سیاسی حلقوں میں حد بندی کمیشن رپورٹ پر ایک بار پھر بے چینی پائی جاتی ہے ۔ کمیشن کی طرف سے رپورٹ جمعرات کو منظر عام پر لائی گئی ۔ کمیشن کے ممبران کا کہنا ہے کہ یہ حتمی رپورٹ ہے جو سرکار کو پیش کی گئی ۔ رپورٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ معمولی ردوبدل کے بعد اس کو حتمی شکل دی گئی ہے ۔ معیاد مکمل ہونے سے پہلے کمیشن نے یہ رپورٹ سامنے لائی ۔ پی ڈی پی سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس رپورٹ کو سامنے آتے ہی مسترد کیا اور اسے عوامی خواہشات کے برعکس قرار دیا ۔ نیشنل کانفرنس کی طرف سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا ۔ اپنی پارٹی نے رپورٹ کو حکومت کی مرضی کا تابعدار بتایا ہے ۔ اسی طرح سے دوسرے کئی حلقوں نے رپورٹ کو جموں کے حق میں اور کشمیر مخالف قرار دیا ہے ۔ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائی ہے ۔ ان سرگرمیوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جموں کشمیر میں بہت جلد انتخابات کرائے جارہے ہیں ۔ مرکزی سرکار کی طرف سے تاحال کوئی واضح بات نہیں کہی گئی ہے ۔ تاہم پچھلے تین سالوں سے کہا جارہاہے کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ مکمل ہونے کے بعد جموں کشمیر میں انتخابات کرانے کے علاوہ اس کا ریاست ہونے کا درجہ بحال کیا جائے گا ۔ اس حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہاہے کہ یہاں بہت جلد انتخابات کرائے جارہے ہیں ۔ کئی سیاسی حلقوں کی سرگرمیوں کو دیکھ کر بھی اندازہ لگایا جارہاہے کہ بہت جلد الیکشن کرائے جائیں گے ۔ جانکار حلقوں کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آخر پر یا نئے سال کے شروع میں انتخابات کا امکان ہے ۔ اس بارے میں حتمی طور کچھ کہنا مشکل ہے ۔ اب گیند مرکزی سرکار کے کورٹ میں ہے ۔ الیکشن کا فیصلہ کرنا اس کی اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ۔
حد بندی کمیشن کی سرگرمیاں پچھلے دو ڈھائی سال سے جاری ہیں ۔ ان سرگرمیوں میں اس وقت سے بڑی تیزی پائی جاتی ہے جب کمیشن نے پہلی عبوری رپورٹ پیش کی ۔ اس رپورٹ سے سیاسی اور عوامی حلقوں میں کافی ہلچل پیدا ہوگئی ۔ پارلیمانی اور کئی اسمبلی نشستوں کی نئی حد بندی نے بہت سے حلقوں کو چوکنا کیا ۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ پہلے سے جموں کے حلقوں سے جڑے کئی علاقوں کو الگ کرکے کشمیر کے پارلیمانی حلقوں سے جوڑ ا گیا ۔ اس سے خیال کیا جاتا ہے ک ان حلقوں پر قائم کشمیر ی سیاسی حلقوں کی بالا دستی ختم ہوجائے گی ۔ اب تک روایت رہی ہے کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی دونوں جگہوں پر کشمیر میں پلے بڑے سیاسی لیڈروں کی بالادستی رہی ہے ۔ ماضی میں این سی ، کانگریس اور پی ڈی پی وغیرہ سیاسی حلقوں کے اندر کشمیر سے منتخب ہوئے سیاسی لیڈروں کا دبائو رہاہے ۔ اب اس طرح کی سیاسی بالادستی ختم ہونے کا اندازہ لگایا جارہاہے ۔ یہ مثبت پیش رفت ہے یا مبینہ طور کشمیر مخالف پالیسی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ تاہم یہ بات حتمی ہے کہ نئی حد بندی سے ایک نیا سیاسی منظر نامہ بننے کا امکان اور خدشہ ہے ۔ نئے سیاسی بیانیہ سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ نئی قیادت اور حکومت کے اندر فیصلہ کرنے کے مجاز نئے لیڈر سامنے آئیں گے ۔ مرکزی سرکار یقین دلارہی ہے کہ کشمیر میں ایک نیا سماجی اور تجارتی محاذ بنایا جائے گا ۔ بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کی ایک نئی ٹیم متعارف کرائی جارہی ہے ۔ نئی انوسٹمنٹ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عام لوگوں کو مالی صورتحال بہتر بنانے میں مدد ملے گی ۔ بے روزگاری پر قابو پانے کا امکان ظاہر کیا جارہاہے ۔ بہ ظاہر یہ ایک بڑی پریشانی ہے جس سے عام لوگ متاثر ہیں ۔ بے روزگاری نے پڑھے لکھے نوجوانوں کو بہت مایوس کیا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے لوگ سیاسی سرگرمیوں پر بہت کم توجہ دے رہے ہیں ۔ حد بندی کمیشن کی تازہ رپورٹ سے اگرچہ کئی حلقے پریشان نظر آرہے ہیں تاہم عام لوگ اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ عام لوگوں کی خاموشی معنی خیز قرار دی جارہی ہے ۔ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ مرکزی سرکار ان کی رائے ماننے کے بجائے اپنی پسند کے فیصلوں کو زیادہ اہمیت دے رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگ حد بندی کمیشن کی اس رپورٹ پر کوئی ردعمل نہیں دکھارہے ہیں ۔ کئی حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ بے روزگاری عام لوگوں کے لئے سیاسی فیصلوں سے زیادہ سنگین مسئلہ بناہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس پر ردعمل نہیں دکھارہے ہیں ۔ حقیقت کچھ بھی ہو تاہم حد بندی کمیشن کی تازہ رپورٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا امکان ہے ۔ اس سے اندازہ ہے کہ یخ بستہ برف پگھل جائے گی ۔