور عادت شہوانی سے لا تعلق ہو کر صدق و صفا کے ساتھ صدق دل کے ساتھ طلب الہی کے ذوق و شوق میں جمع ہوں اور پابندی شرائط ضروریہ و آداب مناسبہ اصحاب حال و مواجبیدہ کا توحید و عشق میں ڈوبا ہوا کلام موزوں حسن صوت اور لحن دلکش میں سنیں اور از اول تا آخر حضور قلب سے حق تعالی کے ساتھ قیام کرنے سے نہ کسی اور غرض سے اجتماع رکھیں۔جو سماع ان لوازمات سے خالی ہے وہ سماع نہیں بلکہ بناوٹی صوفیوں کی رسم اور نمایش ہے جس کا اہل تصوف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔بلکہ پرانے زمانے سے لے کر عصر حاضر میں موسیقی کی مجلسیں منعقد کی جاتی ہے جس میں شراب ناچ میں لونڈیوں اور فاسقوں کو اکٹھا کرتے ہیں یہ مجلیسیں صرف نفسیانی خواہشات و لذت کو حاصل کرنے کا کام ہے، جو کہ شیطانی کام ہے جس کے گناہ پر شک کرنا، ان کے کافر ہونے کی دلیل ہے۔